حکومت یا معیشت؟ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج کس کیلیے؟

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 15 جولائی 2019
ضروری نہیں کہ بیل آؤٹ پیکیج کے تحت پرائیویٹ سیکٹر بھی وسعت اختیار کرے۔ فوٹو:فائل

ضروری نہیں کہ بیل آؤٹ پیکیج کے تحت پرائیویٹ سیکٹر بھی وسعت اختیار کرے۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: رواں ماہ کے آغاز میں عالمی مالیاتی فنڈ  ( آئی ایم ایف ) نے پاکستان کیلیے 6 ارب  ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا  اعلان کردیا۔ یہ رقم  3 سال کے عرصے میں فراہم کی جائے گی۔

آئی ایم ایف کے مشن چیف برائے پاکستان، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ریمریز ریگو کے مطابق اس بیل آؤٹ کے پکیج کے دو بنیادی مقاصد ہیں، پہلا مقصد میکرواکنامک استحکام اور دوسرا اداروں کی تعمیر اور استحکام۔ ریگو کے مطابق پاکستان کا اہم مسئلہ جی ڈی پی کے لحاظ سے ریونیو کی پست شرح ہے اور ہماری توجہ اسی پہلو پر ہے۔

آئی ایم ایف 3 اہم مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔ ان مقاصد میں ادارہ جاتی اصلاحات، ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا، آئندہ چند برسوں میں دیگر ڈونرز کی پاکستان کو 38 ارب ڈالر فراہم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا۔

ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت پر کوئی دو رائے نہیں ،تاہم یہ بات اہم ہے کہ آئی ایم ایف کی توجہ ریونیو میں اضافے پر ہے، اخراجات میں کمی لانے پر نہیں۔ اگر حکومت ٹیکس وصولی اور برآمدات کا ہدف حاصل نہیں کرپاتی تو پھر کیا ہوگا؟ اس صورت میں آئی ایم ایف دیگر اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ پاکستان کو قرض دیں۔ واضح طور پر یہ پائیدار معاشی ترقی کی حکمت عملی نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کی صرف ریونیو میں اضافے پر توجہ سے فارمل سینس میں جی ڈی پی اور حکومت کا سائز تو بڑھے گا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی وسعت اختیار کرے گا جو روزگار کے مواقع کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ یہ پاکستان کے تقریباً 21 کروڑ عوام کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں جن کا 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج حکومت پاکستان کے لیے ہے نہ کہ اس کی معیشت کے لیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔