’’ فقیر خانہ ‘‘ بھاٹی گیٹ میں 6 نسلوں سے قائم نجی عجائب خانہ

آصف محمود  پير 15 جولائی 2019

لاہور: نجی عجائب گھر’’ فقیر خانہ‘‘ہے، جو 6 نسلوں سے اندرون بھاٹی گیٹ لاہور میں فقیر خاندان کے زیر انتظام قائم ہے، یہاں کم و بیش 30 ہزار تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں، اسے لاہور کا دوسرا بڑا عجائب خانہ تسلیم کیا گیا۔

یہ ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ رنجیت سنگھ دور میں عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات اور احکام بھی موجود ہیں، 400 سال قبل ازمسیح کے سکے اور گندھارا آرٹ کے نمونے بھی موجود ہیں تاہم اب اس کی عمارت خستہ حال ہو چکی، اس میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئیں۔

میوزیم کے ڈائریکٹر فقیر سیف الدین نے بتایا کہ ان کے پاس جو تبرکات محفوظ ہیں ان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک، چادر، تسبیح، مسواک، کفش اور جائے نماز شامل ہیں، کچھ تبرکات حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسینؓ، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام زین العابدینؓ، سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے منسوب ہیں، 4 تبرکات ایسے ہیں جو ہمارے خاندان کو اپنے مورث اعلیٰ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری سے ورثے میں ملے۔

باقی تمام تبرکات وہ ہیں جو شاہ محمد باز سے فقیر نور الدین نے 3 لاکھ روپے کے عوض حاصل کر کے انھیں خاص عمارت میں محفوظ رکھا اور ان کی دیکھ بھال کے اخراجات کو پورا کرنے کیلیے 8 لاکھ کی جائیداد بھی وقف کی تھی، میوزیم میں مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت یعنی18سے 20 تک 3 صدیوں کے نوادرات جن میں سکے، ہتھیار، زیورات اور دیگر اشیا شامل ہیں، محفوظ ہیں، بدقسمتی سے نوادرات کا یہ خزانہ فقیر خاندان کی اولاد میں تقسیم ہوتے ہوئے کافی حد تک ضائع ہو چکا تاہم جو کتابیں، نوادرات، سکے بچ گئے وہ یہاں محفوظ ہیں۔

میوزیم کی انتظامیہ کے مطابق نور الدین نے رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی نمائش کرائی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر سے بے شمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں، آج بھی کئی پینٹنگز ان ہی سے منسوب ہیں، اس کے علاوہ کتابیں اور ظروف ہیں، گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں، لکڑی کے شاہکار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہکار ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ اورکیلی گرافی کے نمونے بھی موجود ہیں۔

فقیر سیف الدین نے بتایا کہ نوادرات سے محبت ان کے خون میں ہے، انھوں نے نہ صرف تاریخی خزانے کی حفاظت کی بلکہ اضافہ کیا، بادشاہی مسجد میں جو تبرکات رکھے گئے، وہ گیلری بھی ان کے اجداد نے قائم کی اور وہاں رکھنے کیلیے تبرکات دیے، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک بھی شامل ہیں، وہاں سے ایک نعلین پاک چوری ہوگیا جبکہ دوسرا یہاں محفوظ ہے۔

سیف الدین کے مطابق ان کا خاندان رنجیت سنگھ کا سرکاری معالج، وزیر خارجہ اور چیف سیکریٹری رہا، عزیزالدین دیوان تھے، وہ رنجیت سنگھ کی عدالت میں رہے، فقیر عزیزالدین کے دونوں چھوٹے بھائی فقیر امام الدین اور نور الدین بھی ان کے ساتھ تھے، ان کی ذہانت سے متاثر ہو کر نورالدین کو لاہور کا گورنر مقرر کر دیا، یہ بھی سب دیوان تھے، اس دور میں زیادہ نوادرات اکٹھے ہوئے،1901 میں فقیر خانہ عام لوگوں کیلیے کھول دیا گیا۔

انتظامیہ کے مطابق دنیا بھر سے اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد اس عجائب گھر کو دیکھ چکے، اسکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی آتے ہیں، ایک سیاح معاذ مغل نے بتایا کہ وہ نجی یونیورسٹی میں تاریخ کا طالب علم ہے، وہ پہلی بار یہاں آیا، خوشی ہوئی کہ یہاں تاریخ کا خزانہ پڑا ہے، جس سے ہمیں تاریخ جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک طالبہ ماہین نے بتایا کہ یہاں کے نوادرات اور تبرکات شاید کہیں اور نہیں، رنجیت سنگھ سے متعلق کچھ اور بتایا جاتا ہے لیکن یہاں جو تاریخ ملتی ہے وہ مختلف ہے۔

سیف الدین کہتے ہیں کہ میوزیم کی کوئی آمدن نہیں، یہاں داخلہ بھی مفت ہے، دوسری طرف حکومت نے سالانہ امداد 20 لاکھ سے کم کر کے 10 لاکھ روپے کر دی، جس میں ملازمین کی تنخواہیں، بجلی، گیس اور پانی کے بل ممکن نہیں جبکہ عمارت میں دراڑیں پڑ چکیں ہیں، اگر گر گئی تو شاید یہ خزانہ بھی ختم ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔