آڈیو ویڈیو تنازعہ

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 13 جولائی 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری نئی حکومت آئے دن ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے، بے چارے عوام اس حوالے سے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کر رہے ہیں کہ اس کے پاس آئی ایم ایف کے پنجوں سے نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔

حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے جن کڑی شرائط کے ساتھ 6 ارب ڈالرکا قرض لیا ہے وہ شرائط اتنی سخت اور خلاف انسانیت ہیں کہ اس قسم کی شرائط کے ساتھ قرض دینا نہ صرف قرض لینے والے ملکوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ انسانی قدروں کی بھی توہین ہے۔

ابھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے عوام نکلے بھی نہیں کہ ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ’’نوید‘‘ سنائی جا رہی ہے۔ خبروں کے مطابق پاکستان کی حکومت اگلے ماہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردے گی۔ اگلے تین ماہ میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد ہونا ہے۔ ایف بی آر کو ستمبر کے آخر تک 1,071 ٹریلین روپے ٹیکسوں کی مد میں جمع کرنے ہوں گے ۔

شیڈول کے مطابق بجلی کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کو جس حالت میں حکومت ملی تھی اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک 24 ہزار ارب روپے کا مقروض تھا۔ خزانہ خالی تھا، ملک کی معاشی بد حالی میں سب سے زیادہ ہاتھ پچھلے دس سال کی جمہوری حکومتوں کا ہے اور اس پر ندامت کرنے کے بجائے معاشی مشکلات کی ذمے داری نئی حکومت پر ڈالی جا رہی ہے اور عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈال کر اس کے خلاف تحریکیں چلائی جا رہی ہیں وہ قابل افسوس بھی ہیں۔

حزب اختلاف کا ایک نکاتی ایجنڈا یہ ہے کہ کسی طرح حکومت کو ہٹایا جائے۔ اس حوالے سے مخالفانہ اور شرپسندانہ الزامات کا ایک طوفان کھڑا کردیا گیا ہے ان الزامات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ کیا نئی حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام اپوزیشن کی طرف سے لگا ہے؟

اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے مرکزی رہنما کرپشن کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ اور حکومت نے اپنے دس ماہ سمیت پچھلے دس سال کے دوران کرپشن کے ارتکاب کی تحقیق کے لیے ابتدا کردی ہے اس حکومتی اعلان نے اپوزیشن کے درمیان ایک خوف پیدا کردیا ہے اور اپوزیشن کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اس تحقیق سے بچ جائے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور ’’خلائی مخلوق‘‘ تحقیق کے ارادے پر اٹل ہے اور ہر حال میں 24 ہزار ارب روپوں کی جانچ پڑتال پر مصر ہے۔

سابق حکمرانوں کے پاس اپنے آپ کو تحقیق سے بچانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ ملک میں شدید انارکی پھیلائی جائے اس ’’نیک کام‘‘ میں وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو ماضی میں حکمرانوں کی ناقابل یقین کرپشن کی حصہ دار رہی ہیں۔ ان سب کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جائے۔

عوام بجا طور پر موجودہ حکومت سے نالاں ہیں کہ مہنگائی کے پہاڑ ان کے سروں پر رکھ دیے گئے ہیں،  جو ان کی برداشت سے باہر ہیں، حکومت اور عدلیہ کی جانب سے آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف تحقیق کے لیے ادارے ترتیب دیے گئے ہیں لیکن یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ اول تو اس تحقیق کا دائرہ وسیع کیا جائے اور بلاتخصیص ان تمام لوگوں کے خلاف تحقیق کی جائے جن پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کا قوی امکان ہے اور اس تحقیق کو تحقیق برائے تحقیق تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کو انجام تک پہنچایا جائے۔

تاکہ ملک کرپٹ مافیا سے نجات حاصل کرسکے اگر ان خطوط پر تحقیق کی جائے تو اربوں کھربوں کے آمدنی سے زیادہ اثاثوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور عوام مہنگائی کے عذاب سے نجات پانے کے قابل ہوجائیں گے۔

ہمارا ملک ایک پسماندہ ترین ملک ہے جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غریب ملک کے عوام کو  کرپشن سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بدقسمتی سے اس دوران کوئی ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہو۔ اپوزیشن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس نازک موقع پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آئی ایم ایف کے  قرض سے ملک کو نجات دلانے میں حکومت سے تعاون کرے تاکہ عوام جو مہنگائی کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں اس پہاڑ سے نکل سکیں۔

ہمارے جمہوری سیاستدان بڑے فخر سے کہتے ہیں سیاستدانوں کے درمیان اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کے درمیان اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں تو سیاستدان آپس میں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ملک کو آئی ایم ایف کے انسان کش قرضوں سے بچانے کی کوشش کریں۔

اس حوالے سے تازہ واردات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک آڈیو ویڈیو عوام میں پیش کی گئی ہے جس میں نواز شریف کو سزا دینے والے جج کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے دباؤ کے تحت نواز شریف کو سزا دی ہے اس کے علاوہ بھی اور الزامات لگائے گئے ہیں۔ دوسرے ہی دن اس آڈیو ویڈیو کے حوالے سے مذکورہ محترم جج کا بیان آیا کہ آڈیو ویڈیو کی ساری باتیں جعلی ہیں مجھ پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔ محترم جج صاحب نے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف دو کیسوں میں سے ایک فیصلہ نواز شریف کے خلاف اور ایک فیصلہ نواز شریف کے حق میں میرٹ پر کیا گیا ہے۔

آڈیو ویڈیو کا مسئلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت سابق دس سالہ حکومتوں کی کارکردگی کی تحقیق کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو عدلیہ کا معاملہ ہے۔ عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت اس تنازعہ میں فریق نہیں ہے، اس حوالے سے حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اپوزیشن اس پر اعتراض اٹھا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔ عدلیہ مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہے۔ عدلیہ جو فیصلہ کرے حکومت مکمل سپورٹ دے گی۔ اس معاملے میں حکومت کو فریق نہیں بننا چاہیے۔

عمران خان کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا (ن) لیگ کے ہتھکنڈوں اور اداروں پر حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ (ن) لیگ ماضی میں بھی عدلیہ پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔ لیکن یہ نیا پاکستان ہے اب ایسا نہیں چلے گا۔ اپوزیشن کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

بلاشبہ آڈیو ویڈیو کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ آڈیو ویڈیو کا مسئلہ بہت سنگین ہے (ن) لیگ نے جو الزامات لگائے تھے ، مذکورہ جج صاحب نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔ بابر اعوان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اداروں کے خلاف سوچی سمجھی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ احتساب کے عمل میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ احتساب کا نہ رکنے والا عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ اپوزیشن متحد ہو بھی تو آئین اور قانون کی عملداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اب بحرانی کیفیت سے نکل رہا ہے جلد ہی قوم کو اچھی خبریں ملیں گی۔ خدا کرے وزیر اعظم کا یہ بیان سچ ثابت ہو اور ملک بحرانی کیفیت سے باہر نکل آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔