کیا ہم ورلڈکپ جیت گئے ہیں؟

سلیم خالق  اتوار 14 جولائی 2019
عماد وسیم اور شاداب خان ایسی غیرسنجیدگی سے پریس کانفرنس کر رہے تھے جیسے کوئی بڑا معرکہ سر کرکے آئے ہوں فوٹوفائل

عماد وسیم اور شاداب خان ایسی غیرسنجیدگی سے پریس کانفرنس کر رہے تھے جیسے کوئی بڑا معرکہ سر کرکے آئے ہوں فوٹوفائل

سچ بتاؤں تو میں بڑا کنفیوز سا ہو رہا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ ٹیم کی ورلڈکپ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی مگر کھلاڑیوں اور بورڈ کے انداز سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں غلط ہوں، 10 ٹیموں میں پانچویں نمبر پر آنا بہت بڑی بات ہے۔

ہماری ٹیم نے ایونٹ میں  فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے،اب آپ ہی بتائیں کون سی بات درست ہے، ہم کو کم از کم سیمی فائنل میں آ کر پھر ٹرافی کا خواب دیکھنا چاہیے تھا یا یہ سوچتے  کہ پانچویں پوزیشن  بھی ہماری اوقات سے زیادہ ہے اسی پر خوش ہو جاؤ، میں ذرا ہٹ کر سوچنے والا ہوں، تعریف کرنے والی بے شمار شخصیات تو پی سی بی کے پاس ہر دور میں موجود ہوتی ہیں، ہم جیسے1،2 لوگ بھی ہونے چاہئیں جو خامیوں کی بھی نشاندہی کریں ورنہ نجانے اورکیا کیا ہو جائے،میری رائے کے مطابق ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کا کھیل غیرمعیاری رہا۔

یہ ٹھیک ہے کہ دونوں فائنلسٹ  سمیت بعض اچھی ٹیموں کو بھی مات دی لیکن اس سے  مجموعی کارکردگی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، ہم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایونٹ میں جس ویسٹ انڈین ٹیم نے کسی حریف کو نہیں ہرایا ہم نے اس کیخلاف 105رنز پر ہتھیار ڈال دیے اور یہ شکست کسی آسیب کی طرح آخر تک  ٹیم کا پیچھا کرتی رہی، پھر افغانستان جیسی کمزور ٹیم کو بدترین انداز میں شکست دے کر رن ریٹ بہتر بنانے کا موقع ملا مگر خود ہارتے ہارتے بچے،اسی لیے فائنل فور میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔

عموماً کسی بڑے ایونٹ میں ناکامی ہو تو چاہے دکھاؤے کیلیے ہی سہی بعض اقدامات کیے جاتے ہیں مگر حیران کن طور پر اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا، ابتدا سے ہی پالیسی اپنائی گئی کہ چڑھ کر سامنے آنا ہے، ایسا انداز اپناؤ کہ لوگوں کو لگے  ٹیم اچھا کھیلی مگر چونکہ بھارت اور نیوزی لینڈ جان بوجھ کر انگلینڈ سے ہار گئے اس  ’’سازش‘‘ کی وجہ سے بیچارے گرین شرٹس ناک آؤٹ راؤنڈ میں نہ پہنچ سکے۔

کوچ مکی آرتھر نے نیٹ رن ریٹ پر ملبہ گرا دیا اوریہ نہ بتایا کہ یہاں تک نوبت آئی کیوں، بورڈ آفیشلز ٹیم کی وطن واپسی پر ہار پھول لے کر  ایئرپورٹ تو نہیں گئے مگر بعد میں جس انداز میں پریس کانفرنسز کرائی گئیں ان سے ایسا محسوس ہوا جیسے ورلڈ چیمپئنز  میڈیا سے بات کر رہے ہیں، کپتان سرفراز احمد نے شائقین سے معافی مانگنے کی زحمت گوارا نہ کی اور ٹیم کے کھیل کا بھرپور دفاع کیا۔

اسلام آباد میں عماد وسیم اور شاداب خان ایسی غیرسنجیدگی سے پریس کانفرنس کر رہے تھے جیسے کوئی بڑا معرکہ سر کرکے آئے ہوں، لاہور میں بیچارے امام الحق اپنے چچا انضمام الحق کا دفاع ہی کرتے رہے، بابراعظم بولرز کا سامنا جس اعتماد سے کرتے ہیں صحافیوں کے سامنے اتنا ہی پریشان دکھائی دیے، ان غیرضروری پریس کانفرنسز نے مسائل ہی پیدا کیے۔ اس سے یہ تاثر گیا کہ بے وقوف شائقین شکست پر افسردہ ہیں مگر کھلاڑیوں کو تو کوئی احساس ہی نہیں، سب اپنا اپنا دفاع کرتے نظر آئے بطور ٹیم ناکامی کی وجوہات کسی نے بیان نہ کیں۔

محمد حفیظ نے بھی اپنی ٹویٹ سے اس کی نشاندہی کر دی، ہونا یہ چاہیے تھا کہ انضمام الحق اپنی سلیکشن میں  خامیوں پر میڈیا سے بات کرتے، احسان مانی اور وسیم خان مستقبل کے پلانز بتاتے مگر یہاں الٹا کام کیا گیا، اگر یہ تینوں ملک میں نہیں ہیں تو جلدی کس بات کی تھی تھوڑا انتظار ہی کر لیتے، بس محمد حسنین ہی رہ گئے تھے پی سی بی کا بس چلتا تو ان کی بھی پریس کانفرنس کرا دی جاتی۔

سوشل میڈیا پر بھی بعض لوگوں کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ ٹیم کی پرفارمنس کو اچھا بنا کر پیش کریں،میڈیا ڈپارٹمنٹ تبدیلی کا جھنڈا بلند کر کے بہت تیز چل رہا ہے، البتہ خبروں کے لیک ہونے کا سلسلہ بڑھ چکا، حیران کن طور پر بعض مخصوص افراد کے پاس تمام رپورٹس پہلے ہی پہنچ جاتی ہیں، کوئی گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھا رہا ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی انتظامیہ کو ورلڈکپ میں ناکامی کا کوئی دکھ نہیں اور وہ اسے معمول کی ایک بات سمجھ رہی ہے، اس وقت بورڈ میں طاقت کا سرچشمہ ایم ڈی وسیم خان ہیں، وہ بہت جلد سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے، حیرت کی بات یہ ہے کہ بورڈ کو پورے پاکستان کے کروڑوں لوگوں میں سے کوئی ایک قابل شخص نہیں ملا اور انگلینڈ سے ایم ڈی کو امپورٹ کرنا پڑا جو20 لاکھ روپے ماہانہ سے زائد تنخواہ لے کر زیادہ تر وقت اپنے وطن میں ہی رہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے دوست ذاکر خان بھی دوبارہ سے  اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور غیرملکی دوروں کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے،انضمام الحق نے بھی خوب ٹورز کیے اور ورلڈکپ میں ٹیم کا بیڑا غرق کر کے اب آرام کریں گے، وسیم خان پی سی بی کے پرانے لوگوں پر بالکل اعتماد نہیں کر رہے سبحان احمد اس کی بڑی مثال ہیں جنھیں مستقبل میں گھر بھی بھیجا جا سکتا ہے، ایک نئے آفیشل وسیم کے سب سے قریب ہیں انہی کے مشورے پر اب معین خان کو چیف سلیکٹر بنانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں،آئندہ چند دنوں میں بورڈ سے  کئی پرانے آفیشلز کوفارغ کیا جائے گا۔

ڈومیسٹک سسٹم کا بھی تیاپانچہ ہونے والا ہے، ویسے ہی ملک میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے اب اس میں  کرکٹرز کا بھی اضافہ ہو جائے گا، میری احسان مانی سے درخواست ہے کہ وہ پی سی بی کے معاملات دوسروں پر چھوڑ کر آرام سے نہ بیٹھیں، آج کل بعض لوگ  میرے بارے میں ان کو خوب بھڑکا رہے ہیں کہ یہ بورڈ کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے آپ اس سے بات نہ کیا کریں، البتہ جتنا میں انھیں جانتا ہوں وہ کانوں کے کچے نہیں ہیں۔

چیئرمین کو اپنی اتھارٹی منوانی چاہیے،طاقت ملنے سے اس وقت بعض لوگ اپنے لیول سے آگے نکل رہے ہیں انھیں کنٹرول کریں کہیں پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے، قوم کے سامنے پورا پلان پیش کریں کہ ٹیم کی کارکردگی میں ایسے بہتری آئے گی، ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی کو فوراً فارغ کریں، کسی کی سفارش نہ سنیں، کم از کم محسوس تو ہو کہ آپ کو بھی ہماری طرح شکست کا دکھ ہوا ہے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے ورنہ  بیچاری قوم تو ویسے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل میں الجھی ہوئی ہے وہ کرکٹ کا کیا ماتم منائے گی، مگر یہ واحد کھیل بچا ہے جو ملک کو یکجا کرتا اور کبھی کبھی لوگوں کو خوشیاں منانے کا موقع فراہم کر دیتا ہے خدارا اس کا حال ہاکی والا نہ کر دیجیے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔