شادی کا فیصلہ: قسمت، اور تدبیر کا کھیل

ڈاکٹر میشال نذیر  بدھ 17 جولائی 2019
شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عاصم ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا، اور اللہ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ وہ ایک کامیاب دل کا ڈاکٹر بن گیا۔ وہ قریب 80 کی دہائی میں امریکا گیا، اور پھر واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس نے وہاں خوب نام کمایا، اور وہاں کے کامیاب ترین سرجنز میں شامل ہوا۔ والدین نے شادی اور واپسی کا دباؤ ڈالا، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی، وہ امریکا کی چکاچوند میں گم ہوچکا تھا۔ اس نے واپس آنے سے معذرت کی، اور وہاں کی گوری سے شادی کرلی۔ اللہ نے اولاد سے نوازا، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش تھا۔ اسے اب پاکستان چھوڑنے کا پچھتاوا نہیں تھا۔ وہ اپنے فیصلوں پر نازاں تھا، اس بات سے بے خبر کہ وقت کا پہیہ اب بس گھومنے والا ہے۔

اس کے والدین نے بہت اصرار کیا کہ زندگی میں ہمیں ہمارے پوتوں اور پوتی سے ایک بار ملادو۔ آخرکار وہ اپنی فیملی کو لے کر پاکستان آیا۔ جب اس کا بڑا بیٹا 9 سال کا، بیٹی 6 سال کی، اور چھوٹا بیٹا 4 سال کا تھا۔ یہ اس کا فیملی کے ساتھ پاکستان کےلیے پہلا اور آخری سفر تھا۔ کچھ دن رہنے کے بعد وہ واپس چلا گیا۔ زندگی کی گاڑی چلنے لگی، والدین نے بہت اصرار کیا کہ دوبارہ ملنے آئے، مگر وہ نہیں جاسکا۔ اور اس کے بوڑھے والدین کا اسی انتظار میں انتقال ہوگیا۔ وہ ان کے جنازے پر بھی نہیں آیا، اور اپنے بہن بھائیوں کو اپنی مصروفیت کا بہانہ سنادیا۔

وقت گزرا، اولاد بڑی ہوئی لیکن نافرمان۔ بیٹوں نے شادیاں کیں، اور دوسری ریاستوں میں جاکر رہنے لگے، بیٹی نے بھی شادی کرلی، اور بیوی نے 30 سالہ رفاقت کو خیرباد کہا، اور طلاق لے کر دوسری شادی کرلی۔ اولاد کے رویوں، اور بیوی کی بیوفائی نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی، سکون کے بجائے اس کےلیے تنہائیوں کا نہ ختم ہونے والا عذاب لائی۔ وہ اپنی اولاد کو دیکھنے کےلیے ترس گیا۔ اس کی بیٹی اس کے گھر ہفتے میں ایک دو بار آجاتی تھی۔

پچھلے ہی سال اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کی لاش اس کے گھر میں دو دن تک پڑی رہی، جب اس کی بیٹی اس سے ملنے آئی تو پتہ چلاکہ وہ یہ دنیا کب کی چھوڑ گیا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کی میت کراچی بھجوا دی گئی، مگر امریکا سے کوئی نہیں آیا، اور عاصم کو یہاں دفن کردیا گیا، جہاں اس کےلیے اب رونے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ یہی زندگی کی بے ثباتی ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ہے:

زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

مجھے پاکستان کے مشہوررائٹر کے انٹرویو کی ایک بات یاد آتی ہے، انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ لندن میں تھے، تو شادی کےلیے گوری بھی تھی، اور گرین کارڈ بھی ملنے والا تھا۔ ابا کو جب یہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ اچھا اب تم وہیں رہو گے، اور واپس نہیں آؤ گے۔ اس بات میں پتہ نہیں ایسا کیا تھا: ابا کے لفظوں میں درد محسوس ہوا، اولاد سے دوری کا، بس وہ ایک لمحہ تھا، اور سب چھوڑ کر واپس آگیا۔ آج 80 سال کی عمر میں اپنے اس فیصلے پر بہت خوش ہوں، اگر لندن میں رہ گیا ہوتا تو آج گمنام کسی اولڈ ہوم میں ہوتا، لیکن بروقت ایک اچھے فیصلے کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں میں اپنی سرزمین پر بہت خوش ہوں۔

ایسی کئی ان گنت کہانیوں کے آپ بھی شاہد ہوں گے، اپنے دوستوں یا احباب میں سے۔ مجھے ایک بہت اچھی عالمہ کی اس حوالے سے ایک بات یاد آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ شادی کے حوالے سے مذہب پر سمجھوتہ قطعی طور پر نہ کریں۔ اگر آپ نے شادی کرتے وقت مذہب کو ترجیح نہیں دی، دنیاوی مال و متاع کو سامنے رکھا، تو جوانی تو شاید عیش میں نکل جائے، مگر بڑھاپا بڑوں بڑوں کو لاچار کردیتا ہے، اور پھر سب سے مشکل مرحلہ آخرت، کہ جس کی کامیابی کا دارومدار ہی مذہبی طور پر گزاری گئی دنیاوی زندگی پر ہے۔ اگر یہ مذہبی خانہ بیوی بچوں میں خالی رہ گیا، تو سوچیں دنیاوی زندگی کا فانی عیش کتنا گھاٹے کا سودا ہے۔

اداکارہ نور نے اپنی پہلی شادی میں ناکامی کی وجہ یہی بتائی کہ اس کا شوہر ہندو تھا، شادی سے پہلے طے تھا کہ وہ اسلام قبول کرے گا، لیکن بعد میں ایسا ہوا نہیں، اور شادی نہیں چل سکی۔ جو لوگ مذہب کی تبدیلی محض شادی کےلیے کرتے ہیں، وہ شادیاں زیادہ ٹکتی بھی نہیں ہیں، کیونکہ مذہب زبانی کلامی چیز نہیں ہے، بلکہ دلی تبدیلی کا نام ہے، جو سب کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمارے مذہب میں عورت کے مقابلے میں مرد کو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ نسل مرد سے چلتی ہے تو مذہب باپ کا ہی چلے گا، لیکن اگر باپ اسلام کو بچوں میں منتقل نہیں کرپاتا تو اس کا قصوروار یقیناً وہ خود ہے۔ جیسا حال عاصم کا ہوا۔

آج کل آپ نے ایک اسکینڈل کے بارے میں سنا ہوگا کہ چین سے لڑکے یہاں آتے ہیں، مذہب کی تبدیلی کا زیادہ کیسز میں ڈرامہ کیا جاتا ہے، میرج بیورو کے ذریعے غریب لڑکیوں کو ٹارگٹ کرکے باقاعدہ نکاح کیا جاتا ہے، اور چین میں لے جاکر یا تو فروخت کردیا جاتا ہے، یا پھر جنسی کام زبردستی کروایا جاتا ہے۔ معاملہ جب میڈیا پر آیا تو قانون حرکت میں آیا، اور اس حوالے سے کچھ لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں، جن کا کام دھوکا دہی سے شادی کرنا، اور پھر لڑکیوں کو چین اسمگل کرنا تھا۔ اس حوالے سے والدین کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے بغیر چھان بین کے کسی پرائے دیس میں بیٹی کو دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’پانی پینا چھان کر، اور بیٹی دینا جان کر‘‘۔

امریکا میں جو پاکستانی فیملیز رہتی ہیں، اپنے بچوں کی شادی کےلیے وہ وہاں پاکستانی فیملی ہی کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں، یا پھر پاکستان میں ہی رشتے کرتے نظر آتے ہیں، اور یہی حال یورپ میں ہے۔ اس حوالے سے والدین بہت پریشانی میں رہتے ہیں کہ ان کا بچہ کسی گوری کے چکر میں نہ آجائے۔

شادی زندگی کا بلاشبہ سب سے اہم فیصلہ ہے، یہ آپ کی آنے والی زندگی کے ہر موڑ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ اچھی بیوی آپ کے گھر کو جنت بنا دیتی ہے، اور ایک اچھی بیوی کا ملنا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس لیے شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ شادی میں تاخیر کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس ساتھی وہ ڈھونڈیں جو اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے سفر کےلیے بھی آپ کا ہمسفر ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔