معاشی بہتری کیلئے اقدامات کیساتھ باہم مشاورت کی ضرورت

ارشاد انصاری  بدھ 17 جولائی 2019
پی ٹی آئی کی جماعت میں کئی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ فوٹو: فائل

پی ٹی آئی کی جماعت میں کئی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  حکومت کی جانب سے بجٹ سازی میں اسٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کرنے  پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا آج بجٹ کے نافذ ہوتے ہی وہ خدشات درست ثابت ہونا شروع  ہوگئے ہیں  اور اب حکومت و تاجروں، صنعتکاروں کے درمیان مسلسل مذاکرات کا عمل جاری ہے اور منگل کو بھی ایف بی آر ہیڈ کوارٹر میں آپٹما و سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے برآمد کنندگان کے چیئرمین ایف بی اور ان کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں اور اگر یہ کام پہلے کر لیا جاتا تو شائد حکومت کو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ویسے تو اپوزیشن سے حکومت تک کا سفر طے کرنے کی پوری تاریخ مزاحمت و احتجاجی سیاست سے بھری پڑی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد بھی تحریک انصاف مزاحمت کی پالیسی ہی اپنائے ہوئے دکھائی دے رہی ہے جس کا کہ سیاسی طور پر زیادہ نقصان بھی خود تحریک انصاف کو ہی ہو رہا ہے اور بجٹ میں تمام طبقوں کی طرف سے جو شدید ردعمل آیا ہے تحریک انصاف کے سیاسی رہنما بھی اس ردعمل سے محفوظ نہیں ہیں اور انہیں بھی اپنے حلقوں میں اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

منگل کے روز بھی چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات کرنے والے سیالکوٹ کے تاجروں و صنعتکاروں کے وفد نے مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کے ذریعئے چیئرمین ایف بی آر سے مذاکرات کئے ہیں اور اگر بجٹ سازی سے پہلے عوامی نمائندوں کے ذریعے ان طبقات کو آن بورڈ لے لیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی کیونکہ بجٹ سازی کے وقت تاجر ،صنعتکار و برآمدکنندگان سمیت تمام طبقات حکومت سے شکوہ کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ بجٹ سازی میں ان سے مشاورت نہیں کی جا رہی ہے اور ان کی بجٹ تجاویز کو سنجدہ نہیں لیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن اسے آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے رہی ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا حکومت کی مجبوری بھی  تھی۔

اب اس پروگرام کے تحت انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لئے کل منظور شدہ چھ ارب ڈالر میں سے 991.4 ملین ڈالر وصول ہو گئے ہیں جن سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ریزرو 15.0431 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں لیکن توقع کے برعکس ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار بھی پیدا نہیں ہوئے اور قرض کی قسط ملنے کے باوجود سٹاک مارکیٹ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا نہیں ہو رہا، محصولات میں کوئی بہتری نہیں ہوئی جب کہ تاجر، سرکاری ملازمین کسان سمیت ہر طبقہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج  کر رہا ہے۔

ایک جانب سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی صنعت کاروں اور تاجروں پر مختلف اقسام کے ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں، ایسی ہیجان خیز صورتحال میں حکومت یکجا نظر نہیں آتی جہاں پی ٹی آئی کی جماعت میں کئی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم بھی اختلافات کا شکار ہے۔  وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو پہلے تو مکمل طور پر با اختیار سربراہ کے طور پر متعارف کروایا گیا اور ان کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ وہ معاشی معاملات میں مکمل طور پر خودمختار اور آزاد ہوں گے۔

انہوں نے مشکل حالات میں بہترین بجٹ پیش کر کے حکومت کو ایک اہم سنگل میل عبور کروایا ۔ لیکن بجٹ کے منظور ہوتے ہی معاشی ٹیم میں اختیارات کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ پہلے تو حماد اظہر کو ریونیو کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا اور نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ ڈاکتر حفیظ شیخ کے پاس اب ریونیو کا پورٹ فولیو نہیں رہا لیکن اگلے ہی دن نیا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اور حماد اظہر کو ریونیو کا چارج واپس لے کر اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے چئیرمین شبر زیدی کو ریونیو کا مشیر بنائے جانے کی تیاری ہو رہی ہے اور جلد ہی ان کو وزیر اعظم کا مشیر پرائے محصولات بنا دیا جائے گا، یعنی حکومت کی معاشی ٹیم حفیظ شیخ صاحب کی سربراہی میں نہیں بلکہ اب تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور محصولات، اقتصادی امور اور وزارت خزانہ کے سربراہ اب الگ الگ وزیر اعظم کو رپورٹ کریں گے۔ ملک کی معاشی پالیسیوں میں یکسوئی، تسلسل اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کے حوالے سے یہ اچھی علامت نہیں ۔ روایتی طور پر وزیر خزانہ ہی محصولات اور اقتصادی امور کی نگرانی کرتے رہے ہیں اور جب جب محصولات اور وزارت خزانہ کے اختیارات الگ الگ وزیر کو سونپے گئے، حالات میں بہتری کے بجائے خرابی پیدا ہوئی۔

دوسری طرف ایف بی آر میں بڑے پیمانے پر افسران کے تبادلے کر دئے گئے ہیں۔ سینکڑوں سینئر افسران کے ایک شہر سے دوسرے شہر تبدیل ہونے یا ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں جانے والے افسران اپنا چارج سنھبالنے اور مکمل اختیار لینے میں چند دن صرف کریں گے جس سے محصولات کی کولیکشن متاثر ہو گی۔ محصولات بڑھانے کے لئے ٹیکس کا دائرہ بڑھانا ضروری ہے لیکن ایف بی آر میں اصلاحات لائے بغیر اور ٹیکس افسروں کا رویہ اور ان کی تربیت کئے بغیر اس کے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

اگر ٹیکس کا نیٹ ورک بڑھانا ہے تو سب کو پہلے اعتماد میں لینا ہو گا، ہر صنعت کی نمائندہ تنظیموں سے مذاکرات کئے جائیں اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ مرحلہ وار کیا جائے  تاکہ نئے ٹیکسوں کی صورت میں مہنگائی کا بوجھ صارفین پر یکدم نہ پڑے جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ پاکستان کا مستقبل معاشی استحکام سے وابستہ ہے اور معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر نہیں قائم ہو سکتا۔ حکومت کو تاجروں کی ہڑتالوں، عوام کے احتجاج اور مہنگائی کے شور پر توجہ دینی چاہیے اور ان مسائل کو سنجیدگی سے حل اور ریلیف دینے کے اقدامات کرنے چاہیئں۔ ابھی تک سیاسی جماعتیں سڑکوں پر نہیں آئیں۔ اگر سیاست دانوں اور کاروباری تنظیموں کے ساتھ عوام احتجاج میں شامل ہو گئے تو حکومت مزید مشکل میں پڑ جائے گی ۔

دوسری جانب احتساب خود احتساب کے کٹہرے میں آگیا ہے اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ہائی پروفائل کیس میں فیصلے دینے والے احتساب عدالت کے جج کی متنازعہ ویڈیو نے حالات کو مزید گھمبیر بنادیا ہے جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کر لیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی، فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی، ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔