کشمیر کا مسئلہ

کلدیپ نائر  جمعرات 12 ستمبر 2013

زوبن مہتہ نے سری نگر میں اپنے آرکسٹرا کے ساتھ محفل موسیقی منعقد کرنے کے لیے جانے سے قبل کہا ’’وہاں کوئی تشدد نہیں ہو گا‘‘ جرمن سفیر مائیکل سٹینر جنہوں نے اس محفل موسیقی کا اہتمام کیا نے سرینگر میں کہا کہ دنیا کشمیر کو دیکھ رہی ہے۔ دونوں تبصرے درست ثابت ہوئے۔ محفل موسیقی کی کامیابی نے اس کی تصدیق کر دی۔

اگر نئی دہلی حکومت بھی اپنا پیغام پہنچانے کے قابل ہو سکتی تب پھر حریت لیڈر، جنھیں علیحدگی پسندوں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، اپنے آپ کو ہی مورد الزام ٹھہراتے۔ انھوں نے اپنے بائیکاٹ کا اعلان کر کے محفل موسیقی کو غیر ضروری طور پر ایک مسئلہ بنا لیا۔ اگر وہ اس تقریب کو نظر انداز کر دیتے تو اس کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا جاتا۔ یہ کوئی پہلی محفل موسیقی نہ تھی۔ آنجہانی جگجیت سنگھ نے سرینگر کے عین وسط میں غزل کی محفل سجائی تھی۔ پاکستان سے آنے والے ایک میوزک بینڈ نے بھی اگلے روز اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ نئی دہلی حکومت نے اتنی عقلمندی کا مظاہرہ ضرور کیا کہ اسے معمول کے معاملہ کے طور پر سمجھتے ہوئے انھیں ویزے جاری کر دیے۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ حریت نے، جس کی آزادی کی مانگ مبہم اور غیر واضح ہے، پاکستانی بینڈ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا، جس سے بین السطور یہی تاثر دینا مقصود تھا کہ اس کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔

حریت کے اپنے اندر ہی اختلافات موجود ہیں۔ سید شاہ گیلانی کے پیروکار تو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ لیکن دوسرے جو یٰسین ملک کی قیادت میں ہیں مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔ لیکن کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جن کی سوچ غیر واضح ہے اور الجھن میں پڑے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل بہت سے کشمیریوں نے جو انڈیا سے کوئی تعلق جوڑنا نہیں چاہتے تھے اور ہنوز یہی سوچ رکھتے ہیں، انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت کی تھی۔ اگر رائے شماری کروائی جاتی تو وہ پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے لیکن آج کشمیریوں کی بھاری اکثریت مکمل آزادی کی طلب گار ہے۔ یٰسین ملک نے ان کی سوچ کا رخ پاکستان کی حمایت سے تبدیل کر کے ایک آزاد اور مقتدر ریاست کے حصول کی جانب مبذول کر دیا ہے۔

اور ایک اہم بات جو حریت کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ کہ مکمل آزادی کے حصول کی خواہش محض مثالیت پسندی سے زیادہ نہیں اور نہ ہی یہ عملی طور پر کوئی قابل عمل تجویز ہے۔ جب برطانیہ اگست 1947ء میں انڈیا سے رخصت ہوا تو اس نے نوابی ریاستوں کو اختیار دیا تھا کہ وہ چاہیں تو خود مختار رہیں یا انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کر لیں۔ جموں اور کشمیر کے اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے خود مختار رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اس خشکی میں گھرے ہوئے خطے کو بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے انڈیا اور پاکستان دونوں سے مدد مل سکتی تھی لیکن اس نے کسی ایک پر بھی انحصار کرنا گوارا نہیں کیا۔ جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کی بنیاد پر پاکستان اس ریاست کے اپنے ساتھ الحاق کی توقع کر رہا تھا۔ یہ توقع بر نہ آئی۔ پاکستان کی اپنی فوج تو پس پشترہی تاہم بے قاعدہ جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے۔ مہاراجہ نے انڈیا سے مدد کی درخواست کی تو انڈیا نے اصرار کیا کہ فوج بھیجنے سے قبل کشمیر کا انڈیا سے الحاق ضروری ہے۔ اسی بنا پر مہاراجہ کو بھارت کے الحاق ایکٹ (Accession Act) پر دستخط کرنا پڑے۔

اب حریت کو مہاراجہ سے بھی کہیں زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ریاست کشمیر کے دو حصے آزادی کے خلاف ہیں جموں جس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے انڈیا کے ساتھ الحاق کو نا چاہیں گے، وادی کا دوسرا علاقہ لداخ جہاں بدھ مت والوں کی اکثریت ہے وہ بھی بھارت کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آزادی کا مطالبہ صرف وادی کشمیر ہی کا ہے جہاں مسلمانوں کی شرح 98  فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اب جب کہ بھارت تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے‘ ایک سیاسی جماعت ہندو کارڈ کھیل رہی ہے۔ لہٰذا یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ حکمران کانگریس یا کوئی بھی اور سیاسی پارٹی جن میں کیمونسٹ بھی شامل ہیں حریت کی حمایت کرے گی۔ ویسے بھی تمام سیاسی پارٹیاں آزادی کے مطالبے کی مخالف ہیں۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ بعض پارٹیاں اپنی ریاست کو زیادہ اختیار دینے کا مطالبہ ضرور کریں گی۔

تقسیم کے 66 سال بعد بھی اس موقع پر لگے زخم اب تک مند مل نہیں ہوئے۔ لہٰذا حریت کانفرنس کیسے یہ توقع کر سکتی ہے کہ بھارت کے عوام ایک اور تقسیم کا زخم سہنے کے لیے آمادہ ہوں گے۔ اس سے قطع نظر کہ کشمیریوں کے جذبات کتنے ہی خالص اور مضبوط کیوں نہ ہوں۔ اگر دوسری تقسیم بھی مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو بھارت بطور سیکولر ملک قائم نہیں رہ سکے گا۔ یہ درست ہے کہ بھارت کے پندرہ کروڑ مسلمان برابر کے شہری ہیں اور ان کے ساتھ یرغمالیوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وادی کشمیر کے بھارت سے الگ ہونے کے مضمرات اس قدر خطر ناک ہو سکتے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کا آئین جو تمام بھارتی شہریوں کے لیے مساوات کی ضمانت دیتا ہے‘ اس ضمن میں کوئی آئینی تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔

بھارت اور پاکستان نے کشمیر پر دو با قاعدہ جنگیں لڑی ہیں جب کہ کارگل کی ناکام مہم جوئی ان جنگوں کے علاوہ ہے۔ وادی کشمیر بھی بدستور ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ ہے۔ ہزاروں کشمیری آزادی کے مقصد کے لیے جان قربان کر چکے ہیں۔بھارت کے نزدیک وہ درانداز تھے۔ انھیں سیکیورٹی فورسز نے کچل کر رکھ دیا اور خود سیکیورٹی والوں کے بھی ہزاروں جوان مارے گئے۔ اب بھی کچھ عسکریت پسند بعض مقامات پر حملہ کرتے ہیں لیکن انھیں بھی ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر زوبن مہتہ کی کنسرٹ والے دن جنوبی کشمیر میں مرکزی ریزرو پولیس فورس کی ایک پوسٹ کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔ سرینگر میں ہڑتال تھی لیکن یہ مشق پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے۔

اگرچہ 1972ء میں دونوں ملکوں نے شملہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ دشمنی ختم کر دی جائے گی۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر سمیت دیگر تمام تنازعات باہمی بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ گزشتہ 31 سال سے یہ معاہدہ قائم ہے تاہم اس حوالے سے دونوں کے مابین محض چند ملاقاتیں ہی ہوئی ہیں۔ بہر صورت کشمیر پر دونوں کو مزید بات چیت کرنی چاہیے۔ لیکن اس بات چیت کا اس وقت تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا تاآنکہ دونوں میں سے کوئی ایک اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کرنے پر آمادہ ہو۔ نئی دہلی حکومت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتی ہے جب کہ پاکستان اس وادی کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہے۔ حریت کانفرنس ایک ایسے حل کی توقع کر رہی ہے جو ممکن نظر نہیں آتا۔ چھ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن افق پر اب بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ بین الاقوامی رائے عامہ خاموش ہے اور انھوں نے معاملے کو دونوں ملکوں کی صوابدید پر چھوڑ رکھا ہے۔

حریت کانفرنس کو خود بینی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لانی چاہیے اس کو ثابت کرنا چاہیے کہ اس کی اہمیت ہے۔ اگر کشمیری اس کے ساتھ ہیں تو اس کو کشمیریوں کی ریاستی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کو اپنا وزیر اعلیٰ لانا چاہیے جو کہ آزادی کے مطالبے کو قوت کے ساتھ پیش کر سکے۔ لیکن کیا حریت کانفرنس کو کشمیریوں کی اتنی حمایت حاصل ہے؟ مجمع اکٹھا کر لینا آسان ہے مگر مجمعے کو ووٹوں میں تبدیل کرنا مشکل ہے۔ حریت کا یہ حساب ہے جسے وہ بیک وقت کئی گھوڑوں پر سوار ہو۔ یہ چاہتی ہے کہ وادی میں سب لوگ اس کی بھرپور حمایت کریں اور پھر یہ جموں اور لداخ کو بھی وادیٔ کشمیر کے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ اگر حریت اپنی بات منوانا چاہتی ہے تو اسے لداخ اور جموں کو بھی اپنا حامی بنانا ہو گا جو کہ حریت کے نہایت سخت خلاف ہیں۔ اگر حریت کشمیر کی نمایندگی کا دعویٰ کرتی ہے تو جموں اور لداخ کو اس کے ساتھ ہونا چاہیے تب آزاد کشمیر بھی‘ جو کہ پاکستان کے پاس ہے‘ حریت کی بات سنے گا بصورت دیگر وادی کا مقدمہ بہت کمزور ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔