جواب چائے

جاوید چوہدری  جمعرات 12 ستمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

امیر تیمور نے چودھویں صدی کے شروع میں بخارا فتح کیا‘ یہ بخارا پہنچا تو اسے زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ تیمور نے وجہ معلوم کی تو پتہ چلا‘ یہ جنگ بخارا کے عوام نے چائے کی وجہ سے ہار دی ‘ بخارا میں ایک خاص قسم کا قہوہ پیا جاتا تھا‘ یہ سیاہ رنگ کی پتی سے بنتا ہے اور یہ پرانے زمانوں سے شاہراہ ریشم کے راستے چین سے بخارا پہنچتا تھا اور بخارا سے لے کر ملتان تک پورا علاقہ اس قہوے کا عادی تھا‘ یہ لوگ سارا دن یہ قہوہ پیتے تھے‘ چولہوں پر پتیلوں میں ہر وقت یہ قہوہ ابلتا رہتا تھا اور خاندان بھر کے لوگ سارا دن چھوٹے پیالوں میں یہ قہوہ پیتے تھے‘ امیر تیمور بخارا پہنچا اور امیر بخارا نے عوام سے لڑنے کی درخواست کی تو عوام نے جواب دیا ہم پہلے قہوہ پئیں گے اور پھر جنگ لڑیں گے‘ قہوہ ختم نہ ہو سکا لیکن جنگ ختم ہو گئی اور تیمور نے پورا شہر نیست و نابود کر دیا‘ اس واقعے سے پشتو کا ایک محاورہ بنا‘ مجھے یہ محاورہ تو یاد نہیں مگر اس کا مفہوم یاد ہے ’’ ہم پہلے چائے پئیں گے پھر جنگ لڑیں گے‘‘ یہ محاورہ آج بھی بخارا سے لے کر افغانستان اور افغانستان سے لے کر پشاور تک ان تمام علاقوں میں بولا جاتا ہے جہاں چائے یا قہوہ کثرت سے پیا جاتا ہے‘ افغان چائے کے معاملے میں دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت آگے ہیں‘۔

افغانستان میں چائے کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے‘ یہ لوگ کینیا سے درآمد شدہ بلیک اور گرین ٹی ابالتے ہیں اور یہ جب تک جاگتے رہتے ہیں یہ اس قہوے کے گھونٹ بھرتے رہتے ہیں‘ یہ سفر کے دوران بھی تھرماس میں چائے ڈال کر گھر سے روانہ ہوتے ہیں‘عام افغانی دن میں قہوے کے چالیس پچاس پیالے پی جاتے ہیں‘ قہوہ نوشی کے اس کثرت استعمال کی وجہ سے افغانوں کو عام لوگوں کی نسبت پیشاب زیادہ آتا ہے چنانچہ قہوے کے بعد ان کی دوسری ضرورت پیشاب خانہ یا ٹوائلٹ ہوتی ہے اور باقی دنیا اور اس کے تقاضے ان دونوں ضرورتوں کے بعد آتے ہیں‘ یہ اپنے پیشاب کو چائے کا رد عمل سمجھتے ہیں چنانچہ افغانستان میں پیشاب کو ’’جواب چائے‘‘ کہا جاتا ہے‘ یہ جواب چائے کثرت استعمال اور تیزی سے بولنے کی وجہ سے ’’جاب چائے‘‘ بن چکا ہے لیکن اصل لفظ ’’ جواب چائے‘‘ ہے اور یہ انتہائی خوبصورت اور پرمغز لفظ ہے‘ دنیا میں ہر شخص روزانہ اس مرحلے سے گزرتا ہے مگر کسی شخص‘ کسی قوم نے پیشاب کا اتنا شاعرانہ‘ سائنسی اور صوتی لذتوں سے بھرپور نام نہیں دیا‘ یہ نام نیوٹن کے اس معروف فلسفے کی انتہائی جامع اور خوبصورت تشریح ہے نیوٹن نے جس میں ثابت کیا تھا آپ اگر کوئی ایکشن کریں گے تو اس کا ری ایکشن ضرور ہو گا‘ یہ ری ایکشن دوگنی قوت میں ہو گا اور اس مخالف سمت میں ہوگا جس میں آپ کھڑے ہوں گے‘ نیوٹن پوری زندگی دنیا کو یہ حقیقت فزکس کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر افغان نیوٹن کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل نہ صرف اس حقیقت سے واقف ہو چکے تھے بلکہ یہ پیشاب کو جواب چائے کا نام دے کر نیوٹن سے آگے نکل گئے۔

ہم زندگی میں جو کرتے ہیں‘ جو بوتے ہیں اور ہمیں جو کرنا چاہیے مگر ہم وہ نہیں کرتے اور ہمیں جو بونا چاہیے اور ہم وقت پر وہ نہیں بوتے‘قدرت ہماری زندگی میں اس کا بدلہ‘ اس کا جواب ضرور دیتی ہے‘ یہ جواب قدرت کی طرف سے ’’جواب چائے‘‘ ہوتا ہے اور ہم یہ جواب چائے بھگت کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں‘ یہ ہو نہیں سکتا ہم پوری زندگی ظلم کرتے رہیں‘ بددیانتی‘ زیادتی اور نالائقی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ہم اور ہماری اولاد اس کا ’’جواب چائے‘‘ بھگتے بغیر عزت سے دنیا سے چلی جائے‘ ہماری اولاد ہمارا بویا ضرور کاٹتی ہے اور آپ اگر قدرت کا یہ اصول سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کوسابق صدر آصف علی زرداری کا آخری انٹرویو دیکھنا چاہیے‘ یہ انٹرویو ملک کے نامور صحافی سہیل وڑائچ نے کیا‘ وہ اپنی گفتگو‘ لہجے اور ڈیل ڈول سے جتنے سادہ لگتے ہیں‘ یہ اس سے کہیں زیادہ زیرک‘ ذہین‘ محنتی اور باکردار صحافی ہیں۔

قوم نے سابق صدر کو اس کے انٹرویو میں کہتے سنا ’’ پولیس اور فوج مجھے سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکتی‘ میں اپنی سیکیورٹی کا خود بندوبست کروں گا‘‘صدر پاکستان کے یہ الفاظ ان کی گورننس کے پچھلے پانچ برسوں کا ’’جواب چائے‘‘ ہے‘ آپ نے اگر پانچ برسوں میں گورننس پر توجہ دی ہوتی‘ آپ نے اگر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ حل کیا ہوتا‘ آپ نے اگر ملک سے دہشت گردی ختم کر دی ہوتی‘ آپ نے اگر پولیس‘ رینجرز اور فوج پر توجہ دی ہوتی‘ آپ نے اگر ملک کو پرامن بنا دیا ہوتا تو آج آپ کو اپنی حفاظت کی ذمے داری خود نہ اٹھانا پڑتی‘ یہ ریاست عام شہریوں کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی سیکیورٹی فراہم کرتی اور آپ لاہور میں مال روڈ پر گارڈز کے بغیر پیدل پھرتے‘ آپ ایم ایم عالم روڈ پر کھانا کھاتے اورآپ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر کے بلاول ہاؤس جاتے‘ آپ کراچی شہر میں اکیلے نکل جاتے‘ آپ سی ویو پر جاتے‘ آپ صدر کے شاپنگ سینٹروں میں اکیلے پھرتے اور آپ ایک گاڑی میں اکیلے کراچی سے لاڑکانہ چلے جاتے اور آپ کو راستے میں کسی شخص سے کسی قسم کا خوف نہ ہوتا مگر آپ نے کیونکہ اس پر توجہ ہی نہیں دی‘ آپ نے کیونکہ سیکیورٹی کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا چنانچہ آج آپ کو پولیس اور فوج تک پر بھروسہ نہیں‘ آپ لاہور شہر میں نکل سکتے ہیں اور نہ ہی کراچی میں اور آپ نہ ہی اکیلے گڑھی خدا بخش اورلاڑکانہ جا سکتے ہیں۔

آپ اس لیاری تک میں قدم نہیں رکھ سکتے جسے بھٹو کا قلعہ کہا جاتا تھا اور آج بھی جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے‘لیاری سے صرف بھٹو کا کھمبا جیت سکتا ہے‘ آپ اس ملک میں کوئی ایک ایسی جگہ بتائیے آپ جہاں محفوظ ہیں‘ آپ کو جہاں ذاتی سیکیورٹی نہیں چاہیے‘ یہ آپ کا اپنا ملک ہے اور آپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن آپ اپنے ملک کی کسی گلی میں محفوظ نہیں ہیں‘ آپ لندن‘ پیرس اور نیو یارک جیسے اجنبی شہروں میں جاتے ہیں تو آپ کو وہاں سیکیورٹی درکار ہوتی ہے اور نہ ہی پروٹوکول‘ آپ مین ہیٹن کی گلیوں اور ریستورانوں میں اکیلے چلے جاتے ہیں‘ آپ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ میں پیدل شاپنگ کرتے ہیں اور آپ دوبئی میں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں‘ آپ کو وہاں کسی شخص سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا مگر آپ کو اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر یقین ہے اور نہ ہی پولیس اور فوج پر اور یہ آپ کی گورننس کا ’’جواب چائے‘‘ ہے‘ کاش آپ نے ملک پر توجہ دی ہوتی‘ آپ نے اس ملک کو اپنا ملک اور اس کے عوام کو اپنے عوام سمجھا ہوتا یا آپ نے اہل ترین لوگوں کو اہم ترین پوزیشنوں پر تعینات کیا ہوتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔

آج یوسف رضا گیلانی کا بیٹا اغواء نہ ہوتا اور اس کی بازیابی کے لیے انھیں میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور مولانا سمیع الحق کی منتیں نہ کرنا پڑتیں اور راجہ پرویز اشرف کو عوام سے منہ نہ چھپانا پڑتا‘ یہ عزت‘ آبرو اور اعتماد کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلتے اور لوگ ان کے ہاتھ چومتے لیکن آپ کیونکہ صرف پانچ سال پورے کرتے رہے ہیں اور آپ ان پانچ برسوں میں اپنے ذاتی مفادات کی دیواریں پکی کرتے رہے چنانچہ آج آپ کو اپنے ہی ملک میں سیکیورٹی بھی چاہیے اور پروٹوکول بھی‘ آپ ’’جواب چائے‘‘ کی انتہا ملاحظہ کیجیے‘ چوہدری شجاعت حسین ملک پر دس سال بلاشرکت غیرے حکمران رہے لیکن یہ آج پنجاب حکومت سے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ کی حفاظت کے لیے پولیس مانگتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب انھیں دوبارہ 3 سب انسپکٹر اور 13 کانسٹیبل فراہم کر دیتے ہیں‘ پنجاب حکومت چوہدری صاحب کو تیرہ سال سیکیورٹی فراہم کرتی رہی‘ حکومت نے دو دن قبل پنجاب پولیس ان کے گھر سے واپس لے لی تھی‘ حکومت چوہدری شجاعت کو یہ ’’حفاظتی اسکواڈ‘‘ کن خدمات کے عوض فراہم کر رہی ہے؟ پولیس شہر سے جیب تراش تو پکڑ نہیں سکتی مگر وی وی آئی پیز کے دروازوں پر یونیفارم پہن کر کھڑی ہو جاتی ہے‘ چوہدری شجاعت کا کیا کنٹری بیوشن تھا جس کے عوض انھیں یہ وی وی آئی پی سہولتیں دی جارہی ہیں‘ کیا ان کا یہ کنٹری بیوشن تھا جس کے جواب چائے میں آج ملک کے سابق صدر کو پولیس اور فوج تک پر اعتماد نہیں اور یہ ذاتی محافظوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

خدا خوفی کریں اور آج سے اپنے کارناموں‘ اپنی کارکردگی کا ’’جواب چائے‘‘ بھگتیں‘ آپ اگر ملک کو13برسوں میں امن نہیں دے سکے تو پھر آپ کو اس ملک پر حکومت کرنے‘ سیاست کرنے اور اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں‘ یہ ملک مزید وائسرائے برداشت نہیں کر سکتا کہ آپ اپوزیشن کے دن محلات‘ دوبئی‘ سعودی عرب‘ لندن اور نیویارک میں گزاریں‘ الیکشن سے قبل ملک میں آئیں‘ اپنے اپنے شہیدوں اور جرنیلوں کے جھنڈے اٹھائیں‘ الیکشن جیتیں‘ پانچ سال ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں اور لوٹنے کی آئینی مدت پوری کر کے ذاتی محافظوں کی حفاظت میں ملک سے باہر چلے جائیں یا اپنے محلات میں دوبارہ محصور ہو جائیں اور عوام کو اپنے اقتدار کی ’’جواب چائے‘‘ بھگتنے کے لیے سڑکوں پر کھلا چھوڑ دیں‘ میاں نواز شریف صدر زرداری کی آج کی حالت سے سبق سیکھیں کیونکہ اگر انھوں نے بھی ملک کی سمت درست نہ کی تو یہ بھی اپنی حفاظت کے لیے ذاتی فوج بھرتی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ملک ذاتی افواج کی چھاؤنی بن جائے گا جس میں ہر طاقتور دوسرے کے سرپر بندروق رکھ کر بیٹھ جائے گا اور یہ ہم سب کی نالائقیوں کا ’’جواب چائے‘‘ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔