جان لیوا حادثات کا سلسلہ کب رکے گا؟

ایڈیٹوریل  ہفتہ 13 جولائی 2019
ماہرین کے مطابق ریلوے انفرا اسٹرکچر اوور ہیٹ ہوچکا، دس نئی ٹرینوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ فوٹو: فائل

ماہرین کے مطابق ریلوے انفرا اسٹرکچر اوور ہیٹ ہوچکا، دس نئی ٹرینوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ فوٹو: فائل

ٹرین حادثات کا تسلسل برقرار ہے ایک اوراندوہناک ٹرین حادثے کے نتیجے میں 21 افراد جان کی بازی ہارگئے جب کہ ٹرین ڈرائیوراور اسسٹنٹ ڈرائیور سمیت 104سے زائدزخمی ہوئے ،مسافر ٹرین کا انجن اور7 بوگیاں تباہ ہوگئیں، تین بوگیوں کو کٹر مشین سے کاٹ کرمسافروں کو نکالا گیا جب کہ مال گاڑی کی دو بوگیاں بھی تباہ ہوئیں۔ وہی روایتی لاپروائی اور غفلت کا چلن لے ڈوبا۔

حادثہ ہونے کے بعد مقامی انتظامیہ نے انتہائی سست روی سے ریسکیو آپریشن کیا جس کی وجہ سے مزید کئی جانیں ضایع ہوئیں، اگر امدادی کارروائیاں بروقت شروع کی جاتیں اور ان کی رفتار تیز ہوتی توکئی انسانوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں ۔

انسانی اقدار اور انسانیت کے حوالے سے ایک بہتر طرز عمل اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹرین حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر خون کے عطیات کی ضرورت تھی، اطلاع پاتے ہی شہریوں، دیہاتیوں کی بڑی تعداد خون کے عطیات دینے کے لیے اسپتالوں میں جمع ہوگئی، خون کے عطیات دینے والوں میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

بلاشبہ پاکستانی قوم میں جذبہ ہمدردی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔ٹرین حادثات کے تسلسل نے پاکستانی عوام کے دلوں میں ایک خوف پیدا کردیا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق اگست2018سے جولائی2019تک79 ٹرین حادثات میں کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکیں جب کہ محکمہ کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

شیخ رشید نے اگست 2018میں وزارت ریلوے کا چارج سنبھالا جس کے بعد ٹرینوں کے حادثات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، سب سے زیادہ 20 حادثات جون میں ہوئے، اب تک 24 قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ریلوے انفرا اسٹرکچر اوور ہیٹ ہوچکا، دس نئی ٹرینوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا، ریلوے کے ایک سابق سینئر ترین آفیسر کے مطابق جب تک سی پیک کے تحت ریلوے انفرا اسٹرکچر میں انوسٹمنٹ نہیں ہو جاتی اس وقت تک نئی ٹرینوں کے اجراء کا کوئی جواز نہیں تھا ۔

حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ٹرین حادثے کو ریلوے افسروں اور ٹیکنیکل اسٹاف نے پوائنٹ مین اور سگنلز مین کی غفلت قرار دیا ہے، محکمانہ سطح پر تحقیقات کے بعد حادثے کے ذمے دار افراد کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔

حکومت پاکستان ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرے اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ٹرینوں کا روزانہ چھ تا بارہ گھنٹے لیٹ ہونا معمول بن چکا ہے ۔ تمام ٹرینیں مقررہ وقت پر اپنی منزل تک پہنچیں گی اور وہ بھی محفوظ ترین طریقے سے تو جب ہی وزارت ریلوے عوام کی تعریف وتوصیف کے حقدار سمجھی جائے گی، ورنہ حکام خود سمجھ دار ہیں کہ انجام گلستان کیا ہوگا ۔

غفلت ، لاپروائی اور جلد بازی ہمارا قومی شعار بنتا جا رہا ہے۔ ٹریفک قوانین کو توڑنے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں وہ اس لیے کہ ٹریفک قوانین کو توڑنے والا خود کو بہادر آدمی سمجھتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد سے کسی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔

ٹریفک حادثات ہمارے یہاں تواتر سے ہوتے ہیں تازہ ترین واقعے میں واہ کینٹ براہمہ باہتر انٹر چینج کے قریب مسافر بس الٹنے سے3 خواتین اور بچے سمیت13افراد جاںبحق جب کہ 25 زخمی ہوگئے، شدید زخمیوں کو ڈسٹرکٹ اسپتال راولپنڈی منتقل کیا گیا، ادھر اپر کوہستان میں بھی ایک مسافر گاڑی کھائی میں جا گری جس سے 8 افراد جاں بحق ہوگئے۔سوات سے لاہور آنے والی بس کو حادثہ سحری کے وقت شدید بارش اور پھسلن اور تیز رفتاری کے باعث پیش آیا.

زخمی مسافروں کا کہنا تھا کہ بس ڈرائیور نہایت غفلت و لاپروائی سے بس چلا رہا تھا شدید بارش اور طوفان ہونے کے باوجود اوور ٹیکنگ بھی کررہا تھا، جس پر مسافروں نے منع بھی کیا لیکن اس نے کسی کی نہ سنی، پہلے بس بے قابو ہوئی پھر قلابازیاں کھاتی ہوئی موٹروے سے نیچے کچے میں اترگئی۔ ننانوے فیصد حادثات ڈرائیور حضرات کی غفلت اور اوور اسپیڈنگ کے باعث ہوتے ہیں ۔

ڈرائیور محفوظ رہتے ہیں اور جائے حادثہ سے بآسانی فرار ہوجاتے ہیں اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو چند پیشیوں کے بعد رہا ہو کر ’’ لائسنس ٹو کل‘‘ کے تحت مزید انسانوں کی جانیں لینا شروع کردیتے ہیں ۔ جب تک ٹریفک اور ٹرین حادثات کے ذمے دار افراد کو کڑی سزائیں نہیں دی جائیں گی یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور ہم صرف افسوس اور ماتم کرتے رہ جائیں گے ۔ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں موجود جدید نظام سے بھی استفادہ کرنا چاہیے جس کی بدولت ٹرین حادثات میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔