حکومت کیخلاف یوم سیاہ کی تیاریاں، مولانا فضل الرحمان روح رواں

شاہد حمید  بدھ 17 جولائی 2019
بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف،اپوزیشن جماعتوں سے قبائلی اضلاع کے انتخابات میں قدرے آگے ہے۔ فوٹو: فائل

بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف،اپوزیشن جماعتوں سے قبائلی اضلاع کے انتخابات میں قدرے آگے ہے۔ فوٹو: فائل

پشاور:  اپوزیشن جماعتیں یوم سیاہ کی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے حوالے سے یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ پشاورمیں جو سٹیج سجے گا اس پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان اور قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمدخان شیرپاؤ بھی موجود ہونگے۔

جس سے یقینی طور پر یہ جلسہ زیادہ رنگوں سے سجے گا،اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی اب تک ملک بھر میں بیس سے زائد ملین مارچ کر چکی ہے اور یہ ملین مارچ وہ اپنے طور پر ہی کرتے آئے ہیں تاہم اب چونکہ درمیان میں اپوزیشن تحریک آگئی ہے اور یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس لیے 25 جولائی کا جلسہ صرف جے یوآئی کا شو نہیں ہوگا بلکہ اس میں دیگر پارٹیاں بھی شریک ہونگی،اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین پشاور جلسہ میں شریک نہیں ہونگے تاہم ان دونوں پارٹیوں کے ورکر بھی اس جلسے میں شرکت کریں گے تاہم اس جلسے کے روح رواں بہرکیف مولانا فضل الرحمٰن ہی ہونگے جنہوں نے پشاور کے بعد اگلا پڑاؤ کوئٹہ میں ڈالنا ہے جس کے بعد اپوزیشن جماعتیں لاہور اور کراچی میں اسی طرز کے بڑے مشترکہ جلسے کرنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔

سب کی نظریں اپوزیشن جماعتوں کے اسلام آباد اجتماع پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی سے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں آخری ملین مارچ کریں گے جس سے موجودہ تحریک انصاف کی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی جبکہ اب مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی اس جدوجہد میں شریک ہوگئی ہیں تاہم ان اپوزیشن جماعتوں کے لیے پہلے دو مراحل 25 جولائی کا یوم سیاہ اورچیئرمین سینٹ کے خلاف جمع کردہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانا ہے جس کے لیے جدوجہد جاری ہے کیونکہ دوسری جانب وزیراعظم کی جانب سے چیئرمین سینٹ کو ڈٹ جانے کا مشورہ دینا دراصل خطرہ کی گھنٹی ہے کیونکہ بہرکیف چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری ہوگی جس میں’’ کون کس طرف جاتا ہے ‘‘ اس کا ابھی کچھ پتا نہیں جبکہ اب اپوزیشن نے اپنے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو بھی بچانا ہے کیونکہ حکومت ان کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لے آئی ہے۔

بظاہر تو نظر یہی آرہا ہے کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ اسلام آباد میں ہو رہا ہے اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت ہی تمام تر صورت حال سے نبردآزما ہو رہی ہے تاہم حقیقت اس سے مختلف ہے کیونکہ جو کچھ اسلام آباد میں ہو رہا ہے اس کے اثرات بھرپور طریقے سے نچلی سطح پر منتقل ہونگے جس کی ایک جھلک خیبرپختونخوا میں اس وقت نظر آئی جب صوبائی اسمبلی میں بلین ٹری سونامی منصوبے کے حوالے سے قائم کمیشن کا اجلاس بلانے کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا اور دوسری جانب حکومت اجلاس بلانے سے انکاری نظر آئی کیونکہ وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا موقف بڑا واضح تھا کہ یہ کمیشن مخصوص وقت کے لیے بنایا گیا تھا اور وہ وقت اب پورا ہو چکا ہے تاہم بال سپیکر کی کورٹ میں پھینک دی گئی جن سے رولنگ مانگی گئی اور انہوں نے رولنگ دیتے ہوئے یہ معاملہ ختم کردیا کہ کمیشن اپنی مدت پوری کر چکا ہے اس لیے اب وہ مزید کام نہیں کر سکتا، یہ وہی رنگ ہیں جو مرکز میں چھائے ہوئے ہیں اور ان کے اثرات صوبہ میں بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ان حالات میں اگر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ، اپوزیشن پر مہرباں ہونگے اور انھیں ترقیاتی فنڈز میں بھی حصہ دینگے، مشکل ہی نظر آتا ہے کیونکہ جب تمام اپوزیشن جماعتیں مرکز میں وزیراعظم کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ مرکزی حکومت کو کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جائے تو اس صورت میں اسی پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ محمودخان انہی اپوزیشن جماعتوں کی صوبائی قیادت اور ارکان پر صوبہ میں کیسے مہربان ہوسکتے ہیں؟ تاہم اس حوالے سے حکومتی حلقوں میںیہ رائے ضرور موجود ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنے لیے محاذ نہیں کھولنے چاہئیں۔

25جولائی کے یوم سیاہ سے پہلے حکومت واپوزیشن جماعتوں کو صوبہ کے قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے جس کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل ایک ہی مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر نہ تعینات کیا جائے ورنہ صورت حال گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات جیسی ہی ہوگی، یہ مطالبہ شروع میں ایک ، دو جماعتوں کی جانب سے سامنے آیا لیکن اب یہ مطالبہ سب ہی اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی اس معاملے میں قدرے نرمی کی گئی ہے اور قبائلی اضلاع کے حساس ترین پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی بات تو کی گئی ہے تاہم جہاں معاملات بہتر ہوں وہاں سکیورٹی اہلکاروں کو صرف پولنگ سٹیشنوں کے باہر ہی تعینات کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ اپوزیشن کے سخت موقف کو نرم کیاجا سکے۔

بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف،اپوزیشن جماعتوں سے قبائلی اضلاع کے انتخابات میں قدرے آگے ہے اور اپوزیشن جماعتوں سے قدرے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی تاہم انتخابات کے لیے جب پولنگ ہوگی تو اصل صورت حال اسی وقت بنے گی کہ قبائلی عوام جو پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے جا رہی ہے وہ کس کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرتے ہیں،اگرچہ قبائلی اضلاع کی 21 نشستوں سے نہ تو صوبائی حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑے گا کیونکہ قبائلی ارکان کو اس مرتبہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کے حوالے سے ووٹ کا حق حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی صوبائی حکومت کم نشستیں لینے پر متاثر ہوگی تاہم اگر اپوزیشن جماعتیں زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے تو اس کا فائدہ وہ اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے لے سکتی ہے۔

اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے قبائلی اضلا ع کے انتخابات اس اعتبار سے امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں کہ گزشتہ سال عام انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ ہی اپوزیشن نے دھاندلی، دھاندلی اور جعلی مینڈیٹ کا شور مچانا شروع کردیا تھا اور وہ ایک سال سے یہی شور مچا رہے ہیں ،اس شور شرابے کا اگر قبائلی اضلاع کے ووٹرز پر اثر نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن اپنی بات کو منوانے میں ناکام ہوگئی ہے اور اگر اپوزیشن کی بات کا اثر ہوتا ہے اور قبائلی اضلاع کے ووٹرز پی ٹی آئی کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کی بات پر کان دھرتے ہوئے ان کی جھولی میں اپنا مینڈیٹ ڈال دیتے ہیں تو اسے اپوزیشن اپنی کامیابی قراردے گی، ان تمام تر حالات میں جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جو نہ تو پاکستان تحریک انصاف کے کیمپ میں کھڑی ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کے سٹیج پر جانے کے لیے تیار ہے بلکہ اپنی الگ ہی دنیا بسائے ہوئے ہے، اپنے طور پر حکومت کے خلاف تحریک بھی شروع کررکھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔