نائن الیون اور معاشی نقصانات کا منحوس چکر

ایم آئی خلیل  جمعرات 12 ستمبر 2013
ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے جس کی بے پناہ جانی و مالی قربانیوں کے باوجود اب تک ہر طرح سے نقصانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ہم معاشی صورت حال کا جائزہ لیں تو معاشی نقصانات کا ایک چکر وجود میں آچکا ہے۔ جس کی مثال پروفیسر نرکسے کا پیش کردہ ’’غربت کا منحوس چکر‘‘ سے دی جاسکتی ہے۔ پروفیسر نرکسے کے مطابق غربت کے منحوس چکر سے مراد ’’کچھ ایسی قوتوں کا دائرہ کی صورت میں جھرمٹ ہے جن کے ایک دوسرے پر عمل اور ردعمل کے نتیجے میں ایک غریب ملک غربت کا شکار رہتا ہے‘‘۔

غربت کا بنیادی منحوس چکر اس حقیقت سے شروع ہوتا ہے کہ غریب ممالک میں سرمایہ کی قلت پائی جاتی ہے۔ ملکی منڈی کی ناکامیوں اور ملک میں معاشی پسماندگی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر قوت پیداواری پست رہتی ہے اور یوں غربت کا منحوس چکر دونوں اطراف یعنی طلب و رسد سے عمل پذیر ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ منحوس چکر 12 سال تک رہتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سرد بازاری اور پھر بعد میں گرم بازاری سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض سماجی و عمرانی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 12 سال کے بعد ہر شخص کی قسمت میں بدحالی سے خوشحالی بھی آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں جو جنگ شروع کی تھی۔ جہاں تباہی و بربادی مچانے کے بعد امریکا کے ہاتھ کچھ نہ لگا، لیکن اس جنگ میں فرنٹ لائن مین کا کردار ادا کرنے کے باعث پاکستان کی معیشت ایک منحوس چکر کی لپیٹ میں آچکی ہے، اور اب بارہ برس بھی پورے ہوچکے ہیں۔

اب ہم ماہر معاشیات پروفیسر نرکسے کے پیش کردہ غربت کے منحوس چکر کا موازنہ پاکستان کی معیشت کے منحوس چکر سے کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیتے ہیں۔ پروفیسر کے مطابق غریب ممالک کی حقیقی آمدنی پست رہتی ہے۔ لہٰذا طلب بھی کم رہتی ہے۔ ملک میں سرمایہ کی تعداد کم رہتی ہے لہٰذا قوت پیداواری کم رہتی ہے اور بالآخر ملک کی حقیقی آمدنی بھی کم رہتی ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں حالات مخدوش ہونے لگے۔ ان دنوں ملک میں غربت کی شرح 23 فیصد بتائی جاتی تھی۔ اگرچہ ملک کی ٹیکسٹائل ملیں تیزی سے ترقی کر رہی تھیں۔ خطے کے دیگر ممالک پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا مقابلہ کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات ٹیکسٹائل مصنوعات کی مہارت، تجربہ کاری اور پیداوار میں تخصیص کے حصول کو تسلیم کیا جارہا تھا کہ ملک میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہونے شروع ہوگئے۔

بم دھماکوں، توانائی کی قلت اور کئی سیکیورٹی مسائل کے سبب ایک طرف ملکی برآمدات متاثر ہوئیں، درآمدات میں اضافہ ہوا جس کے باعث تجارتی خسارہ بڑھتا ہی رہا۔ نائن الیون کے بعد تجارتی خسارہ اور درآمدات و برآمدات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو واضح ہوگا کہ تجارتی خسارہ کی بات ڈیڑھ ارب ڈالر سے شروع ہوئی اور ایک عشرہ طے کرتے ہوئے اب سالانہ تجارتی خسارہ تقریباً 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ جب مختلف مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں بند ہونے لگیں، ملک سے صنعت کار بیرون ملک شفٹ ہونے لگے تو مزدور، ہنرمند اور دیگر تعلیم یافتہ افراد بیروزگاری کا شکار ہونے لگے۔ جس سے لوگوں کی آمدنیاں کم ہوتی چلی گئیں۔ جب لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے زر ہی نہ ہوگا تو اشیا کی طلب خود ہی کم ہوجائے گی۔ اب جب ملکی سرمایہ کار صنعتکار بیرون ملک جانے لگیں گے تو ملک میں سرمایہ کاری گھٹ جائے گی۔

جب ملک میں امن نہ ہوگا، مغربی اتحادیوں کی حمایت میں قربانی دینے کے باوجود یہی ممالک اپنے سرمایہ کاروں، تاجروں، صنعتکاروں کو پاکستان کا سفر نہ کرنے کی ہدایت جاری کردیں تو ایسے میں غیرملکی سرمایہ کاری کہاں سے ہوگی۔ نرکسے کے مطابق جب ملک میں سرمایہ کاری کی کمی ہوگی تو قوت پیداوار کی کمی ہوگی اور لوگوں کی آمدنیاں بھی پست ہوں گی۔ لہٰذا نائن الیون کے بعد ملک کی معیشت غربت کے منحوس چکر میں ایسے پھنس گئی کہ اب کہا جارہا ہے کہ ملک میں 60 فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت و کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے اور 80 فیصد سے زائد آبادی کم خوراکی کا شکار ہے۔ غربت کے منحوس چکر میں طلب کا پہلو یہی بتاتا ہے کہ قوت پیداوار میں کمی کے باعث لوگوں کی کم حقیقی آمدنی رہتی ہے اور اس کا نتیجہ اشیا کی طلب محدود یا کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یوں کم سرمایہ کاری پھر کم پیداوار کا سبب بنتی ہے، یہ چکر چلتا رہتا ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی اس چکر میں آچکی ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ غربت کی چکی میں پستے چلے جارہے ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد غربت کی گہری کھائی میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ سرمایہ کار بیرون ملک چلے جارہے ہیں۔ صنعتکار اپنی صنعتیں بند کرتے چلے جارہے ہیں۔ غیرملکی تاجر پاکستان آنے سے کترا رہے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے سے بچتوں اور سرمایہ کو پیداواری کاموں میں صرف کرکے نئے کارخانے، نئی ملیں لگانے کے بجائے غیر پیداواری کاموں میں سرمایہ لگایا جارہا ہے۔ جس میں زمین کی خریداری، پلاٹوں کی خریداری، نئی گاڑیوں کی خریداری، ذخیرہ اندوزی وغیرہ میں سرمایہ لگایا جارہا ہے، جس کے باعث نئے روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ملک سے بدامنی، دہشت گردی اور معاشی بدحالی کا خاتمہ ہو۔ وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی ترقی میں آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملائیشیا سے آئے ہوئے مہمان نے ملائیشیا کے معاشی پروگرام حکومتی اصلاح کے تجربے کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ ملائیشیا نے اپنے بڑے اسٹرٹیجک پروگراموں کے فریم ورک کے تحت مختصر مدت کے لیے منصوبے وضع کرکے معیشت کو تبدیل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں نے مل کر ان منصوبوں کو وضع کیا۔ اس کے لیے طریق کار کو سادہ بنایا گیا تاکہ مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاسکے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے ایک اقتصادی ماڈل تیار کرلیا ہے اور ترقیاتی شعبوں کی نشاندہی اور ترجیحات طے کرلی گئی ہیں۔ لیکن ملائیشیا کا ماڈل اور جس طرح ملائیشیا نے ترقی کی ہے، وہاں کی معیشت اس طرح کے چکر میں نہیں پھنسی ہوئی تھی۔ جیساکہ پاکستان کی معیشت جس منحوس چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ جس کے باعث غیرملکی سرمایہ کار تو کجا خود محب وطن صنعتکار اور سرمایہ کار ملک میں کسی قسم کی مزید سرمایہ کاری اور صنعتوں کی آبیاری سے کترا رہے ہیں۔ گزشتہ 12 برسوں کے دوران پاکستان نے 70 تا 80 ارب ڈالر کا نقصان کیا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ بیروزگاروں کا ایک جم غفیر تیار ہوا ہے۔ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جانے والوں کا تناسب تین گنا بڑھا ہے۔

اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان پر جو دھاک بٹھائی جاتی ہے وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ جس کے باعث ہر کڑی، سخت اور ناگوار شرط کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ جس کے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی چلی جارہی ہے۔ لوگوں کی قوت خرید کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ جس کے باعث اشیا کی طلب میں کمی ہورہی ہے۔ جب اشیا کی طلب کم ہوگی تو اس کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوگی۔ مہنگائی کے باعث لوگوں کی بچتیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ ایک طرف لوگوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا دوسری طرف کم آمدنی والے کم خوراکی کا شکار ہورہے ہیں۔ کم بچتوں کے باعث ملکی سرمایہ کاری کا حجم بھی گھٹ رہا ہے۔ بالآخر ملکی عوام غربت کے منحوس چکر میں تیزی سے شامل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ الغرض نرکسے کے نظریات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ معاشی ترقی کو محدود کرنے والے اندرونی عوامل کی موجودگی میں معیشت منحوس چکر سے باہر نکل نہیں سکتی اور اقتصادی ترقی کا خواب جب ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے جب اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کردیا جائے، تاکہ نائن الیون کے بعد سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کو روکا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔