کسی کو بتانا نہیں …

شیریں حیدر  اتوار 14 جولائی 2019
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ آپ کو ایک بات بتاؤں ماما ؟ ‘‘ میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ کر، اس نے اپنی گول گول شرارتی آنکھیں گھما کر سوال کیا۔

’’ ہاں بتائیں … ‘‘ میں نے اپنے بازو اس کے گرد پھیلائے۔

’’ لیکن یہ میرا سیکرٹ ہے اور آپ نے کسی کو بتانا نہیں !!‘‘ اس نے رازداری سے میرے قریب ہو کر کہا۔

’’ ٹھیک ہے ‘‘ میں نے اسے یقین دلایا اور اپنا کان اس کے منہ کے قریب کیا ۔

’’ مجھے نا… ‘‘ اس نے کہتے ہوئے رک کر دائیں بائیں دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی اور تو نہیں سن رہا۔ اس کے والدین اداکاری کر رہے تھے کہ وہ اس کی بات نہیں سن رہے تھے۔ وہ پھر میری طرف پلٹا، ’’ مجھے نا، فرنچ فرائیز بہت اچھے لگتے ہیں ! ‘‘ اس نے بات کہی اور میرے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ’’ آپ نے کسی کو بتانا نہیں ماما، کسی کو بھی نہیں ، پاپا کو بھی نہیں… اوکے!! ‘‘

’’ کسی کو بھی نہیں بتاؤں گی میری جان! ‘‘ میںنے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔

’’ کب بنا کر دیں گی مجھے؟ ‘‘ اس نے اگلا سوال کیا تو میری ہنسی نکل گئی۔

’’ میں آپ کو بنا کر دوں گی تو آپ کا سیکرٹ لیک ہو جائے گا نا !!‘‘ میںنے کہا ۔

’’ کوئی بات نہیں ‘‘ اس نے لاپروائی سے کہا، ’’ اب آپ مجھے کوئی سیکرٹ بتائیں ماما!! ‘‘

’’ اوکے… مجھے نا مروان سے بہت پیار ہے!! ‘‘ میں نے اس کے گال پر بوسہ دے کر اس کے کان میں کہا، ’’ اور یہ بات آپ نے کسی کو نہیں بتانی، کسی کو بھی نہیں! ‘‘

’’ میں اور تو کسی کو نہیں بتاؤںگا مگر ممی اور ڈیڈی کو تو بتانا پڑے گا!!‘‘ اس نے چالاکی سے آنکھیں مٹکائیں ۔

’’ یہ تو ٹھیک نہیں نا، یہ تو ماما اور مروان کا سیکرٹ ہے نا بے بی!!‘‘ میں نے منہ بسورا۔

’’ لیکن ماما… بے بی کا کوئی سیکرٹ بھی ہو، ممی اور ڈیڈی کو بتانا ضروری ہے اس کے بغیربے بی کو ممی اور ڈیڈی سے پیار نہیں ہو سکتا!!‘‘ اس نے وضاحت کی۔

’’ پلیز مروان !! ‘‘ میں نے ناراض ہونے کی اداکاری کی۔ جانتی تھی کہ اس کی تربیت کا حصہ ہے اور میں اسے ٹیسٹ ہی کر رہی تھی کہ وہ کس درجے پر جا کر جذباتی طور پر اتنا بلیک میل ہو سکتا ہے کہ کسی اور کا سیکرٹ اپنی ممی اور ڈیڈی سے شئیر نہ کرے، ’۔’ ماما اداس ہو جائیں گی، آپ سے ناراض بھی ہو سکتی ہیں!!‘‘

’’ پلیز ماما ، اپ سیٹ نہ ہوں ، ممی ڈیڈی کسی کو آپ کا سیکرٹ نہیں بتائیں گے!!‘‘

’’ لیکن آپ اپنے ممی ڈیڈی کو کیوں بتاؤ گے میرا سیکرٹ؟ ‘‘

’’ کیونکہ ممی ڈیڈی کہتے ہیں جو بے بی اپنے ممی ڈیڈی کو اپنا سیکرٹ نہیں بتاتے ، اللہ میاں ان کو کسی مشکل میں ڈال سکتے ہیں، کوئی ان بچوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے!! ‘‘

’’ لیکن میں آپ کو کیا نقصان تو نہیں پہنچاؤں ، پلیز… نہ بتائیں نا ممی اور ڈیڈی کو! ‘‘ میںنے اس کی منت کی، ’’ ماما آپ کو نہلاتی بھی ہیں، اچھا سا ناشتہ بھی بنا کر دیتی ہیں، گاڑی میں ساتھ مال بھی لے کر جاتی ہیں… الہ دین والی مووی بھی دکھائی تھی آپ کو ، پھر بھی آپ ماما کا سیکرٹ نہیں رکھ سکتے ؟ ‘‘

’’ پلیز ماما!! ‘‘ وہ چڑ سا گیا، بچہ تھا نا، ’’ پلیز مجھے بتانے دیں ممی ڈیڈی کو!! ‘‘ بلند سرگوشیوں میں ہونے والی ، اس ساری بات چیت کے دوران اس کے ممی ڈیڈی اور پاپا ، اندر سے اٹھنے والی ہنسی کو دباتے ہوئے ، یوں بیٹھے تھے جیسے کہ وہ اس ساری گفتگو کو سن ہی نہ رہے ہوں ۔ کہیں کہیں جب وہ زور دے کر بات کرتا تو اس کی آواز بلند بھی ہو جاتی تو وہ خود ہی منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر ہنس دیتا۔

چار سال کے اس پٹاخہ سے بچے کی گفتگو نے مجھے حیران سے زیادہ خوش کیا تھا کہ اس نے ماں باپ کی اس بات کو یوں پلے سے باندھا تھا۔ اللہ اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے لیکن کم از کم یہ تسلی تو ہوئی کہ اس کے بچپن سے ہی اس کے دل میں یہ خیال پختہ ہے کہ جو آپ سے کسی بات کو خفیہ رکھنے کو کہے اور کسی اور کو بتانے سے منع کرے ، وہ آپ کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔

’’ میں نے بھی تو آپ کا سیکرٹ رکھا ہے نا!! ‘‘ میںنے اسے ناراض صورت بنا کر کہا۔

’’ آپ بھی میرا سیکرٹ اپنے ممی ڈیڈی کو بتا دیں ! ‘‘ اس نے آسان مگر ناقابل عمل حل بتایا۔

’’ اچھا… اگر ماما آپ کو چاکلیٹ یا چاکلیٹ کیک دیں تو کیا خیال ہے؟‘‘ میںنے اسے وہ لالچ دیا کہ جس کے آگے مجھے یقین تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے گا۔

’’ پلیز ماما!! جو بھی ہو، آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں یا آپ مجھے فرائیز نہ بنا کردیں یا مجھے چاکلیٹ اور چاکلیٹ کیک بھی نہ دیں ، لیکن مجھے یہ سیکرٹ اپنے ممی ڈیڈی کو بتانا ہو گا۔ بلکہ اب میں ضرور بتاؤں گا کیونکہ ممی ڈیڈی کہتے ہیں کہ جو کوئی آپ کو سیکرٹ رکھنے کے بدلے آئس کریم ، چاکلیٹ یا کسی اور چیز کا لالچ دے وہ ضرور آپ کو نقصان پہنچاتا ہے! ‘‘ اس کے معصوم منہ سے ادا ہونے والی بات سے سب کی ضبط کی ہوئی ہنسی کا فوارا چھوٹ پڑا۔

’’ چلو بھئی بتا لو آپ اپنے ممی ڈیڈی کو! ‘‘ میںنے ہتھیار ڈالے، ’’ اور پلیز فورا بتاؤ! ‘‘

بچوں کی تربیت کے ابتدائی سالوں میں انھیں یہ سکھانا اہم ہے کہ انھیں کوئی کچھ بھی کہے، کوئی بھی لالچ دے، کوئی کتنا ہی قریبی رشتہ ہو، محرم یا نامحرم… اس کی کہی ہوئی کسی بات، کی ہوئی کسی حرکت یا پیش قدمی کو بچے اپنے والدین سے نہ چھپائیں اور انھیں فوراً بتائیں ۔ عموماً بچوں کا بچپن، ان کی معصومیت وہی لوگ چھینتے ہیں جو ان کے قریبی رشتے ہوتے ہیں یا وہ لوگ جن سے ان کا واسطہ گھر، اسکول یا گھر سے باہر معمول میں پڑتا ہے، وہ لوگ ہیں جن سے بچہ مانوس ہو جاتا ہے اور والدین ایسے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ انھی میں ، انسانوں کے بھیس میں چھپے ہوئے کچھ حیوان بھی ہوتے ہیں جو ہمارے اعتماد کو ساری انسانیت پر سے ختم کر دیتے ہیں ۔

اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیت کریں، انھیں سختی کی بجائے پیار اور اعتماد سے سمجھائیں اور جن چیزوں کا لالچ دے کر کوئی انھیں پامال کر سکتا ہے ، ان چیزوں کو انھیں خود وافر مقدار میں دیں تا کہ ان کے دل میں ایسی کسی پیش کش پر لالچ نہ آئے۔ بچے کا دل فطری طور پر لالچی ہوتا ہے اور اسے پرچانے کو ایسے درندہ صفت انسان کوئی نہ کوئی حربہ پیار کا استعمال کرتے ہیں ورنہ زور زبردستی۔ ہر دو صورتوں میں بچوں کو اپنا دفاع کس طرح کرنا ہے، انھیں اس سے آگاہی دیں، کارٹون بنا کر یاچھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مدد سے، انھیں ڈرائیں نہیں کہ ان کی خود اعتمادی نہ ختم ہو اور وہ ہر وقت انہونی کے خوف میں مبتلا رہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے اور انھیں اس دنیا میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے شیطانوں سے محفوظ رکھے ۔آمین !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔