عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ

ایڈیٹوریل  اتوار 14 جولائی 2019
اپوزیشن کی تحریک کی آڑ میں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے مطالبات و مراعات کو منوا لیا ہے

اپوزیشن کی تحریک کی آڑ میں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے مطالبات و مراعات کو منوا لیا ہے

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی کے مطابق آٹا، میدہ، سوجی، دال اور کسی کھانے کی شے پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، نان روٹی کی قیمت میں اضافے کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمے داری ہے، چھوٹے دکان داروں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کو تیار ہیں۔

مان لیتے ہیں کہ چیئرمین ایف بی آر جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکسز نے ملک میں شدید معاشی بے چینی کو جنم دیا ہے، ان ڈائریکٹ ٹیکسز عوام پر منتقل ہوچکے ہیں۔ تاجر تنظیموں نے ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی ہے، حکومت اور تاجروں کے درمیان ٹکراؤ اور تصادم کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جس سے ملکی صنعت و تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت تاجربرادری کے تحفظات دوکرنے کے لیے ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرے۔ غیر ضروری ٹیکسز میں ریلیف دیا جانا چاہیے ۔ حکومتی دعووں کے باوجود ملک میں کئی جگہوں پر روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے جس کے منفی اثرات غریب اور مزدورطبقے پر براہ راست مرتب ہوئے ہیں۔ پشاورکے نان بائیوں نے ہڑتال بھی کی ہے۔ ادھر ملک میںبیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جن میں انجینئرز، ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔

سرکاری ملازمتوں پر جاری پابندی کے باعث در بدرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہیں۔ نجی شعبے میں بھی ملازمتیں کم ہورہی ہیں۔ بیروزگاری کا آسیب نئی نسل کو نگل رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرکے ادارے تو انتہائی قلیل معاوضے پر ڈگری یافتہ نوجوانوں سے بیگار لے رہے ہیں۔کیا ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ صرف انتخابی نعرہ تھا۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2019 میں تجارتی خسارے میں کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے تجارتی خسارے میں کمی میں تو کامیابی حاصل کی لیکن وہ برآمدات میں اضافے کے لیے موثر اقدامات نہ کرسکی جس کی شرح اس کے روایتی حریف ن لیگ کے دور سے بھی نیچی رہی ہے۔

مالی سال 2018-19 میں برآمدات23ارب ڈالر رہیں جو ہدف سے 4ارب ڈالر کم ہے۔ گزشتہ مالی سال میںتجارتی خسارہ37.6ارب ڈالر تھا جو مالی سال 2018-19 میں 5.8 ارب ڈالر کم ہوگیا۔ درآمدات 9.9فیصد کم ہوکے54.8ارب ڈالر پر آگئی ہیں جس سے حکومت کو کچھ ریلیف ملاہے۔ گو حکومت کو مشکل مالی حالات ملے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کو موجودہ جمہوری حکومت سے تاحال کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہرکے بعد سے حکومتی وزراء خاموش ہیں۔ ریاست کا کردار بنیادی طور پر یہ ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کی طرف سے منافعوں کے حصول کی کوششوں اور شرح کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دے۔

انتہائی دکھ کی بات ہے کہ عام صارفین کو منڈی کے بے رحم اور استحصالی میکنزم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مہنگائی کا کوئی نہ کوئی ’’ بم ‘‘ نہ گرتا ہو۔کبھی بجلی،کبھی گیس ،کبھی پانی کے بلوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔کچھ نہ ہو تو ڈالر ہی پرواز شروع کردیتا ہے۔ تادم تحریر ڈالر 158روپے پر فروخت ہورہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار چلی آرہی ہے۔ افراط زرکی شرح سنگل ڈجٹ سے نکل کر ڈبل ڈجٹ میں پہنچنے والی ہے۔ غذائی مصنوعات کی قیمتوں پرکنٹرول کمزور پڑنے سے غریب آدمی سب سے زیادہ متاثرہوا ہے۔

حکومت کہتی ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں، یہ اچھے دن کب اورکیسے آئیں گے، صحیح طور پر نہیں معلوم۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں گھبرانا نہیں ہے۔ سچ بتائیں غریب کیوں نہ گھبرائے؟ غذائی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ غریب عوام کے لیے انتہائی مہلک ہے ،مہنگائی میں اضافہ اب اس قدر معمول کی بات بن گیا ہے کہ اب یہ خبرہی اہمیت کھو چکی ہے۔

خبر تو یہ ہو گی کہ کون کون سی چیز مہنگی نہیں ہوئی۔خیال رہے، ادارے جو ٹھان لیتے ہیں وہ کرتے ضرور ہیں۔اس لیے اگر انھوں نے گیس کی قیمتوں میں241 فیصد اضافے کا سوچا تھا تو وہ ابھی اس کو بھولے نہیں ہوں گے۔ یہ اضافہ وہ کریں گے ضرور۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق دہاڑی دارمحنت کشوں کی آمدن میں ساڑھے نو فیصد اضافہ ہوا جوکہ مہنگائی میں اضافے سے کافی کم تھا، چنانچہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی حالت زار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

سی این جی کی قیمتوں گیارہ ماہ کے 48 روپے اضافے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم وبیش پہلے جیسی ہی ہیں۔ جب کہ نجی شعبے کے چھوٹے ملازمین کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ معیشت کیوں گر رہی ہے؟سب سے اہم وجہ تو غیرملکی قرضوں پر اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر انحصار ہے۔ ڈالرکی کمی کا معاملہ سنگین تر ہو چکا ہے۔ معاشی مشکلات میں اضافے کا ایک اور سبب نئی مارکیٹوں کی تلاش میں ناکامی ہے۔

ترقیاتی سرگرمیوں میں لگنے والا سرمایہ ان چند کمپنیوں اور اداروں کی خوشحالی کا باعث بن رہا ہے۔دوسری طرف نقصانات میں کوئی کمی نہیں ہو رہی۔ پاور سیکٹر میں بھی 1400 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ جمع ہوچکا ہے۔ بلاشبہ اشیائے صرف کے نرخ پٹرولیم مصنوعات سے منسلک ہیں جن میں اضافے کی صورت میں ہر شے کے نرخوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، ہر شے کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے، حکومت کی پالیسی کہیں نظرنہیں آ رہی ماسوائے سیاسی محاذ پر اپوزیشن رہنماؤں پر تبرا بھیجنے یا انھیں جیلوں میں ڈالنے کے لیے ۔ عوام کو جو سبسڈی دستیاب تھی موجودہ حکومت وہ بتدریج ایک ایک کرکے ختم کررہی ہے جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے اور جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے اثرات سے زیادہ تر غریب عوام ہی متاثر ہورہے ہیں ۔

عوام کو ریلیف دینے کے بجائے حکومتی وزراء مژدہ سنا رہے کہ عوام کو قربانی دینا پڑے گی ۔کیا وہ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ انھوں نے اب تک کتنی قربانی دی ہے اور عوام ہی قربانیاں کیوں دیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے اپنے اخراجات کم کیے ہیں؟ اگر کیے ہیں تو کتنے کیے ہیں ؟ حکومت نے وزراء اور مشیران کی فوج بھرتی کررکھی ہے۔ کیا یہ بغیر مراعات کے کام کررہے ہیں؟

اپوزیشن کی تحریک کی آڑ میں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے مطالبات ومراعات کومنوا لیا ہے۔ ایک غریب اور بدحال ملک میں اتنے وزیر اور مشیر بھرتی کرنے کی کیا ضرورت ہے ، ان کی جگہ محکموں سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ پاکستان کی تاریخ میں روپے کی قدر میں اتنی کمی اس سے قبل نہیں ہوئی، آیندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح 7.5 تک پہنچ چکی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت مجبور ہے، معاشی طور پرکمزور ہے تو حکومتی وزراء اور مشیران کی تعداد میں کمی کیوں نہیں کی جاتی؟کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہرگزرتا دن عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔