گمشدہ بچوں کی تلاش کیلیے مصنوعی ذہانت کا سافٹ ویئر استعمال ہوگا

کاشف حسین  پير 15 جولائی 2019
جدید کیمرا عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر 2 ماہ میں نصب ہو گا، سافٹ ویئر مصنوعی ذہانت سے 5 سال قبل گم ہونیوالے بچوں کو بھی تلاش کر سکے گا۔ فوٹو: فائل

جدید کیمرا عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر 2 ماہ میں نصب ہو گا، سافٹ ویئر مصنوعی ذہانت سے 5 سال قبل گم ہونیوالے بچوں کو بھی تلاش کر سکے گا۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں گمشدہ بچوں کی تلاش کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔

گمشدہ بچوں کی تلاش کے لیے شہرت رکھنے والی پاکستانی این جی او روشنی ہیلپ لائن کے سربراہ محمد علی کے مطابق گمشدہ بچوں کی تلاش کے لیے چہرے شناخت کرنے والے کیمرے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے تجزیہ کرنے والا سافٹ ویئر استعمال ہوگا۔

یہ کیمرے عوامی اور تفریحی مقامات پر نصب کیے جائیں گے اور روشنی ہیلپ لائن کی ڈیٹا بیس میں شامل گمشدہ بچوں کی تصاویر کی مدد سے ریکارڈ شدہ وڈیو کا تجزیہ کرے گا۔

پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر جدید کیمرا کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزا ر پر آئندہ 2 ماہ میں نصب کیا جائے گا یہ کیمرہ روشنی ہیلپ لائن کے ڈیٹا بیس میں شامل ہونے والے گمشدہ بچوں کی تصاویر کی بنیاد پر مزار پر آنے والے بچوں کے چہروں کی شناخت کرے گا اس ٹیکنالوجی کو کارگر بنانے کے لیے سافٹ ویئر میں تبدیلی کی جارہی ہے یہ سافٹ ویئر مصنوعی ذہانت کی مدد سے 5 سال قبل گم ہونے والے بچوں کو بھی تلاش کرسکے گا خواہ ان کے چہروں کے خدوخال میں کتنی تبدیلی نہ آچکی ہو۔

پائلٹ پراجیکٹ کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے کیمروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ساحلی مقامات سمیت شہر کی تفریح گاہوں اور پارکوں میں یہ کیمرے نصب کیے جائیں گے جن کے لیے 2 کارپوریٹ اداروں نے اپنا تعاون پیش کیا ہے، محمد علی نے پاکستان میں گمشدہ بچوں کے کوائف مرتب کرکے پاکستان کی پہلی ڈیٹا بیس تیار کی ہے جس کی مدد سے بچوں کو درپیش خطرات کا اندازہ اور پیش بندی کرنے میں مدد ملتی ہے۔

محمد علی رضاکاروں کے روایتی نیٹ ورک کے ساتھ اب جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کر رہے ہیں رضاکاروں کے لیے خصوصی موبائل ایپلی کیشن تیار کی گئی ہے جس کی مدد سے رضاکار گمشدہ بچوں کے کوائف اور تصاویر بروقت پورے نیٹ ورک کو ارسال کر سکیں گے اسی طرح پاکستان میں پہلی بار جدید کیمروں کی مدد سے چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی جارہی ہے۔

محمد علی کہتے ہیں کہ ان کا یہ مشن پاکستان کے ہر بچے کو محفوظ بنانے تک جاری رہے گا اس مقصد کے لیے انھوں نے نادرا سے درخواست کی ہے کہ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی حالیہ تصاویر نادرا کی ڈیٹا بیس میں داخل کی جائیں اور اس ڈیٹا بیس کو روشنی ہیلپ لائن کے سسٹم سے منسلک کیا جائے اسی طرح روشنی ہیلپ لائن ملک میں بچوں کے ذریعے گداگری کو ممنوع قرار دینے کے لیے اور سخت سزاؤں کے لیے بھی قانونی چارہ جوئی کررہی ہے۔

کراچی میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات بڑھنے لگے

کراچی میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں تیزی سے بڑھنے لگے ہیں یکم جنوری 2019 سے 13جولائی تک کراچی میں 511بچوں کی گمشدگی کے واقعات رجسٹرڈ کیے گئے سب سے زیادہ 11سے 15 سال کی عمر کے بچے گم ہورہے ہیں، روشنی ہیلپ لائن کی ڈیٹا بیس کے مطابق 511 بچوں میں سے 400بچے اور 111بچیاں شامل ہیں۔

گم شدہ بچوں میں 5 سال کی عمر تک کے 71، 6 سال سے 10 سال کی عمر کے 118، 11 سال سے 15سال کی عمر کے 247 اور 16سے 18سال کی عمر کے 75بچے شامل ہیں ان میں سے487 بچے روشنی ہیلپ لائن کی کاوشوں سے تلاش کرلیے گئے جبکہ 24 بچے تاحال گم ہیں  سب سے زیادہ بچے مارچ کے مہینے میں گم ہوئے جن کی تعداد 107ریکارڈ کی گئی، جنوری میں 71، فروری میں 78، اپریل میں 102، مئی میں 51، جون میں 69اور جولائی میں 33 بچے گم ہوئے، بچوں کی بازیابی کے لحاظ سے فروری کا مہینہ سب سے بہتر رہا جس میں تمام 78بچے تلاش کرلیے گئے۔

کراچی کے جغرافیہ کے لحاظ سے ملیر اور ضلع غربی کے علاقے بچوں کے لیے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں جنوری سے جولائی کے وسط تک ضلع وسطی سے 70بچے، شرقی سے 95، کورنگی سے 73، ملیر سے 105، ضلع جنوبی سے 60، غربی سے 108بچے گم ہوگئے،گم ہونے والے بچوں میں ضلع غربی کا تناسب 21.14فیصد اور ضلع ملیر کے گمشدہ بچوں کا تناسب 20.55فیصد رہا۔

گم ہونیوالے بچوں میں گھروں سے بھاگنے والوں کا تناسب زیادہ ہے

گم ہونے والے بچوں میں گھروں سے بھاگنے والے بچوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جنوری سے جولائی کے وسط تک بازیاب کرائے گئے 487 بچوں میں سے گھروں سے بھاگنے والے بچوں کی تعداد 220 اور تناسب 45 فیصد رہا، اعدادوشمار کے مطابق 165 بچوں نے گم ہونے کی وجہ گھر کا راستہ بھولنے کو قرار دیا جو گم ہونے والے بچوں کے تناسب میں 33.88 فیصد ہے۔

تلاش کیے گئے 59بچوں نے والدین یا فیملی کے کسی رکن کے ساتھ اپنے تنازع کی وجہ سے گھر چھوڑا، جبری مشقت کے لیے 2 بچوں کو اغوا کیا گیا، 4بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 24 بچے اغوا کیے گئے تاہم یہ بچے تاوان کے لیے نہیں اغوا ہوئے، 5 بچے مردہ حالت میں ملے اور 8بچوں کی جان کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔

وقت کے ساتھ بچوں کو لاحق خطرات کی نوعیت تبدیل ہو گئی

وقت کے ساتھ بچوں کو لاحق خطرات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے انجان افراد سے رابطے اور دوستیاں بچوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہیں اور یہ خطرہ جس وقت تک ظاہر ہوتا ہے بچوں کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے، اکثر کیسز میں والدین اپنے بچوں کی سوشل میڈیا کی دوستیوں سے لاعلم رہتے ہیں اور بچے بھی انٹرنیٹ پر رابطے کے دوران ہراساں کیے جانے کے بارے میں والدین کو کچھ نہیں بتاتے۔

روشنی ہیلپ لائن کے سربراہ محمد علی کے مطابق بچوں کو لاحق خدشات کی روک تھام کے لیے والدین کا کردار سب سے اہم ہے والدین کو اپنے بچوں پر پوری توجہ دینا چاہیے بچوں کے معمولات یا رویے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پر فوری توجہ دینی چاہیے اگر بچہ اسکول یا مدرسہ جانا نہیں چاہتا یا گھر پر کسی رشتے دار یا قریبی شخص سے خوف محسوس کررہا ہے تو اس کی وجہ تلاش کرنی چاہیے بچہ گھر سے ملنے والے جیب خرچ سے زیادہ پیسے خرچ کررہا ہے تو اس کی بابت دریافت کرنا چاہیے یا کوئی دوست تحفے دے رہا ہے تو نظر رکھنی چاہیے کہ اچانک ایسا کون سا دوست مل گیا جو اتنا مہربان ہے، انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ کس قسم کا مواد ان کے لیے موزوں ہے اور اپنی یا فیملی کی تفصیلات کا کس حد تک کسی دوست سے تبادلہ کیا جانا چاہیے۔

روشنی ہیلپ لائن نے 5100 گمشدہ بچے والدین تک پہنچا دیے

روشنی ہیلپ لائن اب تک 5100گمشدہ بچوں کو تلاش کرکے ان کے والدین کے سپرد کرچکا ہے، روشنی ہیلپ لائن کا نیٹ ورک 9500 رضاکاروں تک وسیع ہوچکا ہے جس میں 4500کے لگ بھگ کراچی میں کام کررہے ہیں روشنی ہیلپ لائن کے سربراہ محمد علی کے مطابق بچوں کی گمشدگی میں والدین پر سب سے پہلی ذمے داری عائد ہوتی ہے ذرا سی غفلت سے بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

سماجی طور طریقوں میں تبدیلی سے بھی بچوں کو لاحق خدشات میں اضافہ ہورہا ہے بچوں کو لاحق خطرات کی نوعیت بھی تبدیل ہورہی ہے، اس حوالے سے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اچھے اور برے طریقے سے چھونے میں کیا فرق ہے ، والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کا مضبوط رہنا بھی ضروری ہے بچوں کے رویے میں معمولی سی تبدیلی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے یہ اس وقت ہی ہوگا جب والدین اپنے بہترین وقت میں سے کچھ گھنٹے بچوں کو دیں ، بچے اسکول جانے سے کترارہے ہیں ، مدرسہ جانے سے اجتناب کر رہے ہیں ، دوستوں کے ساتھ کھیلنے یا کسی جان پہچان والے فرد یا رشتہ دار سے خوف زدہ ہیں اس بارے میں بچوں سے بات کرنی چاہیے، بچوں کی کم جیب خرچ دیا جارہا ہے لیکن وہ زیادہ خرچ کرتے نظر آئیں تحفے تحائف ان سب چیزوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق کم آمدن اور زیادہ بچوں والے گھرانوں میں بچوں کی گمشدگی کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں 11سے 18سال کی عمر کے بچوں کی گمشدگی کا رجحان دیگر سے زائد ہے، بچوں کے لیے انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے اجنبی افراد سے تعلقات بھی بڑھتا ہوا خطرہ ہیں جن کے نتائج اس وقت سامنے آتے ہیں جب پانی سر سے بلند ہوچکا ہوتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔