حسن منظر: نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا

زاہدہ حنا  اتوار 14 جولائی 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ادیب ، شاعر، مصور، موسیقار کسی داد کے بغیر اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ وہی معاملہ ہے کہ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا۔ ہمارے یہاں بہت سے ایسے لوگوں نے خاک پر اپنا بستر بچھایا۔ جن کا ہم نے حق ادا نہیں کیا۔

اب بھی چند ایسے ہیں جو پوپھٹے اٹھتے ہیں،کوئی کاغذ قلم لے کر بیٹھتا ہے اور لکھتا رہتا ہے،کوئی اپنے تان پورے یا ستار پر ریاض کرتا ہے۔ ہم جو ان پر فریفتہ ہیں ان کے لکھے ہوئے لفظ اور ان کی راگنی پر صدقے قربان ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ سرکار ان کا اعتراف کرے، ان کی زندگی بھر کے کام پر انھیں کسی اعزاز سے نوازے لیکن جب انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو انھیں دکھ نہیں ہوتا لیکن ہم اسے ان کے ساتھ اور ادب کے ساتھ ناانصافی خیال کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی مرحلہ تھا۔ مجھ ایسے لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ نثار عزیز بٹ جو 90 کو ٹپ چکی ہیں اورجن کے بے مثال ناولوں نے ہمارے ادب کو مالا مال کیا ہے، یا 85 برس کے ڈاکٹر حسن منظر جن کی کہانیاں اور ناول ہمیں دیس دیس کے دکھ درد کی داستان سناتے ہیں، انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا جائے گا۔

ہماری یہ توقع خیالِ خام ثابت ہوئی اور قرعۂ فال کسی اورکے نام نکلا۔ جن کا نام اس اعزازکا اہل ٹھہرا وہ خوش رہیں، شاد آباد رہیں، لیکن دل میں کھٹک رہی۔ یہی خلش آج کی تحریرکا سبب ہے۔ نثار عزیز بٹ صاحبہ کے بارے میں کچھ دنوں پہلے ایک قسط وارکالم لکھ چکی ہوں۔ ان دنوں ڈاکٹر حسن منظر بہت یاد آئے۔ ان کی زندگی کا ایک طویل حصہ مسافرت میں گزرا۔ تین براعظموںکی دھول ان کے پیروں کولگی ہو اور شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوںجن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔

وہ 85 برس پہلے یوپی میں اشراف کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باضمیری اور وطن پرستی ان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ ان کا نسب نامہ اس دادا کے وجود سے روشن ہے جس نے 1857 کی جنگ آزادی میں بغاوت کا سرنامہ لکھا، فرنگی سرکارکی طرف سے سرکی قیمت مقرر ہوئی لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور سولی ان کے زیب گُلو نہ ہوئی۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل معاملہ تونیتوں کا ہے۔ داد وطن پرست تھے۔ پوتے کو بھی انسان دوستی اور وطن پرستی ورثے میں ملی۔ یہی ورثہ تھا جس نے انھیں ایک وسیع النظر اور بنی آدم سے عشق کرنے والا ، اس کا دکھ سکھ اپنے سینے میں سمیٹنے والا اور اسے اپنے قلم سے کاغذ پر اتاردینے والا ادیب بنا دیا۔

ان کی کہانیاں ہمیں ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، انگلستان، مصر، فلسطین، ملایا، نائیجریا، سعودی عرب اورکہاں کہاں نہیں لے جاتیں۔ سندھ کے ہاریوں کے دکھ ان کا سینہ کھرچتے ہیں، ان کی کہانیوں میں ہر جگہ دکھ بھوگتا ہوا انسان ہے۔ روندی ہوئی عورتیں ہیں۔ در بہ در پھرتے ہوئے بچے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک بھولا بسرا فلمی گیت یاد آتا ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کو مرا سلام۔ 1947 کی اکھاڑ پچھاڑ میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پہلے لاہور پہنچے اور پھر کراچی۔ اس کے بعد ان کے قدم کہیں نہیں تھمے۔ وہ کراچی سے حیدرآباد گئے۔

سندھ کا تاریخی اور دل آویز شہر۔ اردو اور سندھی کے اس ملاپ نے ان کی تحریروں میں کیسی حلاوت اور دل آویزی سمو دی۔ ندی۔ رہائی۔ سوئی بھوک۔ اک اور آدمی۔ انسان، اے انسان۔ دھنی بخش کے بیٹے۔ خاک کا رتبہ۔ العاصفہ۔ ان کی کہانیوں او ر ناولوں کے موضوعات میں وہ تنوع ہے جو قرۃ العین حیدر کے متنوع موضوعات کی یاد دلاتا ہے۔

ان کا ناول ’’حبس‘‘ اردو میں بیان ہونے والا ایک ایسا نادرہ کار قصہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے اس عالم نزع کا قصہ ہے جو 360 صفحوں پر پھیلا ہوا ہے۔ شیرون اسپتال کے ایک آرام دہ بسترپر دراز ہے اور مشینوںسے جڑا ہوا ہے۔ اپنے محسوسات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ’’آج جسم میں کوئی چیز نہیں کاٹ رہی ہے۔ نہ آوازیں ہیں۔ جسم میں جان کی رمق ہے اور فرصت ہی فرصت۔ آرام سے ماضی کا لطف لے سکوں گا۔

مرنے کے بعد فرصت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج تنگ کرنے والوں سے چھٹکارا ہے۔‘‘ یہاں سے بیسویں صدی کے اس جرنیل کے لمحہ لمحہ مرنے کا قصہ شروع ہوتا ہے جسے جلاد اعظم کہنا غلط نہیں تھا۔ وہ اسرائیل کی عظمت کے خبط میں مبتلا تھا۔ اپنے اس خواب کو شرمندۂ تکمیل کرنے کے لیے اس نے فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ایک ڈچ فلم ڈائریکٹر نے لکھا کہ جب لبنان میں بے گھر اور در بہ در فلسطینیوں کے کیمپوں کو شیرون کے اسرائیلی ٹینکوں نے گھیر لیا تو اس نے کرائے کے ان فوجیوں کو جو فلانجسٹ تھے تین ہزار فلسطینیوں کو خاک وخون میں سلا دینے کا حکم دیا۔ اس روز میں نے ایرک کو دیکھا، اس کے ہاتھ میں پستول تھا، وہ فلسطینی بچوں کو اپنے پستول سے یوں شکار کر رہا تھا جیسے وہ خرگوش ہوں۔

وہ فلسطینیوں کا ستھراؤ کرنے کے لیے انھیں خون میں نہلاتا رہا اور پھر ایک روز اس پر فالج کا حملہ ہوا، دل کا دورہ پڑا اور وہ کسی گولی کا نشانہ بنے بغیر اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ دنیا کے اعلیٰ ترین سرجنوں نے اس کے آپریشن کیے، ڈاکٹروں نے اسے بہترین دوائیں دیں لیکن وہ بیدار نہ ہوا اور زندگی کے 8 برس اس نے بستر پر بسر کیے۔ اس کی آنکھوں میں خفیف سی جھری تھی۔ حسن منظر نے ایک ماہر قصہ گو کی طرح آنکھ کی اس جھری سے شیرون کا قصہ لکھا۔ 360 صفحے کے اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ وہ نفرت کے پیٹرکا بیان کرتا ہے، جس کی جڑ انسان کے دل میں ہے۔ اسے ہوائی جہازوں کی گونج دار آواز دل خوش کن محسوس ہوتی ہے اور گولہ باری کی آواز اس کے دل کو لبھاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے گولہ باری سے زیادہ مدھر آواز کسی ساز سے پیدا نہیں کی۔

وہ یہ بات کہنا نہیں فراموش کرتا کہ ’’ مذہب کے سیاسی بن جانے کے بعد اس زمین سے امن اور آشتی رخصت ہوجائیں گے‘‘ بستر مرگ پر لیٹا ہوا سابق اسرائیلی وزیر اعظم یہ بات نہایت فخر سے کہتا ہے کہ اسے فتح سے محبت ہے۔ وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتا کہ وہ ہٹلرکا احترام کرتا ہے جس نے یہودیوں کو یہ سکھایا کہ نسلی برتری بھی کوئی چیز ہے اوراسے برقرار رکھنے کے لیے ہر ہتھیار کا استعمال جائز ہے۔ وہی فلسفہ کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔

اسے یہودیوں اور غیر یہودیوں کی شادی سے نفرت ہے۔اس کے خیال میں خون میں ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے تب ہی ایک فاتح اور اعلیٰ نسل جنم لے گی۔

اسے ’’یوم سبت‘‘ منانے والے یہودیوں سے بھی نفرت ہے۔کہتا ہے کہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ زائیون (صہیون) کی بنیاد رکھتے ہوئے ہمیں عربستان کی زمین پر بسنے والے ان کٹر یہودیوں سے بھی نجات حاصل کرلینی چاہیے تھی جو ہفتے کا ایک پورا دن ضایع کردیتے ہیں۔ یہاں حسن منظر نے ایک نظم کا حوالہ دیا ہے۔

نجف سے آتی… آوازسنائی دے رہی ہے…ایک کپکپاتی آواز…پر ہے سریلی، کہیں ٹوٹتی ہوئی نہیں…ایک بوڑھا تنبورے پر گارہا ہے…وہ میرا ماں باپ کی طرح جانا پہچانا…فلسطین کہاں گیا…جن میں فکروں سے آزاد تھے ہم…چوبیس گھنٹے جنگ کے لیے…تیار نہیں…جنگ کرتے توکس سے؟… مسلمانوں، عیسائیوں سے؟…اپنوں سے؟…وہ دن کیا ہوئے جب ہمارے…یہود مذہب کو مذہب سمجھتے تھے…اور ملک کو ملک…کسی ایک کی نسلی میراث نہیں…آل یعقوب کی گم کردہ میراث نہیں…آل آدم کے لیے…پھر پوجا کے لیے سونے کا بچھڑا بھیجا…دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا…دعویٰ کرنے والے قارون نے۔‘‘… اچانک ایک فائر ہوا اور سوز سے بھری آواز رک گئی…ایک آواز نے پوچھا…’کون تھا وہ…اپنے فلسطین کا برہا گانے والا…کوئی بوڑھا یہودی!

موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے، اس کی تصویر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔ یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔

حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائیکیٹرسٹ ہیں انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت ’’حبس‘‘ میں صرف کردی ہے۔ اور اردو کو ثروت مند کیا ہے۔ مجھ ایسے بے بضاعت اور معمولی لکھنے والے ان کو لفظوں کے لعل وگہر نذرکرسکتے ہیں کہ یہی ہماری بساط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔