- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
لاکھوں بچے اسکول جانے کے باوجود کچھ پڑھ نہیں پاتے؟ رپورٹ
کراچی: ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں لاکھوں بچے کئی برس اسکول جانے کے باوجود کچھ سیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی پڑھ پاتے ہیں۔
یہ کوئی خفیہ بات نہیں ہے کہ ملک بھر میں نظام تعلیم ہمیشہ سے زبوں حالی کا شکار ہے جبکہ تعلیمی نظام کی بہتری کیلیے غیرملکی ڈونرز معقول امداد بھی دے رہے ہیں، ملک بھر میں 2کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں جو دنیابھر میں دوسری بڑی تعداد ہے۔
تعلیمی نظام کی ابتری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ لاکھوں بچے جو روز اسکول جاتے رہے اور فراغت کے بعد کچھ نہیں سیکھ پائے۔ ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کی رپورٹ جس کا موضوع ’پاکستانی بچے کیوں پڑھ نہیں پاتے‘ ہے جسے نادیہ نوی والا نے مرتب کیاہے۔
رپورٹ میں نظام تعلیم کی کمزوریوں اور اسکول میں زیرتعلیم بچوں میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت کے عدم پروان پر بات کی گئی ہے۔ ولسن سینٹر کی گلوبل فیلو نادیہ نوی والانے کئی اسکولوں کے100کلاس رومزکادورہ کیا، وزرائے تعلیم سے گفتگو کی، حکام، ماہرین تعلیم ، امدادی اداروں ، اساتذہ اور طلبا کے انٹرویو کیے۔
رپورٹ کے مطابق اسکول میں کئی برس زیرتعلیم رہنے کے باوجود تھرڈ کلاس پاس ہونے والے طلبا میں سے نصف اردو یا مقامی زبان میں ایک جملہ پڑھ نہیں سکتے جس کی بنیادی وجہ تعلیم کیلیے غیرملکی زبان کا استعمال ہے۔ بچے سبق سمجھ نہیں پاتے اور اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
رپورٹ کی رونمائی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نادیہ نوی والا نے کہاکہ پشاور کے مضافات میں واقع ایک کمیونٹی اسکول میں 120طالبات ہیں جن میں سے صرف ایک طالبہ اٹک اٹک کر ایک جملہ پڑھ پائی جبکہ وہ بچی ایک پرائیویٹ اسکول میں زیرتعلیم تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان بچیوں کی مادری زبان پشتو ہے لیکن انھیں اسکول میں اردو اور انگلش پڑھائی جاتی ہے، ان بچیوں کے پاس اردو، انگلش، عربی اور پشتوسمیت 4کتابیں ہیں جنھیں پڑھ کرانھیں پاس ہوناہے۔ ان زبانوں کے پڑھانے کا طریقہ کار بھی مختلف جس کی وجہ سے وہ ایک زبان بھی درست طورپر نہیں سمجھ پاتے۔
نادیہ نوی والا نے کہاکہ اساتذہ کا پڑھانے کا طریقہ کار بھی انتہائی تکلیف دہ ہے وہ بچوں کو الفاظ ملاکر پڑھنے کا طریقہ سمجھانے کے بجائے صرف رٹا لگوادیتے ہیں جس کی وجہ سے اسکول بچوں میں پڑھنے یاسیکھنے کی صلاحیت میں بہتری لانے میں ناکام ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔