کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 14 جولائی 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


کیا کریں اپنی جستجو نہ گئی
دل کی آواز کو بہ کو نہ گئی
خاک ہم ہو گئے مگر دل سے
تم سے ملنے کی آرزو نہ گئی
چھو کے دیکھا تھا پیراہن ان کا
ہاتھ سے اب بھی مشک و بو نہ گئی
حال ابتر ہے فاقہ مستی میں
عادتِ جام اور سبو نہ گئی
خاک میں مل چکے ہیں ہم لیکن
رنج کی ان کی گفتگو نہ گئی
آدمی آدمی کا دشمن ہے
رغبتِ تیغ اور گلو نہ گئی
اس نے رسوا تو کر دیا ہے عظیم
تم سمجھتے ہو آبرو نہ گئی
(ابنِ عظیم فاطمی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


نئی نسلوں میں کوئی تازہ کہانی ہو گی
یہ محبت ہے، محبت نہ پرانی ہو گی
یہ گلابوں بھرے تختے ہیں تمہارے رستے
تم جہاں ہو گی وہاں رات کی رانی ہو گی
آج کے دن تو مناسب ہی نہیں سرخ لباس
تو جو آیا تو تجھے صلح جتانی ہوگی
جنّتی لوگوں کے ساماں کی تلاشی کیسی
کیا محبت بھی یہیں چھوڑ کے جانی ہوگی
جو منافق ہیں وہ دہلیز سے باہر ٹھہریں
دوست آئیں گے تبھی شام سہانی ہو گی
(احمد عطاء اللہ۔ مظفر آباد)

۔۔۔
غزل


ہرے طلسمی ہاتھ سے گھڑا ہوا مرا وجود
عدن سے خاک پر گرا جھڑا ہوا مرا وجود
ڈھلک رہا ہے روشنی کے بوجھ سے ہی لو بہ لو
کسی یقیں کے طاق پر پڑا ہوا مرا وجود
جما تو کائی پھیل کر سمندروں کو ڈھک گئی
چلا تو پھر پہاڑ سے بڑا ہوا مرا وجود
ہزار کرچیوں میں ہے بے چہرگی پڑی ہوئی
ہے یوں کسی خیال سے لڑا ہوا مرا وجود
سمے کے ساتھ بت بنا، تو یاد گار ہو گیا
ازل سے انتظار میں کھڑا ہوا مرا وجود
ابھی مرے جلال کے جمال میں ہے دشت بھی
ابھی ہے رزم گاہ میں پڑا ہوا مرا وجود
(راشد امام۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


گماں کو دور حقیقت کو پاس رکھتا ہوں
کچھ اس طرح سے میں خود کو اداس رکھتا ہوں
دلیل دے کے تری بات میں سمجھ پاؤں
اب اس طرح سے نہیں ہوں حواس رکھتا ہوں
شراب اور وہاں پر ملیں گی حوریں بھی؟؟
اگر یہ سچ ہے تو بوتل گلاس رکھتا ہوں
تعلقات بھلا کیوں کسی سے ٹوٹیں گے
توقعات کسی سے نہ آس رکھتا ہوں
یہ اور بات کے پھوٹی نہیں وفا مجھ سے
میں بے اساس نہیں ہوں، اساس رکھتا ہوں
کمال میرا نہیں ہے یہ ماں کی لوری ہے
یہ گفتگو میں جو اتنی مٹھاس رکھتا ہوں
میں اب نگاہوں کا مرکز نہیں رہا اختر
میں آج کل جو بدن پر لباس رکھتا ہوں
(اختر مجاز۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل


اس خیش قبیلے میں ونی ہو کے مروں گی
میں بخت جلی ہوں تو شنی ہو کے مروں گی
سنسان نہیں ہوگا مری قبر کا رقبہ
کتبے کی سجاوٹ سے غنی ہو کے مروں گی
ہے قرض مرے جسم پر اُس شیر طلب کا
معراجِ عزا سینہ زنی ہو کے مروں گی
یہ زلف سفیدی سے ثمر دار ہوئی ہے
جاگیرِ برادر میں گھنی ہو کہ مروں گی
لہراتے ہوئے پھن سے کوئی خوف تو نہ کھا
میں وقتِ دعا ناگ منی ہو کے مروں گی
پربت سے مرا ساتھ بھی اک چال تھی ساگر
کہ طور کی مٹی سے دھنی ہو کے مروں گی
(ساگر حضور پوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


زمانے بھر کی ہر اک چیز تو پرائی ہوئی
خدا کا شکر ترے دل تلک رسائی ہوئی
تو ایک روز مجھے چل کے ملنے آیا تھا
تری تھکن ہے مرے جسم میں سمائی ہوئی
یہ دشمنوں کا چلو ایسا کرنا بنتا تھا
مگر جو تہمتیں اپنوں نے ہیں لگائی ہوئی
ہمیشہ جذبے ہی تضحیک کا نشانہ بنے
ہمیشہ اہلِ محبت کی جگ ہنسائی ہوئی
ہیں بندشوں سے زمانے کی کب بھلا آزاد
ہمارے شعر ہوئے یا تری کلائی ہوئی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


یہ زرد موسم کے پھول سارے محبتوں کا حصول ٹھہرے
اداس آنکھوں کی چلمنوں پر وفا کے موتی فضول ٹھہرے
وصال لمحوں کے منتظر ہیں رکے ہوئے یہ تمام منظر
کبھی جو آؤ تو درد ٹھہرے یہ آنسؤں کا نزول ٹھہرے
سنا ہے اس نے رقیبِ دل کو مری وفا کی مثال دی ہے
اگر یہ سچ ہے یقین مانو مجھے یہ سب دکھ قبول ٹھہرے
گُلوں کے عادی ہیں لوگ سارے یہ سرخ قالیں پہ چلنے والے
عبث نہ آئیں ہماری جانب کہ راستوں میں ببول ٹھہرے
سکھا نہ مجھ کو اے میرے واعظ عقیدتوں کے سلیقے اپنے
میں جس کو چاہوں میں جیسے چاہوں یہ میرے اپنے اصول ٹھہرے
اچھالا جس نے بھی مجھ پہ کیچڑ کیا ہے جس نے بھی مجھ کو رسوا
مری دعا ہے مسرت اس پر، نہ دھوپ برسے نہ دھول ٹھہرے
(مسرت عباس ندرالوی۔ چکوال)

۔۔۔
غزل


چاہوں تو میں دنیائے خرابات میں گھوموں
یعنی کہ مسلسل ہی سماوات میں گھوموں
دیکھو کہ ہتھیلی پہ مری جان پڑی ہے
مشکل نہیں دنیا ترے خدشات میں گھوموں
ملتے ہیں مجھے روز ترے شہر سے طعنے
ایسا ہے تجھے ڈھونڈنے اب رات میں گھوموں
اب تک تو سنی ہیں میں نے واعظ تری باتیں
اب دل ہے کہ میں شہرِ خرافات میں گھوموں
حالاں کہ میں صادق ہوں مرا نیک نسب ہے
کہتے ہیں مجھے لوگ میں اوقات میں گھوموں
ویسے تو میں خوابوں کا بھرم توڑ چکا ہے
آنکھیں مری کہتی ہیں میں صدمات میں گھوموں
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


تمہارے پاس بہت سی ادائیں باقی ہیں
ہمارے پاس اب تھوڑی دعائیں باقی ہیں
یہ ہم تھے جھیل گئے سب، ملا نہ ہم سا تو
کسے سناؤ گے جو سزائیں باقی ہیں
گیا نہیں ہے نظر سے وہ ہو گیا اوجھل
یہ تم بھی جانتے ہو آتمائیں باقی ہیں
جو اس کی یاد کے بادل تھے رات بھر برسے
دل و دماغ پہ اب بھی گھٹائیں باقی ہیں
ہم اس کی چیز ہیں وہ چاہے جب فنا کر دے
ہمارے پاس فقط التجائیں باقی ہیں
(غزالہ تبسم غزال۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


اتارا شیشے میں اک شیشہ باز نے ہم کو
بہاروں میں دیا غم جاں گداز نے ہم کو
خیال حسن ہی باغِ بہشت ہوتا ہے
بڑی تسلیاں دیں ہیں فراز نے ہم کو
حجابِ راہ ہے منزل نہیں رباب و چنگ
دیا ہے راز محبت کے ساز نے ہم کو
لبادہ اوڑھ کے مٹی کا چھپ گیا ہے خود
گناہ گار کیا امتیاز نے ہم کو
ہمارا ضبط ہمیں ہی فنا کرے گا سیف
کہیں کا چھوڑا نہ اس دل نواز نے ہم کو
(سیف علی عدیل۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


سفر میں کیوں نہ ہوں ممنون پانی کے بہاؤ کا
سلامت ہے کہاں کوئی بھی تختہ میری ناؤ کا
تمھارے اور میرے درمیاں یہ فاصلے کیوں ہیں
گزرتی عمر ہے بدلو ذرا لہجہ تناؤ کا
سنا ہے تم نے کافی کی ہے تبدیلی رویے میں
ابھی تک یاد ہے مجھ کو مزا لفظوں کے گھاؤ کا
میں چادر سَر پہ لیتا ہوں تو پیروں پر نہیں ٹکتی
زمانہ مشورہ دیتا ہے مجھ کو رکھ رکھاؤ کا
ہمیں جو راہ بروں کا خوف جینے ہی نہیں دیتا
تو کیوں ناں فیصلہ کچھ ہٹ کے کر جائیں چناؤ کا
(طاہر فردوس گوندل۔ تھابل سرگودھا)

۔۔۔
غزل


اداس پل میری سانسوں کے چھین لے کوئی
یہ خار بھی میری راہوں کے چھین لے کوئی
خراب کر کے جو عادت یہ چھوڑ دیتے ہیں
سکون بے وفا بانہوں کے چھین لے کوئی
یہ مجھ کو یاد دلاتے ہیں تیرے چہرے کی
یہ رنگ روپ گلابوں کے چھین لے کوئی
گھٹن گھٹن ہے تعفن زدہ یہ بستی ہے
سیاہ دور رواجوں کے چھین لے کوئی
اگر نصیب یہ محتاج ہے لکیروں کا
تو یہ نقوش بھی ہاتھوں کے چھین لے کوئی
زہر ہی زہر ہے خوش رنگ قبا کے پیچھے
یہ پیرہن تیرے لفظوں کے چھین لے کوئی
(عامرمعان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل


زمین ہجر میں گردن تلک گڑا ہوا ہوں
میں تجھ کو ہار کے اب سوچ میں پڑا ہوا ہوں
ہر ایک سمت ہے شورش، بلا کی وحشت ہے
میں دشت زاد ہوں اور شہر میں کھڑا ہوا ہوں
یہ عشق موت کے اسباب پیدا کرتا ہے
میں تیس سال سے اِس بات پر اڑا ہوا ہوں
کِیا تھا آپ نے ثروت کا ذکرِ خیر جہاں
میں احترام میں اب تک وہیں کھڑا ہوا ہوں
خدا کرے کہ تجھے بندگی پسند آئے
میں خاک ہو کے تری راہ میں پڑا ہوا ہوں
میں قہقہوں کے قبیلے کا آدمی تھا مگر
عجیب ہے کہ گلے دشت کے پڑا ہوا ہوں
بتا رہے تھے یہ فیصل امامِ عشق مجھے
میں انتظارِ مسلسل سے چڑچڑا ہوا ہوں
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
محوِ دیدارِ یار ہوتے ہیں
ہم سدا پُر بہار ہوتے ہیں
وہ بھی کیا غم گسار ہوتے ہیں
جو مصیبت میں یار ہوتے ہیں
اُن فقیروں کو کون پوچھے گا
جو سرِ رہ گزار ہوتے ہیں
کچھ شکاری کبھی کبھار یہاں
اپنے ہاتھوں شکار ہوتے ہیں
اُن کو منزل پکار اُٹھتی ہے
جن کے دشمن ہزار ہوتے ہیں
کچھ پتنگے چراغ پر صادق!
لڑکھڑا کر غبار ہوتے ہیں
(محمد ولی صادق۔ سناگئی کوہستان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔