اپوزیشن چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کا معرکہ سر کر پائے گی؟

رضا الرحمٰن  بدھ 17 جولائی 2019
بلوچستان کیلئے اُن کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں خود سینیٹر میر حاصل بزنجو بھی ملکی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کیلئے اُن کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں خود سینیٹر میر حاصل بزنجو بھی ملکی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ:  اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کیلئے نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کو مشترکہ اُمیدوار نامزد کرکے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے اور بلوچستان کی وہ جماعتیں جو چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر تبصرے کر رہی تھیں کہ بلوچستان کو تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق میں چار اہم عہدوں میں سے ایک عہدہ ملا اُس پر بھی شب خون مارا جا رہا ہے جس میں قومی سطح کی سیاست کرنے والی بڑی سیاسی جماعتیں پیش پیش ہیں اور ماضی میں ان میں سے ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے صادق سنجرانی کی بحیثیت چیئرمین سینیٹ کیلئے قربانی تک دی اور انہیں سینیٹ کے چیئرمین کی نشست پر بٹھانے میں اہم کردار ادا کی آج وہ بھی اپنی اس قربانی کو ضائع کرتے ہوئے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والی جماعتوں کے ساتھ ہراول دستے کا کام کر رہی ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں نے ترپ کا پتہ کھیلا اور نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجو کو اپنا مشترکہ اُمیدوار نامزد کر کے ان سیاسی جماعتوں کی زباں بندی کردی اس مرتبہ بلوچستان کیلئے دوسری بڑی قومی سیاسی جماعت (ن) لیگ نے قربانی دی کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ میں اکثریتی جماعت ہونے کے ناطے (ن) لیگ کو اس عہدے کی آفر کی تھی (ن) لیگ کے قائدین نے مشاورت کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو کی نامزدگی کر دی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کی چیئرمین سینیٹ کیلئے نامزدگی کے بعد بلوچستان کی وہ جماعتیں جو کہ ایوان بالا میں نمائندگی رکھتی ہیں اور بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے اُنہوں نے ہمیشہ آواز بلند کی ہے اُن کیلئے بھی ایک امتحان سر پر آگیا ہے تاہم ان جماعتوں میں سے بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ صادق سنجرانی کی حمایت کرتی ہیں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کا تعلق بھی بلوچستان سے  ہی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ کی چیئرمین شپ کیلئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے  دو سپوت میدان میں ہیں تاہم اگران کا موازنہ کیا جائے تو سینیٹر میر حاصل بزنجومنجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کے والد میر غوث بخش بزنجو (مرحوم) اور خاندان کو بلوچستان کی سیاست میں بے حد عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صوبے  کے علاوہ ملکی سطح پر بعض سیاستدان آج بھی ان کے والد میر غوث بخش بزنجو کو سیاست میں اپنا استاد تصور کرتے ہیں۔

بلوچستان کیلئے اُن کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں خود سینیٹر میر حاصل بزنجو بھی ملکی سیاست میں سرگرم رہے ہیں جبکہ اُن کے مد مقابل چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی سیاست میں کچھ عرصہ قبل ہی اِن ہوئے ہیں تاہم وہ بہت جلد ہی ملکی سیاست میں کلیدی عہدے تک پہنچے جبکہ صوبے کے کئی بڑے بڑے سیاستدان اپنی ساری توانائیاں اور سیاسی محاذوں پر کامیابیوں کے باوجود اس کلیدی عہدے تک نہیں پہنچ پائے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عہدے پر صادق سنجرانی برقرار رہتے ہیں یا پھر میر حاصل خان بزنجو نئی سیاسی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں کے مابین مقابلہ سخت  ہوتا دکھائی دے رہا ہے اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ اس انتخاب میں حکومت کی طرف سے بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوگی اس لئے اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے سینیٹرز سے حلف لے رہی ہیں تاکہ خفیہ رائے شماری میں اُن کا کوئی سینیٹر ’’یوٹرن‘‘ نہ لے لے۔

دوسری جانب حکومتی سطح پر یہ دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ اپوزیشن جماعت کے 12 سے13 سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی ہے تاہم اس دعوے میں کس قدر سچائی و صداقت ہے یہ کہنا ابھی قبل از وقت اس لئے بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز میں سے کسی ایک نے کھلم کھلا حمایت نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی نے کوئی عندیہ دیا ہے اندرون خانہ کوئی گیم چل رہی ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اپوزیشن جماعتوں کو سینیٹ میں اس وقت برتری حاصل ہے اور انھوں نے سینیٹ کی چیئرمین شپ کو کمزور مورچہ جانتے ہوئے جو حملہ کیا ہے اس کیلئے پہلے سے حکمت عملی مرتب کی گئی تھی حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا جن کا تعلق پی پی پی سے ہے کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرا کے جوابی حملہ کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کو سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کیلئے پیش قدمی اور ڈپٹی چیئرمین کادفاع کرنا ہوگا اور دونوں محاذوں پر بڑی حکمت عملی سے لڑنا ہوگا؟۔

اپوزیشن جماعتوں کی’’پیش امام‘‘ جماعت جمعیت علماء اسلام (ف)28 جولائی کو ملین مارچ کے حوالے سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہی  ہے اس حوالے سے انتظامات بھی تقریباً مکمل کر لئے گئے ہیں اس سے قبل جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان کے انتخابات بھی مکمل کر لئے گئے جن میں ایم این اے مولانا عبدالواسع صوبائی امیر اور آغا محمود شاہ صوبائی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ضلعی سطح پر انتخابات کے بعد باقاعدہ صوبائی سطح پر تنظیم سازی کا عمل پورا کیا گیا اور اس کے بعد پارٹی کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد بھی ہوا۔ صوبائی سطح پر انتخابات کے بعد مرکزی سطح پر سکھر میں پارٹی انتخابات ہوئے جس میں مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان اور سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری منتخب ہوئے جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ جمعیت کی نئی صوبائی قیادت کیلئے28 جولائی کا ملین مارچ گو کہ ایک بڑاچیلنج ہے لیکن سیاسی و عوامی حلقوں کے مطابق ایک منظم سیاسی جماعت ہونے  کے ناطے یہ کوئی بڑا چیلنج نہیں ملکی حالات کے تناظر میں ملین مارچ کامیاب ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔