- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
امریکا: کیمیائی ہتھیاروں کا موجد واستعمال گر
بات جب کیمیائی ہتھیاروں کی ہو رہی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیں ایسے واقعات نظر آتے ہیں جس سے ایک بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ امریکا جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار اور دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمے دار سمجھتا ہے ، خود ہی ان مہلک اور انسان دشمن کیمیائی ہتھیاروں کا خالق بھی رہا ہے اور ان سے استفادہ بھی کرتا رہا ہے،بات عراق کی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ آخر عراق میں صدام حسین جیسے ڈکٹیٹر کو مہلک اور کیمیائی ہتھیار کس نے سپلائی کیے اور پھر کس طرح ان ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جس سے ہزاروں انسانی جانوں کو نقصان بھی پہنچا اور پھر بعد میں یہ بات مختلف حوالوں سے منظر عام پر آتی رہی کہ امریکا نے عراق میں ڈکٹیٹر صدام حسین کو1980سے 1988کے دوران ایران پر جنگ مسلط کرنے کے بعد کیمیائی ہتھیار فراہم کیے جسے عراقی ڈکٹیٹر نے بے دھڑک استعمال کیا جس کے شواہد آج بھی ایران میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ جہاں امریکی حکومتوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا پھیلائو کیا اور استعمال کیا ہے وہاںامریکی حکومت نے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بھی ان کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا ہے۔آج امریکا کے پاس یہ بہترین بہانہ موجود ہے کہ جس ملک پر حملہ کرنا ہو یا وہاں بحران پیدا کرنا ہو تو کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر حملہ کر دیا جاتا ہے اور حال ہی میں یہی ماجرا کچھ شام اور شام کی حکومت کے ساتھ پیش آ رہا ہے کہ جہاں امریکی پشت پناہی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ علی الاعلان امریکا سے اپنے اتحاد کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا بھی علی الاعلان ان کی مسلح اور مالی معاونت کر رہا ہے ،انھی دہشت گردوں کی جانب سے اگست کی 21تاریخ کو شام کے علاقے الغوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے جس کے بعد امریکا کے لیے شام پر حملے کا جواز مل گیا ہے تاہم مغربی دنیا کے کئی ممالک اور یورپی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکا کو عراق سے سبق حاصل کرناچاہئیے لیکن امریکی صدر طاقت کے نشے اور غرور و تکبرمیں ہیں اور شام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں،بہرحال یہ تو بعد کی بات ہے کہ شام پر امریکی حملہ کارگر ثابت ہو گا یا نہیں یا پھر یہ امریکی صدر اوباما کی گیدڑ بھبکیاں ہی ہیں۔
زیر غور بات تو یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں بہت سے لوگ شاید یہ بات بھول چکے ہیں کہ امریکا ماضی میں نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کو دوسرے ممالک میں سپلائی کر چکا ہے بلکہ خود امریکا میں اپنے ہی 70شہریو ں کو بھی انھی کیمیائی مہلک ہتھیاروں کے ذریعے قتل کر چکا ہے۔
حال ہی میں whatreallyhappened.com نامی ایک ویب سائٹ نے اس بات کی طرف یاد دہانی کروائی ہے کہ 28فروری1993ء میں امریکی فورس BATFنے Branch Davideans کے علاقے Waco Texas.میں ایک چرچ پر چھاپہ مار کارروائی کی،اور اس کارروائی کا خاتمہ امریکن ایف بی آئی اور فورسز کی جانب سے خطرناک کیمیائی گیس CS کا استعمال کیا گیا جس کے باعث چرچ میں گیس کے بھر جانے سے وہاں پر معصوم بچوں سمیت خواتین اور متعدد افراد ہلاک ہو گئے ۔واضح رہے کہ سی ایس نامی کیمیائی گیس کا استعمال جنگ کے دوران بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے تاہم امریکی حکومت نے اس خطرناک گیس کو نہ صرف جنگ بلکہ ایک چرچ کے اندر استعمال کیا،اور صرف سی ایس گیس ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خطرناک اور حیات انسانی کے لیے شدید مہلک ترین گیس methylene chloride کا بھی استعمال کیا۔methylene chloride نامی گیس انتہائی زہریلی گیس ہے،اور بین الاقوامی قوانین کی رو میں اس مہلک گیس پر بھی شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں تا کہ حیات انسانی کو نقصان سے محفوظ کیا جا سکے،لیکن کیا کہا جائے امریکا اور امریکی حکومت کے لیے کہ جو دنیا بھر میں تو قتل و غارت کر ہی رہی ہے اپنے ہی ملک میں بھی معصوم انسانی جانوں پر زہریلی اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی ہے۔ methylene chloride گیس ایک ایسی خطرناک گیس ہے جو انسان کے Tissuesکو تیزی سے متاثر کرتی ہے اور پھر چند ہی لمحوں میں انسان اپنی زندگی کی رونقوں سے موت کی گود میں جا چکا ہوتا ہے۔
اس واقعہ میں امریکی فورسز نے چرچ کو درج بالا گیسوں کے استعمال سے بھر دیا اور پھر اس کے بعد چرچ کو نذر آتش کر دیا گیا تا کہ کسی قسم کا کوئی ثبوت نہ ملے لیکن بعد ازاں ہونے والی تحقیقاتی رپورٹس میں آیا ہے کہ امریکی فورسز کی جانب سے استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں سے ہی چرچ میں موجود معصوم بچوں سمیت خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی تھی جس کی وجہ ان کے پھیپڑوں میں زہریلی گیس کا بھر جانا بتایا گیا تھا جسے امریکی انتظامیہ کی جانب سے استعمال کیا گیا تھا۔یہ وہ مہلک کیمیائی گیسز تھیں کہ جن کا استعمال جنگوں میں بھی سختی سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا جو کہ خود ایک ایسی حکومت ہے جس کی تاریخ سیاہ ہو اور انسانیت کے قتل عام میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ دنیابھر میں دہشت گردی کی ایجاد میں بھی سر فہرست رہی ہو، ناگا ساکی ہو، عراق ہو یا افغانستان، یا ایران اور عراق جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا گھنائونا استعمال ہو یا پھر شام میں دہشت گردگروہوں کو کیمیائی ہتھیار کی سپلائی ہو یہ تمام تر وہ جرائم ہیں جو نا قابل معافی ہیں تاہم دنیا کی با ضمیر ریاستو ں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ امریکا پوری دنیا مین دہشت گردی کی جڑ ہے اور دہشت گردی کا بانی بھی ہے، امریکا شر مطلق ہے جس سے کبھی بھی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی تاہم امریکی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شام پر حملے کی باتیں کرے یا پھر حملہ کرے ۔امریکا جو کہ خود اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے تو بعید نہیں ہے کہ امریکا ہی شام میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کی سپلائی اور استعمال میں براہ راست ملوث ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔