افغانستان میں قیام امن اور امریکا

زمرد نقوی  پير 15 جولائی 2019
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغانستان کے نمائندوں کے درمیان منعقد کی گئی دو روزہ افغان کانفرنس میں قیام امن اور 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر اتفاق رائے ہوگیاہے۔

امریکی ذرائع کے مطابق امریکی نمائندہ برائے امن زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ یکم ستمبر تک افغانستان میں قیام امن کے حتمی معاہدے کے لیے پر امید ہیں۔ جس کے بعد امریکا اور نیٹو افواج کو انخلاء کی اجازت دی جائے گی۔ زلمے خلیل زاد  دوحہ میں دس جولائی سے افغان نمائندوں اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آٹھویں مرحلے کا آغاز کرچکے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں اور خواتین اور دیگر نامور شخصیات نے شرکت کی۔ جس کا مقصد افغان معاشرے میں اتفاق رائے قائم کرنا تھا۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں اسلامی قانونی نظام نافذ ہوگا۔ اسلامی اقتدار کے تحت خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور تمام قومیتوں کے لیے مساوات کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم اس حوالے سے یہ نہیں بتایا گیا کہ اسلامی نظام کیسا ہوگا۔ آئینی اصلاحات کیسے لائی جائیں گی اور طالبان سے وابستہ مقامی جنگجوئوں کا کیا ہوگا۔ جب کہ فریقین کو اسلامی اقدار کے تحت خواتین کے حقوق کی تعریف اور نگران انتظامیہ کے قیام اور انتخابات کے انعقاد کے وقت سے متعلق بھی بات چیت کرنا ہوگی۔

طالبان نے سرکاری اداروں اور عوامی مقامات جیسا کہ اسپتالوں اسکولوں اور ڈیمز پر حملہ نہ کرنے پر بھی اتفاق نہ کیا۔ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ دو روزہ کانفرنس میں جنگ بندی پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ لیکن مشترکہ اعلامیہ میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ یہ کانفرنس دوحہ میں جرمنی اور قطر کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ یاد رہے کہ جرمنی افغانستان میں امن قائم کرنے طالبان اور دوسرے متحارب گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ایک سے زائد کانفرنسوں کا انعقاد کرچکا ہے۔

مذاکرات میں شامل گروپوں کی جانب سے اعلامیے میں بین اقوامی برادری، علاقائی طاقتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کریں۔ اس کے ساتھ ہمسایہ ممالک کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ اس اعلامیے کی نمایاں خصوصیات میں جہاں اور معاملات ہیں وہاں طالبان اس امن کانفرنس میں خواتین کو حقوق دینے اور تشدد میں کمی پر رضامند ہوگئے ہیں۔

افغانستان میں امن سے تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ یہ امن خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک ناقابل یقین خوش خبری ہوگی۔ آج کی نئی نسل کو کیا پتہ کہ چالیس برس پہلے کیا سازش ہوئی کہ افغانستان ، پاکستان اور مشرقِ وسطی آگ و خون کا سمندر بن گئے۔ پاکستان کی آج کی معاشی سماجی تہذیبی بربادی کا آغاز اس وقت سے ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ میں ملکوں میں شامل ہوتا۔ بھارت سے جموں کشمیر سمیت تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ لیکن امریکی سامراج کی ضرورتوں نے ہمیں تباہ برباد کر دیا کیوں کہ اس نے سرد جنگ کو جو سوویت یونین کے ساتھ، دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوگئی تھی گرم جنگ میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔

ایک طرف امریکی سامراج کا دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ دوسری طرف سوویت یونین کے مقابلتاً محدود وسائل، سابق امریکی صدر ریگن کے اسٹار وار سمیت جنگی منصوبے جس نے آخرکار سوویت یونین کی کمر توڑ دی۔ چنانچہ سامراج کی اس فیصلہ کن لڑائی میں قرعہ فال ہمارے خطے کے نام نکلا۔ مذہبی شدت پسندی کی فصل مشرق وسطی سے افغانستان، پاکستان تک بوئی گئی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ کروڑوں تباہ برباد ہوگئے اور خطے کو مالی طور پر کیا نقصان پہنچا جس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ ہمارے پورے خطے کا مائنڈ سیٹ اس طرح تبدیل کردیاگیا کہ رواداری برداشت تحمل کی جگہ مذہبی شدت پسندی، نفرت نے لے لی۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا ردعمل جو ضیاء الحق دور سے شروع ہوا، بھارتی ہندو بنیاد پرستی کی علمبردار بی جے پی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جیسے جیسے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی گئی ویسے ویسے ہندو بنیاد پرستی نے بھارتی معاشرے کے دل و دماغ پر قبضہ کرکے اسے اپنا غلام بنالیا۔ اب بھارت سیکولر نہیں حقیقت میں ہندوریاست بن گیا ہے۔ اگر اس کے پڑوس میں اسلامی پاکستان ہوسکتا ہے تو بھارت کو ہندوریاست بننے سے کون روک سکتا ہے۔

حالیہ بھارتی انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے بیس کروڑ مسلمان اچھوت بن کر رہ گئے ہیں۔ کہ ان کے ووٹ کی بی جے پی کانگریس سمیت کسی پارٹی کو ضرورت نہیں رہی۔ ہندوئوں کی نفرت نے اس انتخاب میں مسلمان امیدواروں کی اکثریت کو شکست سے دو چار کیا۔

سوال یہ ہے کہ اس ہندو بنیاد پرستی کا امریکی کو کیا فائدہ ہوگا جو ’’ردعمل‘‘ کے طور پر بھارتی معاشرے میں نیچے سے اوپر تک سرایت کرگئی۔ مذہبی شدت پسندی امریکی سامراج کی ضرورت تھی جس کے ذریعے اس نے افغان جنگ جیتی۔ مسلمان افرادی قوت کے ذریعے امریکا نے بلاشرکت غیرے دنیا پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ مسلمان ملکوںمیں اس شدت پسندی کو نہ صرف تخلیق کیا بلکہ اس کی سرپرستی بھی کی۔ پاکستان اور اس خطے کو امریکی چاکری کا نتیجہ جس میں ہمارے اس وقت کے، حکمران طبقات اور مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں صرف تباہی بربادی اور مسخ شدہ سوچ کی شکل میں ملا۔

اس پس منظر میں امریکا کے فوجی سربراہ نے چند دن پہلے کہا کہ ہم پاکستان سے مضبوط فوجی تعلقات چاہتے ہیں۔ انھوں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا ہے کہ  اگر میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف بن جاتا ہوں تو میرا مقصد پاکستان امریکا دفاعی تعلقات کو محفوظ بنانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ’’امریکی مفادات‘‘ حاصل کرنے کے لیے  پاکستان ایک اہم اسٹریٹجک ساتھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا سے پہلے امریکی جنرل ملی کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایک طرف امریکا ایران متوقع جنگ۔ دوسری طرف امریکی فوجی سربراہ جنرل ملی کا یہ بیان … اللہ خیر کرے، یہ ماضی میں امریکی مفادات ہی تھے جس کی چکی میں پچھلے چالیس سال سے ہم پس رہے ہیں ۔ کیا کسی نئی خوفناک آزمائش سے پاکستان پھر دو چار ہونے والا ہے؟

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے حوالے سے اہم تاریخیں 15-14 اور 20-19-18-17 جولائی میں۔

سیل فون:۔0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔