انگلینڈ کی ورلڈ کپ میں تاریخ ساز فتح

ایڈیٹوریل  منگل 16 جولائی 2019
ورلڈکپ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکا، بلاشبہ دنیا کی ہر ٹیم اپنی کارکردگی کا جائزہ لے گی۔ فوٹو: آئی سی سی

ورلڈکپ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکا، بلاشبہ دنیا کی ہر ٹیم اپنی کارکردگی کا جائزہ لے گی۔ فوٹو: آئی سی سی

ایکشن، سپنس، تھرل اور ڈرامہ۔ یہ سب ورلڈکپ کے فائنل میچ میں شائقین کرکٹ کو دیکھنے کو ملا، ایسا سنسنی خیر میچ جس کو دیکھتے ہوئے دل کی دھڑکنیں قابو میں نہ رہیں،کبھی تو سانس تک رکتی محسوس ہوتی، لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال ،کبھی نیوزی لینڈکا پلڑا بھاری توکبھی انگلینڈکی جیت کی طرف پیش قدمی۔کرکٹ میچزکی تاریخ میں ایسا اعصاب شکن مقابلہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔

وہ جوکرکٹ کے بانی کہلائے، پہلا ورلڈ کپ جن کے گھر میں ہوا، چوالیس برس تک ٹرافی جیتنے کے لیے ترستے رہے، ان کی مراد بر آئی۔ انگلینڈ ورلڈ کپ کا فاتح بن گیا، لیکن مد مقابل نیوزی لینڈ نے بھی کمال کردیا ، غضب ڈھایا ، وہ ہارکر بھی جیت گئے، ایسی ہارکو ہار نہیں کہا جاسکتا، سچ پوچھیں تو شائقین کرکٹ کو یہ میچ مدتوں یاد رہے گا۔

عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار فیصلہ کن معرکہ ’’ ٹائی‘‘ رہا تو ونرکے لیے سپر اوور دیا گیا، دونوں ٹیموں نے سپر اوور میں 15،15 رنز بنائے اور اسکور پھر برابر ہوگیا، تاہم انگلینڈ کومیچ میں زیادہ باؤنڈریزکی بنیاد پر ورلڈ کپ کا فاتح قرار دیا گیا۔انگلش ٹیم 1979، 1987 اور 1992 یعنی تین بار ورلڈ کپ فائنل میں پہنچی لیکن جیت کا مزا چکھ نہ سکی۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم مسلسل دوسری بار فائنل میں پہنچی، تاہم ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں ناکام رہی۔ نیوزی لینڈ نے میچ میں17جب کہ انگلینڈ نے26باؤنڈریزلگائیں، میچ میں شاندار کارکردگی پر بین اسٹوک کو مین آف دی میچ جب کہ ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی پر نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیم سن کو مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔

فائنل میچ جیتنے والے کی خوشی دیدنی تھی، جذبات کا ایک طوفان تھا، دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے آنسو رواں تھے، میچ میں پریشر اتنا زیادہ تھا کہ کسی کا نروس بریک ڈاؤن ہونا بھی اچھبنے کی بات نہ ہوتا، جو جیتے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اورجو ہارے ان کی آنکھوں میں غم کے آنسو تھے، لیکن یہ سب تھے گوہرآب دار۔اس بات سے قطع نظرکہ میچ کون جیتا یا ہارا ، حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو کرکٹ جیت گئی۔

کرکٹ کا کھیل اب ایک جدید سائنس بن چکا ہے، لیکن یہ ایسا کلاسیک آرٹ بھی ہے جس میں چھ ہفتے تک دنیائے کرکٹ کی تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں نے اپنا بہترین کھیل پیش کیا۔کئی نئے ورلڈ ریکارڈ بنے اورکئی ٹوٹے، فاتح کپتان ایون مورگن کا کہنا تھا کہ چار برس کی محنت کا آخر صلہ مل گیا، ٹرافی ہاتھوں میں اٹھانے پر بہت زیادہ خوش ہوں۔دوسری جانب کین ولیمسن کا کہنا تھا کہ پورے ٹورنامنٹ میں بھرپور فائٹ پر اپنی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انگلینڈ بھی ایک منی برصغیر آباد ہے۔ یعنی پاکستان اور ہندوستان کے لاکھوں لوگ آباد ہیں،اگر ورلڈ کپ کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوتا تو تماشائیوں کا جوش، جذبہ اور جنون دیکھنے سے تعلق رکھتا جوکہ انگلینڈ اورنیوزی لینڈ کے فائنل میں خال خال ہی نظرآیا۔

ورلڈکپ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکا، بلاشبہ دنیا کی ہر ٹیم اپنی کارکردگی کا جائزہ لے گی، خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرے گی اور آیندہ کی پلاننگ بھی کرے گی،کیا پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بھی ایسا کر پائے گی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں ہر صورت میں تلاش کرنا ہے اگر پاکستانی ٹیم دنیائے کرکٹ میں کوئی مقام و رتبہ حاصل کرنا چاہتی ہے توہمیں انا، اقربا پروری اوراسیکنڈلز سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔

کھلاڑی مل کر کھیلیں گے تو کامیابیاں ان کا مقدر بنیں گی اوراگر پیسہ مطمع نظر رہا توکھلاڑی ناکامیوں کے صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی قوم کا پسندیدہ ترین کھیل کرکٹ ہے،کرکٹ کے ہونے والے میچز میں دلچسپی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ تمام معمولات زندگی متاثر ہوجاتے ہیں۔

دفاتر واسکولز میں حاضری کم اور سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایک اور تلخ حقیقت بھی ہے کہ کرکٹ ہمارے وطن کے سب کھیلوں کو اژدھے کی طرح نگل گئی ہے،کیونکہ اس کھیل پر تو ہم اربوں ،کھربوں خرچ کردیتے ہیں لیکن ہاکی، فٹ بال ، باکسنگ، ٹینس، اسکواش ، بیڈمنٹن، ریسلنگ،والی بال ، کبڈی سمیت دیگر کھیلوں کے لیے ہمارے پاس فنڈز تک نہیں ہوتے ۔ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے، تاریخ میں ایک ایسا سال بھی آیا جب ہمارے پاس ہاکی کے تمام ٹائٹل تھے۔

فٹ بال کا نیچرل ٹیلنٹ ہمارے پاس ہے، اسکواش کی دنیا پر ہم نے دہائیوں تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی۔ایک کھیل کے پیچھے ہم ایسے پاگل ہوئے کہ دیسی اور روایتی کھیلوں کشتی، کبڈی، ملاکھڑا، باکسنگ، نیزا بازی سمیت بے شمار کھیلوں سے بیگانے ہوگئے۔ دنیائے کھیل اور اولمپکس میں ہم کوئی میڈل تک جیتنے کے اہل ہی نہیں رہے۔ایک ایسے وقت میں جب کرکٹ ٹیم کا سابق کپتان ملک کا وزیر اعظم بن چکا ہے۔ کھیل کی دنیا میں ہمارا پیچھے رہ جانا کسی بھی قومی المیے سے کم نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔