کرتارپور راہداری مذاکرات میں پیش رفت

ایڈیٹوریل  منگل 16 جولائی 2019
بھارت کے اعتراض کے بعد پاکستان نے سکھوں کی بنائی گئی کمیٹی پر نظرثانی کی اور نئی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ فوٹو: فائل

بھارت کے اعتراض کے بعد پاکستان نے سکھوں کی بنائی گئی کمیٹی پر نظرثانی کی اور نئی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ فوٹو: فائل

کرتار پور راہداری پر پاکستان اور بھارت میں اتوار کو مذاکرات ہوئے جس میں80 فیصد معاملات طے پا گئے ہیں، تاہم یاتریوں کی تعداد اور دیگر چند امور سمیت 20فیصد نکات ایسے ہیں جن پر اب بھی ڈیڈلاک برقرار ہے۔ کرتار پور راہداری پر مذاکرات کا دوسرا دور واہگہ بارڈر پر ہوا جس کی میزبانی پاکستان نے کی۔

13رکنی پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کی جب کہ بھارت کا 8 رکنی وفد امور داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری ایس سی ایل داس کی سربراہی میں شریک تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی سکھ یاتریوں کے پاکستان میں انٹری کے طریقہ کار، رجسٹریشن، کسٹم، امیگریشن، انٹری فیس، کرنسی کی حد، ٹرانسپورٹ، میڈیکل ایمرجنسی، گوردوارہ دربارصاحب میں قیام کے دورانیہ اور دیگر اہم امور کو حتمی شکل دے دی گئی۔

بھارت کے اعتراض کے بعد پاکستان نے سکھوں کی بنائی گئی کمیٹی پر نظرثانی کی اور نئی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ کرتارپور راہداری امن کی طرف ایک قدم ہے، مذاکرات میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے اور باقی معاملات طے کرنے کے لیے آخری میٹنگ ہوگی۔

کرتار پور راہداری پر پاک بھارت مذاکرات میں زیادہ تر معاملات پر اتفاق رائے ہونا امن کی جانب ایک قدم ہے جس کے اس خطے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ پاک بھارت تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہیں، یہ برف اس وقت پگھلے گی جب دونوں ممالک کے درمیان باہمی تنازعات کے حل کے لیے جامع مذاکرات ہوں گے۔

پاکستان دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لیے بھارت کو متعدد بار مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے لیکن مودی سرکار نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آنے دی، جب بھی پاکستان نے مذاکرات کی بات کی بھارت کی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسا ایشو کھڑا کر دیا گیا جس سے ماحول میں تلخی نے جنم لیا۔ بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری سے جنگی ماحول پیدا کیا گیا‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے عوام سے خطاب میں پاکستان کے خلاف نفرت انگیز رویہ اپناتے رہے ہیں۔

اب کرتار پور راہداری کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان معاملات کا طے پانا یقیناً خوش آیند ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ بابا گورونانک کی 550ویں سالگرہ پر کرتار پور راہداری کھولی جا رہی ہے، پاکستان کی طرف سے گوردوارہ کمپلیکس، ٹرمینیل بلڈنگ اورسڑکوں کی تعمیرکا70فیصد کام مکمل ہوچکاہے، دریائے راوی پر پل کا کام بھی کافی حد تک مکمل ہو گیا ہے، پاکستان راہداری کو مقررہ وقت پر کھولنے کا خواہش مند ہے، ہم اپریل میں بھی مذاکرات کے لیے تیار تھے تاہم بھارت کی جانب سے اسے ملتوی کیا گیا۔

سکھ یاتریوں کی تعداد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ جب تک اس حوالے سے کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پا جاتا، میں اس حوالے سے تفصیل نہیں بتا سکوں گا، ہم نے واہگہ بارڈر پر نیم کا پودا بھی لگایا ہے جو امن کا پودا ہے۔ کرتارپور راہداری منصوبے پر مذاکرات کا پہلا مرحلہ 14مارچ کو بھارت میں اٹاری کے مقام پر ہوا‘ مذاکرات کے دوسرے دور میں جن نکات پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا انھیں حل کرنے کے لیے مزید میٹنگ ہو گی۔ کرتار پور راہداری مذاکرات اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ باہمی تنازعات حل کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں‘ ہٹ دھرمی‘ نفرت انگیز رویے اور گولی سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

نفرت ختم کرنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے مذاکرات پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں‘ ویزے کی شرائط اور شقوں میں نرمی کرتے ہوئے دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے تاجروں‘ ادیبوں اور عام شہریوں کے لیے کھول دی جائیں تو اس سے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملے گا‘ ترقی اور خوشحالی کے نئے در وا ہوں گے۔

جنگی جنون نے اس خطے میں جہالت‘ غربت اور بیماریوں ہی کو جنم دیا ہے‘ آج بھی تمام تر ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے باوجود اس خطے میں بھوک اور غربت کا شکار کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ کرتار پور راہداری مذاکرات کو مثال بناتے ہوئے پاک بھارت حکومتیں اعلیٰ سطح پر جامع مذاکرات بھی جلد از جلد شروع کریں تاکہ اس خطے سے جنگی جنون کو ختم کر کے پائیدار امن کی فضا قائم کی جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔