سیلز آرڈر بمقابلہ پروڈکشن آرڈر

مدثر حسیب  اتوار 14 جولائی 2019
پروڈکشن آرڈر کی شق ارکان اسمبلی نے اپنے مفادات کے لیے منظور کروائی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پروڈکشن آرڈر کی شق ارکان اسمبلی نے اپنے مفادات کے لیے منظور کروائی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فائناننس اور اکاؤنٹینسی کا طالبعلم ہونے کے ناتے میں یہ تو جانتا تھا کہ اکاؤنٹنگ میں ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ مالیات کے مطابق جب کسی فرم کو کوئی سیلزآرڈر ملتا ہے تو وہ فرم اس مخصوص تاریخ کے آرڈر کو اپنے کاسٹ اکاؤنٹنگ ڈپارٹمنٹ کو بھجوا دیتی ہے۔ آگے کاسٹنگ والے اپنے انوینٹری والوں سے مل کر ایک پروڈکشن آرڈر تیار کرکے اپنی فیکٹری کو بھجواتے ہیں۔ اور اس طرح اس سیلز آرڈر کو پروڈکشن آرڈر سے Meet کیا جاتا ہے۔ لیکن میرا ناقص علم مقدس ایوان کے پروڈکشن آرڈر کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ کیا بلا ہے۔

سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایوان کوئی الہامی چیز نہیں ہے، جسے مقدس گائے بناکر پوجا جائے، اور جس کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرنا سب پر فرض ہوجاتا ہے۔ اس مقدس ایوان میں بیٹھنے والے مقدس افراد کو باقاعدہ جمہوری طریقے سے 51 فیصد عوام کسی خاص مقصد کےلیے 100 فیصد کے مسائل حل کرنے کےلیے منتخب کرتے ہیں، نہ کہ ان کے ذاتی مفادات کے حصول کو پورا کرنے کےلیے اور نہ ہی انگریزی میں تقریریں کرنے کےلیے، جو ہمارے عوام کو سمجھ ہی نہ آئیں۔ بلکہ معلوم نہیں وہ کون سے آقا کو خوش کرنے کےلیے کی جاتی ہیں، جس کی تعریفوں میں میڈیا کے مخصوص لوگ زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے۔ جیسے انگریزی تقریر کرنا اور بلاوجہ اونچا بولنا کسی مقدس دریا میں اشنان جیسا ہو۔

اگر ممبران اسمبلی کوئی غلط آرڈر یا قانون پاس کریں تو یہ بھی اسی عوام کا حق ہے، جس سے یہ ووٹ مانگنے آتے ہیں کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا کر کلمہ حق بلند کریں۔

بہرحال مقدس ایوان کے اس مقدس آرڈر کو سمجھنے کےلیے ہمیں “Rule of procedures and conduct of business in the national assembly” کے رول نمبر 108 کو پڑھنا پڑے گا۔ اس اصول کے مطابق ’’ہاؤس کا اسپیکر یا کسی بھی کمیٹی کا چیئرمین ہر اس ممبر کو اسمبلی میٹنگ کےلیے بلوا سکتا یا سکتی ہے، جو کسی ضمانت نہ ہونے والے جرم میں نظربند ہو‘‘۔اسی رول کے دوسرے حصے کے مطابق ’’پروڈکشن آرڈر سائن ہونے کے بعد مجاز اتھارٹی (جیل حکام یا کوئی بھی دوسرا ادارہ جہاں ملزم نظربند ہے، صوبائی یا کوئی بھی) کو پیش کیا جائے گا۔ پھر وہ اتھارٹی ملزم کو سارجنٹ ایٹ آرم (ایوان کا ممبر جو سیکیورٹی وغیرہ کے معاملات دیکھتا ہے) کو پروڈیوس کرے گی، اور بعد از میٹنگ وہ ممبر واپس مجاز اتھارٹی کے حوالے کردیا جائے گا۔‘‘

سیلوٹ ہے اس انسان کو جس نے یہ مقدس شق پروڈیوس کرکے مقدس ممبرز سے منظور کروائی، جسے سب نے جمہوری طریقے پر اسے ہنسی خوشی منظور کرلیا۔ کیونکہ ظاہر ہے آگے جاکر یہ ان کے ذاتی مفاد میں استعمال ہونا تھی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انڈین پارلیمنٹ میں پہنچنے والے ممبرز میں سے زیادہ تر کی تعداد جرائم پیشہ عناصر کی ہے، خاص طور پر 2019 کے تازہ ترین الیکشنز میں جو ہوا، سب کے سامنے ہے۔ جس میں شدت پسندی اور آتنک وادی وچار جیتے اور جمہوریت ہار گئی۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہماری اسمبلیوں میں پہنچنے والوں میں سے بھی کئی ایک جرائم پیشہ لوگ شامل ہیں یا وہ غیر محسوس طریقے سے جرائم میں ملوث یا مطلوب ہیں۔ کوئی اپنے علاقے میں ڈکیتوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو کوئی اسمگلر ہے۔ ایک منشیات فروش ہے تو دوسرا ٹارگٹ کلر ہے یا پھر قبضہ مافیا اور منی لانڈر تو ہے ہی۔

ان سب جرائم کے علاوہ یہ سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ ممبران کا اپنے ذاتی کاروبار کو پبلک انٹرسٹ کے ساتھ خلط ملط کرکے چلانا یا اپنے کسی بھی ذاتی مفاد کےلیے کام کرنا بھی اتنا بڑا جرم ہے، جتنا کہ کوئی اور بڑا جرم۔ یہی تو ایک بڑی وجہ ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ باقی غیر متعلقہ جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ جیسے منظور نظر لوگوں کو ٹھیکے دینا یا اپنی ہی کمپنی کے کاروبار کو پروموٹ کرنا، بیٹے یا داماد کے کاروبار کےلیے سرکاری فنڈز استعمال کرنا، اپنی فیکٹری کےلیے سرکاری فنڈز سے نالے بنوانا، سرکاری وسائل کو کسی بھی طرح استعمال کرنا جمہوریت کا منہ کالا کرنے کےلیے کافی ہے۔

اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں اور اپنے پڑوسی ملک انڈیا کے راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے رولز کو دیکھیں تو یہ جان کر انتہائی حیرت ہوگی کہ اس میں کوئی بھی ایسی شق موجود نہیں ہے، جس سے کوئی نظربند ملزم کو ایوان میں لانے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے سے کوئی باقاعدہ دستاویزی اصول ہی بنالیا جائے اور پھر وہ ملزم اسمبلی میٹنگ میں آکر ہاتھ ہلا ہلا کر آئین اسٹائن کو چیلنج کرتا رہے۔

دنیا کی طاقتور جمہوریتوں جیسے انگلینڈ یا امریکا میں کوئی ایسی شق موجود نہیں ہے۔ بلکہ کسی ایسے شخص کا، جس پر علی الاعلان ملک کے اداروں میں کیسز ہیں اور وہ ان کیسز میں ادھر ادھر دندناتا پھرے اور ان کو سیاسی رنگ دینے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے، ایوان میں منتخب ہونا ہی ناممکن ہے۔ کیونکہ وہاں ادارے بہت مضبوط ہیں۔ سیاست اور قانون دو الگ الگ ڈپارٹمنٹ ہیں اور الگ الگ ہی ٹریٹ کیے جاتے ہیں۔ وہاں ممبرز کا پورا فوکس قانون بنانے پر ہوتا ہے، نہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر۔ وہاں کوئی ممبر تھانیدار اپنی مرضی کا نہیں لگوا سکتا، اور نہ ہی ایسی کوئی فرمائش کرتا ہے، نہ ہی وہ فنڈز کو خردبرد کرنے کےلیے اکاؤنٹ در اکاؤنٹ کا کھیل کھیلتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ملک کے سب سے اعلٰیٰ عہدے کے حامل یعنی ایک سابقہ وزیراعظم نے اپنے صوابدیدی فنڈز سے اپنے علاقے کی گلی پکی کروا کر لوگو ں سے بہت داد وصول کی۔ اسی طرح ٹیکس چوری میں تو ہمارا کوئی ثانی نہیں۔

میرے ایک سینئر جو امریکی نیشنل ہیں، میرے پوچھنے پر بتا رہے تھے کہ وہاں اگر ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ذرا سا بھی شک ہوجائے کہ میں نے اپنی انکم (جائز انکم) کو کسی طر ح چھپایا ہے تو وہ میرا پچھلے سات سال کا آڈٹ کریں گے اور اگر ثابت ہوگیا، تو سزا دینے میں بالکل بھی تامل نہیں کریں گے (سزا میں جیل کی سزا، جرمانہ اور پراپرٹی کی ضبطی شامل ہے)۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اصول کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کا جواب اسی دستاویز کے رول نمبر 293 میں موجود ہے، جس کے مطابق ’’اگر کوئی پارلیمنٹرین، ہاؤس کے کسی رول کو بدلنا چاہے تو وہ تجویز کی بنیاد پر ایک نوٹس ہاؤس سیکریٹری کے پاس پیش کرے گا/ گی۔ پھر ہاؤس سیکریٹری اس کو پارلیمان کے 342 ممبران میں سرکولیٹ کرے گا/ گی‘‘۔ اس کے بعد اس کو تعددی برتری پر منظور کروا کر کینسل کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت کے پاس تعددی برتری موجود ہے۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ اس شق کو فوری طور پر ختم کیا جائے، تاکہ ہمارے اداروں کو مطلوب افراد پر قانون کی گرفت مضبوط ہوسکے، اور وہ کس بھی طرح رعایت نہ لے سکیں اور ملک آگے بڑھ سکے۔ دنیا میں اداروں کی مضبوطی ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے، جس کو ملک کے اندر پوری طاقت سے بحال کیا جانا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔