مسلم مفکرین کی کتابیں اور ہماری بے التفاتی

خطیب احمد  بدھ 17 جولائی 2019
مسلم مفکرین نے مختلف موضوعات پر اپنی استعداد کے مطابق ڈھیروں کتابیں لکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مسلم مفکرین نے مختلف موضوعات پر اپنی استعداد کے مطابق ڈھیروں کتابیں لکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دیکھیے چشم فلک نے یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ اس جہل زدہ معاشرے میں خرافات نے انسان کے نستعلیق پن کو تباہ کردیا ہے۔ اسی کے پیش نظر انسانی عقل کی تعبیریں انسانی اقدار کے نقطہ انجماد سے بھی گری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ بزعم خود یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، جو کتاب دشمن ہے۔ لیکن بفضل خدا کچھ نبردآزما اہل حق کا گروہ ہمارے درمیان موجود ہے۔

ہم عقلی طور پر منجمد ہوچکے ہیں۔ حقائق سے آشنا ہوکر منطقی نتائج اخذ کرنے کےلیے کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ جب ہی ہمارے اساتذہ کہتے ہیں کہ کتابوں کا مطالعہ کیجئے یا جس موضوع سے شغف ہو، تو اس موضوع کی متعلقہ تمام کتابوں کو گھول کر پی جائیں۔

یہ کتابیں انسان کے علمی معیار کو ترقی کی منازل طے کرنے میں وسعت پیدا کرتی ہیں۔ یہ کتابیں اِن سوالات سے آشنا کرتی ہیں؛ اور ان کے جواب دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ علم کی حقیقیت کیا ہے؟ علم کا سرچشمہ کہاں ہے؟ دائرہ علم کی حد کیا ہے؟ نقصان دہ کیا ہے؟ یہ سوالات ہر قوم کےلیے اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم نے علم کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے اور پرکھنے پر زور دیا ہے۔ جس وجہ سے انسان کو شعور سے آشنائی کا ذریعہ صرف کتابیں قرار پائی ہیں، جو علم کا مرکز و محور ہیں۔

اگر ہم تواریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں، تو مسلم مفکرین نے مختلف موضوعات پر اپنی استعداد کے مطابق ڈھیروں کتابیں لکھیں۔ جن میں جابر ابن حیان ہیں، ان کی بنیادی دلچسپیاں الکیمی، کیمسٹری، آسٹرونومی، علم نجوم (آسٹرولوجی)، طب (میڈیسن)، علم الادویہ (فارمیسی)، فلسفہ، فزکس، ارضیات، فلاحی سرگرمیاں، انجینئرنگ اور طبیعیات تھیں۔ ان کی نمایاں تصنیفات کتاب الکیمیاء، کتاب السبین، Book of balances ، Book of kingdom ، Book of eastern Mercury الکیمی میں دلچسپی غالبًا ان کے استاد حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام نے ابھاری تھیں۔

ابن رشد القرطبی الاندلسی 520 ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ نے 73 برس کی عمر پائی۔ ان کی تصانیف کی کم سے کم تعداد 67 ہے، جن میں سے اٹھائیس فلسفے سے متعلق ہیں، بیس کا موضوع طِب ہے، آٹھ قانون پر ہیں، چھ میں الٰہیات پر بحث کی گئی ہے اور چار کتابیں زبان و بیان کی ہیں۔

امام غزالیؒ 53 سال حیات رہے، ستر سے زائد کتابیں تصوف، قانون، فقہ اور فلسفے کے موضوعات پر لکھیں۔

علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا جن کو (بُوعلی سِینا) کہا جاتا ہے، 980 میں پیدا ہوئے اور 1037 میں وفات پائی۔ (عمر 57 برس)۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے، اور مشرق کے مشہور ترین فلسفیوں اور اطباء میں سے تھے۔ ان کے ساڑھے چار سو کاموں میں سے دو سو چالیس ہم تک پہنچے، جن میں سے ڈیڑھ سو فلسفے اور چالیس طب سے متعلق ہیں۔ آپ کی کتاب الشفا کی اٹھارہ جلدیں ہیں۔ آپ کی بنیادی طور پر دلچسپی طب کے شعبے میں تھی۔

ابو علی الحسن بن الہیثم کو 75 برس کی زندگی ملی۔ اس زندگی میں انہوں نے پینتالیس کتابیں لکھیں۔ موضوعات تھے طب، فلسفہ، الٰہیات، فلکیات، ریاضی، طبیعات اور نہ جانے کیا کیا۔
احمد بن محمد الریحان البیرونی کی عمر 77 برس رہی۔ ان کی جو تصانیف ہم تک پہنچیں ہیں ان کی تعداد چودہ ہیں، جن میں سے کچھ خاصی ضخیم ہیں۔ آپ تاریخ دان اور ماہر لسانیات تھے اور ساتھ ساتھ آپ نے طبیعات، ریاضی اور فلکیات پر بھی کام کیا۔

ابن ماجہ الربعی القزوینی نے فقط 42 سال کی عمر پائی۔ اس مختصر عرصے میں انہوں نے منطق، فلسفہ، ریاضی، مابعد الطبیعات اور اخلاقیات پر درجن بھر سے زائد کتب لکھیں۔ آپ کا کام آکسفورڈ، برلن، تاشقند، استنبول، انقرہ اور قاہرہ کے کتب خانوں میں محفوظ ہے۔

یعقوب الکندی نے تقریباً 70 برس کی زندگی پائی۔ ان کے مخطوطات کی تعداد دو سو سے زائد بتائی جاتی ہے، جن میں فلسفہ، نجوم، فلکیات، موسیقی، ریاضی، سیاست، طبیعات وغیرہ شامل ہیں۔ مگر جو کتابیں مطبوعہ صورت میں موجود ہیں ان کی تعداد آٹھ ہے۔

خیر ان عظیم افراد کی فہرست مزید طویل ہے، لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے، ان کے کارناموں کو پڑھنے کے بعد آپ کا ذہن مستعد ہوگیا ہوگا۔ جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک پل استعمال کرتے ہوئے اپنی فہم و فراست سے اتنا کچھ تخلیق کیا، جو ہمارے لیے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں ہے۔ مگر بات وہیں آکر تھم جاتی ہے کہ ان مفکرین کی دن رات کی محنت کو ہم نے اپنی بے التفاتی کی نذر کردیا ہے۔

جب تک ہم کتابوں سے استفاده نہیں کریں گے، تب تک ہم ایک مثبت تبدیلی کی خواہش ہی کرسکتے ہیں۔ آج کل دل جلانے کےلیے معاشرہ ہی کافی ہے لیکن کتب کا مطالعہ انسان کو فرحت بخشتا ہے، ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی تفریق نہیں کرسکتا۔ کچھ لوگ بے التفاتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ اور کتابیں پڑھے بغیر بھی زندگی گزارتے ہیں، مگر ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ لاکھوں لوگ زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن یہ لوگ من گھڑت کہانیوں، کھوکھلی دلیل، جملے بازیوں پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی رنگین زندگی کو چھوڑ کر بھلا کون یہ دقیق خشک کتابیں پڑھے گا۔ ہمارا تو یہ عالم ہے کہ انگريزی، اردو زبان کی کتابوں کو دیکھ کر صدمہ ہوجاتا ہے، دو سو پانچ سو صفحے کی کتاب کون پڑھے گا۔ یہ سب اب حیلے بہانے ہیں، مطالعے سے جان چھڑائی جائے۔

چنانچہ اپنی بے التفاتی کیفیت کو دور کرنے کےلیے اتنا ہی کہوں گا کہ جن موضوعات سے شغف ہو، وہ کتابیں خرید لیجیے۔ انہیں پڑھ لیں۔ یہ مت سوچئے کون سا فیشن ہے، لوگ کس کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں، دل کو جو راس آجائے پڑھئے۔ اس طرح مطالعے کی لَت لگ جائے گی تو پھر مزید ان ادیبوں کی کتابوں کا مطالعہ کرلیجئے گا جن کو آپ نے نہیں پڑھا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔