گولی، گولی، گولی

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 12 ستمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

گولی ہمارے معاشرے میں مختلف معنی و مطالب کا حامل لفظ ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے معنی، مفہوم و مطالب وسیع تر ہوتے گئے ہیں۔ اردو ڈکشنری بورڈ نے اپنی نئی جدید مختصر زیر طبع لغت میں عصر حاضر کے حوالے سے کچھ نئے الفاظ، معنی و مفہوم کے ساتھ شامل کیے ہیں مثلاً بھتہ، پرچی، ٹوپی کرانا، جگاڑ لگانا وغیرہ۔ یہ الفاظ پہلے بھی اردو زبان میں شامل تھے مگر ماحول اور اقدار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معنی و مفہوم بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ پہلے یہ الفاظ شریفانہ اور مثبت معنوں میں استعمال ہوتے تھے۔ اب ان کا استعمال منفی معنوں میں کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ بورڈ نے اپنی جدید لغت میں لوٹا، چمک، گولی اور کڑوی گولی جیسے الفاظ کو بھی شامل کیا ہے یا نہیں۔

ابتداً گولی سے مراد بیماری کی صورت میں مسیحاؤں کی جانب سے دی جانے والی دوا کی گولی (ٹیبلٹ) لی جاتی تھی، جو مریض کو شفایاب کرنے کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ پھر اسلحہ روشناس ہوا تو گولی سے مراد بلٹ لیا جانے لگا اس کا مقصد اپنی حفاظت یا دشمنوں پر اس کا استعمال تھا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنی حفاظت یا دشمنوں پر استعمال کے بجائے اپنے ہی دوستوں، ہموطنوں، ہم زبانوں اور ہم مذہبوں اور مخالف سیاسی یا مذہبی نظریات رکھنے والوں پر استعمال ہونے لگیں۔ ڈاکٹروں نے اپنی کڑوی اور بے ذائقہ گولیوں کو شوگر کوٹیڈ کیا تو قاتلوں اور دہشتگردوں نے بھی تیکنیک گری سے اسلحہ کی آواز کو سائلنسر کے ذریعے خاموش کردیا۔ جس کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو بھی اس گولی کی کارکردگی کا پتہ ہی نہیں چل پاتا، جب پتا چلتا ہے تو نشانہ باز جائے وقوع سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص ان کی شکل، حلیہ حتیٰ کہ فرار ہونے کی سمت کا اندازہ بھی نہیں کرپاتا ہے۔

گزشتہ دنوں اورنگی ٹاؤن کے ایک پولیس اہلکار پر یہی طریقہ آزمایا گیا جب تک کسی راہ گیر کی اس پر نظر پڑی اس وقت تک وہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے مر چکا تھا۔ گولی کی ایک عام اور مروجہ قسم وہ ہے جو روزانہ کروڑوں کی تعداد میں استعمال کی جاتی ہے اور انھیں ہر شخص دن میں کئی کئی مرتبہ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر بلاخوف و خطر استعمال کرتا ہے۔ یہ گولی کسی بھی لاعلم، سادہ لوح اور اعتبار کرنے والے شخص کو دھوکا، فریب، مکاری اور غلط بیانی کے ذریعے دی جاتی ہے اور اس گولی کو استعمال کرنے والا اپنے حلقہ احباب میں اس کارنامے کو بڑے فخر سے بیان کرکے داد و تحسین حاصل کرتا ہے۔ گولی دینے میں ماہر شخص کو Result Oriented ہونے کی بنا پر بڑی حیثیت دی جاتی ہے۔ گولی کی ایک قسم کڑوی گولی ہے، یہ اصطلاح ارباب اختیار استعمال کرتے ہیں، بلند بانگ دعوے اور سہانے سپنے دکھا کر عوام سے ووٹ حاصل کرکے جب مسند اقتدار پر متمکن ہوجاتے ہیں تو ملک کے بھیانک حالات کی منظر کشی کرکے ملک اور عوام کے مستقبل اور معیشت کی بہتری کے نام پر عوام پر ٹیکسز کا نفاذ کرکے انھیں یہ کڑوی گولی نگلنے پر آمادہ کرتے ہیں اور انھیں یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی شفا اس کڑوی گولی میں ہی مضمر ہے۔

اب ایک نئی گولی جس کو ’’فیول بوسٹر گولی‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کا تذکرہ چل نکلا ہے جس کا انکشاف نیشنل سینٹر فار فزکس (NCP) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے ٹیکنالوجی، بائیو فیول کے ڈاکٹر طارق محمود نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا ہے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق پٹرول ٹینک میں یہ فیول بوسٹر گولی ڈالنے سے پٹرول کے استعمال سے 30 فیصد تک زیادہ فاصلہ طے کیا جاسکے گا۔ این سی پی کی تیار کردہ اس گولی پر پانچ روپے کی لاگت آئے گی اور یہ گولی آیندہ تین ماہ میں  پٹرول پمپس پر دستیاب ہوگی۔ اس گولی کی جلد صنعتی پیمانے پر تیاری شروع کردی جائے گی۔ اس سلسلے میں معاہدے کو حتمیٰ شکل دی جارہی ہے۔ این سی پی کے پروفیسر کی جانب سے دی جانے والی اس ایجاد کی نوید قوم کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ اگر حقیقتاً ایسا ہوجاتا ہے تو اس کے اس غریب ملک اور اس کے غریب عوام اور اس کی اقتصادیات پر بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ چھوٹے سے کالم میں چھپنے والی اس بہت بڑی خبر کو عام پاکستانی ذہن فوری طور پر قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔

گوکہ یہ ناممکنات میں سے بھی نہیں ہے۔ پچھلے سال آغا وقار نامی ایک شخص بھی پانی سے کار چلانے کا دعویٰ لے کر سامنے آیا تھا جسے خوش قسمتی سے ایک وفاقی وزیر، وفاقی کابینہ، وزیراعظم کے علاوہ چوٹی کے سائنسدان کی تائید اور پذیرائی بھی حاصل ہوگئی تھی جب کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اسے نان سینس اور ڈاکٹر پرویز ہود نے فراڈ کہہ کر مسترد کردیا تھا بلکہ ڈاکٹر پرویز ہود نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایجاد کا خالق شخص فراڈیا ہے یہ ملک کو بدنام کر رہا ہے اس کو جیل میں ڈال دینا چاہیے اور اس کی حمایت کرنے پر سائنسدان کو ان کے عہدے سے برطرف کردینا چاہیے۔ اشرافیہ، عوام اور میڈیا کو سنہرے سہانے سپنوں کی گولی دینے والا یہ شخص پچھلے سال سے منظر عام سے غائب ہے۔ کابینہ نے اس کی اس ایجاد پر مزید پیش رفت کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اس کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے۔

کچھ عرصہ قبل سندھ کے سابق سیکریٹری اور سابق صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف سائنسز اینڈ سائنٹیفک ریسرچ کے پروفیسر شجاعت علی قرن نے پاکستانی انجینئر پر زور دیا تھا کہ وہ ہوا سے چلنے والی کاریں اور موٹرسائیکل چلانے پر تحقیق کریں۔ 2015 تک ایسی گاڑیاں کمرشل بنیادوں پر تیار ہوجائیں گی۔ فرانس کی کمپنی نے ایک یہ مثبت تحقیق کی ہے جس سے بھارت کے بڑے صنعتی ادارے ٹاٹا نے معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں کاریں ہوا اور موٹرسائیکلیں درختوں سے چلیں گی۔ جیٹ روفا (Jetrofa) نامی درخت میں بیرکی شکل میں پھل لگتا ہے جس سے ڈیزل جیسا مایع نکلتا ہے، کے ذریعے مستقبل میں موٹرسائیکلیں چلا کریں گی۔ خبر یہ بھی آئی تھی کہ PSO نے بلوچستان میں ایسے درختوں کی افزائش کی ہے۔ اگر حقیقتاً کوئی ایسا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو ایسی گولی قوم کے لیے بڑی نوید ہوگی۔ خدا کرے کہ ڈاکٹر طارق محمود کی انکشاف کردہ ’’فیول بوسٹر گولی‘‘ کارگر ثابت ہو ورنہ یہ قوم تو ’’گولیوں‘‘ کی عادی ہو ہی چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔