لوگوں کا ڈر

زہرا تنویر  پير 15 جولائی 2019
’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ سوچ کر اپنی زندگی اجیرن مت کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ سوچ کر اپنی زندگی اجیرن مت کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صبح سے گلی میں معمول سے زیادہ چہل پہل اور شور شرابے کی آوازیں آرہی تھیں۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو گلی کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹینٹ لگا کر بند کیا گیا تھا اور زور و شور سے صفائی کا سلسلہ جاری تھا۔ ہمیں معلوم نہیں تھا یہ تیاریاں کس تقریب کےلیے ہورہی تھیں، اس لیے آس پاس سے دریافت کیا تو پتا چلا کچھ دن پہلے محلے میں فوتگی ہوئی تھی، ان کے ایصال ثواب کےلیے ختم کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

ہم یہ سب انتظام و انصرام دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ بھلا اس سب کی کیا ضرورت تھی؟ ہم ختم شریف کے منکرین میں سے نہیں، لیکن حیرانی بھی اپنی جگہ درست تھی۔ وہ آدمی جس کی زندگی دو وقت کی روٹی کی فکر میں گزر گئی۔ ایک گلی سے دوسری گلی سے ہوتا اپنا خوانچہ، سردی ہو یا گرمی، موسم کی پرواہ کیے بغیر اٹھائے پھرتا رہا۔ اس کے ایصال ثواب کےلیے اتنے وسیع پیمانے پر ختم کی تیاریاں؟

پھر کچھ یوں ہوا کہ لوگ آئے، اچھا کھانا تناول کیا، تعریفوں کے انبار لگائے، اولاد کی واہ واہ ہوئی اور بس اتنی سی بات میں اس خوانچہ فروش کی یاد تازہ ہوگئی۔ اولاد بھی رشتے داروں میں فخر سے سر بلند کیے تعریفیں سمیٹتی رہی۔ جب سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے تو بچا ہوا کھانا محلے کے چند گھروں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ہماری طرف بھی خوانچہ فروش کی منجھلی بیٹی ٹرے اٹھائے چلی آئی، جس میں دو قسم کے کھانے اور مختلف پھل سجے تھے۔ ہم پھر سے حیران و پریشان۔ آخر ہم سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا۔

’’یہ اتنا سب کچھ کیسے کرلیا؟‘‘

’’باجی ہم نے ابو کے ختم کےلیے قرضہ لیا ہے۔ آخر دنیاداری نبھانی پڑتی ہے۔‘‘

’’قرضہ کیوں لیا؟ جب ساتھ والے انکل نے بولا تھا کہ وہ ختم دلوا دیں گے؟‘‘

’’چھوڑیں باجی! انہوں نے کون سا ایسا انتظام کرنا تھا۔ ایک چاول کی دیگ پکوا کر دے دینی تھی۔ ہمارے رشتے دار اور دوست احباب کیا کہتے کہ باپ کا ختم بھی اچھا نہ دلوا سکے۔‘‘

میں چاہ کر بھی اس سے یہ نہ کہہ سکی جب باپ سارے خاندان کا بوجھ اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کرکے اٹھاتا رہا، تب یہ جذبہ (رشتے دار کیا کہتے ہیں) کیوں بیدار نہ ہوا؟ سب بہن بھائی اپنے لاابالی اور نکمے پن کی وجہ سے مشہور تھے۔ آج اگر باپ کے مرنے کے بعد محبت جاگی ہی تھی تو وہ بھی اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لوگ تو جب باپ زندہ تھا تب بھی کہتے تھے نکمی اولاد۔ اس وقت اولاد کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب باپ کے جانے کی دیر تھی کہ لوگوں کی باتوں کا خیال آگیا، وہ بھی قرض کے بوجھ تلے دب کر۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مرنا بھی آسان نہیں۔ ٹھیک کہتے ہیں۔ ایسا مرنا جو آدمی کو لوگوں کو دکھاوے کےلیے قرض لینے پر مجبور کرے، ہرگز آسان نہیں۔ عموماً ایسے قرض سود سمیت واپس کرنے پڑتے ہیں۔

سوچنے والی بات ہے مرنا مشکل کس نے بنایا اور کن لوگوں نے؟ جو باتیں کرتے ہیں یا پھر جو مرنے والے کی زندگی میں قدر نہیں کرتے اور بعد میں قرض لے کر اس کے ایصال ثواب کےلیے ختم دلواتے ہیں؟ اگر لوگوں کی باتوں کا خوف ہے تو یاد رکھیں لوگ دو دن باتیں کرتے ہیں، پھر کسی اور بات کے پیچھے لگ کر پہلی والی بھول جاتے ہیں۔ اس لیے چند ایک لوگوں کی باتوں میں آکر جانے والوں کو مزید اذیت نہ دیا کریں۔ جب زندگی میں خدمت نہیں کرسکے یا آرام نہیں پہنچایا تو پھر مرنے کے بعد یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

آج وہ خوانچہ فروش بھی گلی سے مسکراتا ہوا گزرا ہوگا اور اپنے ختم کے انتظام دیکھ کر مسکراتا ہوگا۔ جس مسکراہٹ میں درد اور اذیت ہوگی اور ہاں نکمی اولاد سے ڈھیروں شکوے شکایات بھی۔ جو آج باپ کی محبت میں اس کو ایصال ثواب پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ وہ بھی اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زہرا تنویر

زہرا تنویر

عرصہ دراز سے مختلف اخبارات میں لکھ رہی ہیں، انسانی رویوں اور سماجی مسائل پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔ فیس بک آئی ڈی xahrakhr جبکہ ٹوئٹر اکاؤنٹ xahratanveer@ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔