ایک کھلا خط بنام بلاول بھٹو زرداری

حسین مسرت  اتوار 14 جولائی 2019

میں آپ کو کبھی مخاطب نہ کرتی لیکن جب بھی آپ اپنی تقاریر میں محترمہ بے نظیر بھٹوکی نسبت پر فخرکرتے ہیں تو آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ والدہ آپ کی دھڑکنوں میں بستی ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو وہ لیڈر تھیں جوکہ غریبوں سے عجز وانکسار کے ساتھ ملتی تھیں ۔ بزرگ خواتین کو گلے لگاتی تھیں وہ غریبوں کا درد جانتی تھیں۔ دوسری وجہ تخاطب یہ بھی ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر انسان کی بنیادی ضرورتوں کو اہمیت دینے والی پاکستان کی پہلی سیاسی پارٹی کی قیادت کا بار آپ کے کاندھوں پر ہے۔

آج آپ کو مخاطب کرکے کچھ باتیں آپ کے گوش گذارکرنا چاہتی ہوں جوکہ اس چیزکے متعلق ہیں ، جس کو قوموں کی تربیت میں بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، میں تعلیم کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گی۔ سندھ میں محکمہ تعلیم، ایسا مظلوم محکمہ ہے کہ جس سے ہمدردی کی جاتی ہے جس کی حالت زارکا رونا رویا جاتا ہے اور سر پر ہاتھ رکھ کر پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے۔

طاقت کا نشہ انسان کو فرعون بنا دیتا ہے۔ اس بات کا یقین آجاتا ہے جب وزیر تعلیم سردار شاہ کی باتیں اور بیانات سنے جاتے ہیں۔ نام کی طرح شاید وہ سمجھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں نوکری کرنے والے سارے لوگ خاص طور پر اساتذہ ان کی رعایا ہیں۔ بلاول بھٹو! میں پرزور لفظوں میں سردار شاہ کے ان الفاظ کی مذمت کرتی ہوں جو انھوں نے اسمبلی فلور پر کہے ہیں کہ ’’ایک لاکھ اساتذہ، استاد کہلوانے کے لائق ہی نہیں ہیں، انگوٹھا چھاپ ہیں۔‘‘ بلاول بھٹو! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟

ذرا ماضی میں جائیں اور معلوم کریں کہ پچھلے 10 سالوں میں سندھ میں کس کی حکومت رہی ہے؟ تعلیم کی مد میں کتنا بجٹ رکھا گیا؟ کتنا خرچ ہوا؟ کتنی نوکریاں بیچی گئیں؟ ہمیں بتائیں کہ سندھ حکومت نے محکمہ تعلیم سندھ کے اسکول اور کالجز کے اساتذہ اور پروفیسرزکوکتنی سہولتیں دی گئی ہیں۔ جناب پوری دنیا میں پالیسیاں پہلے بنتی ہیں اور عملدرآمد بعد میں ہوتا ہے۔

یقین محکمہ تعلیم میں پہلے ایکشن ہوتا ہے۔ چند ماہ پہلے جب سندھ میں بورڈ کے امتحان تھے۔ سردار شاہ صاحب طوفانی دوروں پر نکلے۔ چھاپے مارے اساتذہ کی دل کھول کر بے عزتی کی ان کو ذلیل کیا۔ اسکولوں کے دوروں کے دوران پوری کلاس کے سامنے استاد سے کتابیں پڑھوالیں طالب علموں کے سامنے شرمندہ کیا گیا۔

ذرا غور کریں اگر اساتذہ نااہل ہیں تو ان کو نوکریاں بھلا کس نے دی ہیں؟ کیا ’’ٹیچر‘‘ کو سرکاری نوکری ماں باپ کی جائیداد کے ورثے میں ملی ہے؟

طویلے کی بلا بندرکے سر والی کہاوت ان پر ٹھیک بیٹھتی ہے کہ حکومتی نااہلی کا ملبہ اساتذہ پرگرایا جا رہا ہے۔ نقل کو روکنے کے جو ’’ ڈرامے‘‘ لائیو فیس بک پہ چلائے گئے، کیا ان سے کوئی فائدہ ہوا؟ یہ ضرور ہوا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ہمارے محکمہ تعلیم کا کیا حال ہے۔ بہت دکھ اور افسوس کہ آپ کے دور حکومت میں خواتین اساتذہ بھی بد ترین تشدد کا شکار ہوئیں، کراچی میں اساتذہ کے مظاہرے پر پولیس نے بدترین تشدد کیا۔ خدارا! تعلیم پر رحم کریں تجربے نہ کریں۔ سردار شاہ نے حالیہ اعلان کیا ہے کہ ’’اساتذہ 3 بجے تک اسکولوں میں بیٹھیں گے‘‘ اس کا کوئی جواز اورکوئی تک بنتی نظر نہیں آتی۔

شاہی فرمان جاری ہوا اور گرمیوں کی چھٹیاں مئی جون میں کردی گئیں۔ جب کہ اس وقت سندھ میں بورڈ کے امتحانات چل رہے تھے۔ نویں اور دسویں جماعت کے بعد فرسٹ ایئر اور انٹر کے امتحانات ہو رہے تھے کہ چھٹیاں ہوگئیں، پھر بھی اساتذہ امتحانات کی ڈیوٹیاں دے رہے تھے۔ پریکٹیکل ہو رہے تھے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ چھٹیاں کس بات کو مدنظر رکھ کرکی گئی تھیں۔ برائے مہربانی چند لوگوں کی خواہشات اور مشوروں پر تجربے کرکے تعلیم کا بیڑا غرق کرنے سے پرہیز کریں۔ بلاول بھٹو صاحب! پاکستان پیپلز پارٹی نے تو ہمیشہ عوام دوست پالیسیاں بنانے کے نعرے لگائے ہیں۔

پھر اساتذہ سے اہانت آمیز سلوک اور سختیاں کیوں روا رکھی جا رہی ہیں؟ ذرا سوچیں ہماری خواتین اساتذہ کس طرح محنت کرتی ہیں۔ گھر بچے اور جاب ایک ساتھ ساری ذمے داریاں سنبھال رہی ہوتی ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ سندھ میں پرائمری اسکول سے لے کر مڈل اسکول تک اور مڈل اسکولز سے لے کر کالجز تک اکثر عمارتیں مخدوش ہیں۔

-1 تعلیمی اداروں میں بجلی میسر نہیں۔

-2 پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔

3۔ واش رومزکی سہولت کا فقدان ہے۔

4۔ فرنیچرکی کمی ہے۔

5 ۔اسکولزکی اپنی ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے۔ (خاص طور پر بچیوں کے لیے)

6 ۔گرلز اسکولزکے ساتھ بے بی ڈے کیئر سینٹر بھی نہیں ہیں ۔ (اساتذہ کے بچوں کے لیے)

7 ۔اساتذہ کے لیے ہاسٹلز بھی نہیں ہیں۔ (جب اچانک ٹرانسفر ہوتے ہیں تو اساتذہ پریشان ہوجاتے ہیں)

8 ۔ورکنگ وومن ہاسٹلز بھی نہیں ہیں۔

9 ۔ خاص طور پر کالج کے اساتذہ کے لیے مناسب سروسز اسٹرکچر بھی بنا ہوا نہیں ہے۔

کہاں تک سنائیں کہ جب چوٹ لگتی ہے تو آہ لبوں تک آتی ہے۔ اس وقت سندھ کے اساتذہ کی حالت قابل رحم ہے۔ مہربانی فرما کر تعلیمی پالیسیز پہ دھیان دیں اور جب وزارتوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے تو کم ازکم اس میں محکمہ تعلیم کی وزارت اور پالیسی سازی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جوکہ تعلیم کو عبادت کی طرح مقدس سمجھتے ہوں۔

جن کے دلوں میں اساتذہ کا احترام ہو۔ آپ پہلے اساتذہ کو اپنا جائز مقام اور سہولتیں تو دیں پھر سختیاں کریں پھر عمل درآمد کریں۔ اب گلستان کو ایسا مالی چاہیے جو کہ اسے خون سے سینچنے کی تمنا رکھتا ہو۔ ایسا مالی نہیں چاہیے جو خون ہی چوس لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔