گورکھ دھندا…

ذوالقرنین زیدی  جمعـء 13 ستمبر 2013

ہمیں آزادی کا جشن مناتے پینسٹھ برس بیت گئے مگر ہم آج تک اپنی آزادی کا مفہوم نہ سمجھ سکے، ہمیں انفرادی طور پر ہر قسم کی آزادی میسر ہے مگر من حیث القوم ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریز برصغیر میں آیا، اس نے ہماری کمزوریوں کو سمجھا اور ہمیں اپنا ایسا تابع کرگیا کہ سیکڑوں برس بھی اس کے چنگل سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ انگریز ہمیں آزادی تو دے گیا مگر رخصت ہوتے ہوئے اپنی باقیات ہم پر کسی آسیب کی طرح مسلط کرگیا، ہمیں ایسا نظام دیاکہ جسے درست کیا ہی نہ جاسکتا ہو، سیاست کے لیے ایسے خاندانوں کا انتخاب کیا جو اس کی مملوک کے طور پر نسل درنسل غلام رہ سکتے ہوں، جنھیں مذہب اور قوم سے کچھ غرض نہ ہو صرف اور صرف اپنی ذات تک محدود ہوں، ایسا پارلیمانی نظام کہ جس میں  بیوروکریسی کو سیاستدانوں کے روپ میں آسانی سے مسلط کیا جاسکتا ہو۔

ہمیں تنازعوں، غربت اور قرضوں کے جال میں ایسا پھنسایا کہ ہم حقیقی غلامی کو بھی ترستے ہی رہیں۔ سیاست کو ذات کا ایسا محور بنادیا کہ  سیاستدان  عوام دوست نہ ہو ، پست کردار ہو، جو اپنی اداکاری، حاضر دماغی، چرب زبانی کے جوہر دکھا کر پہلے اقتدار حاصل کرے اور جن کی وساطت سے وہ سیاست میں آیا ہو اس کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا دین ایمان اور حب الوطنی سب بیچ ڈالے، یہاں تک کہ ہمارے سیاستدان خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، مذہبی تنظیم یا پھر لسانی گروہ سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر انگریزوں کی چالبازیوں سے منسلک ہیں۔

اس وقت ملک میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اسی عالمی گیمبلنگ کا حصہ ہیں۔ اس وقت ہمیں مفلسی سے دوچار کرکے، آپس میں لڑوا کر ہم پر حکومتیں مسلط کرنے کا عمل جاری ہے، ہمارے اوپر  ایجنٹس یا پھر ان کے ذریعے اپنے نمایندے مسلط کرکے ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے، جو آواز اٹھائے اس کی آواز دبا دی جاتی ہے، اگر زیادہ شور مچائے تو خرید لیا جاتا ہے اور خریدا نہ جاسکے تو مروا دیا جاتا ہے۔ تاریخ کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے توحقائق کی گہرائی تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں، قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی انگریز جرنیل جنرل ڈگلس گریسی کی تعیناتی اور سیاست میں عمل دخل، بھارت نواز حکمت عملی، پاک بھارت کشیدگی جیسے اقدامات اس قدیم عالمی گیمبلنگ کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں، معاملہ کشمیر کا ہو یا حیدرآباد دکن کا، جنرل گریسی کی ’’خدمات‘‘ بانی پاکستان کی پراسرار موت سمیت ہر معاملے میں عیاں ہیں۔ گریسی کے بعد خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان جنہوں نے گیارہ سال (1958-1969) تک براہ راست اور سات سال (1951-1958) تک بالواسطہ طور پر اس ملک پر حکمرانی کی۔

ایوب خان کو قائد ملت لیاقت علی خان شہید نے تین جرنیلوں میجر جنرل افتخار خان، میجرجنرل اکبر خان اور این اے ایم رضا کو نظر انداز کرتے ہوئے فوراسٹار جنرل مقرر کیا، اس سے قبل سب سے سینئر جنرل میجر جنرل افتخار خان کو فوراسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی مگر  برطانیہ میں ایک ٹریننگ سے واپسی پر جہاز  کریش ہونے سے وہ  اور ان کے ساتھی جاں بحق ہو گئے۔ ’’غدار اکبر‘‘ کے نام سے جانے جانے  والے ’’میر جعفر‘‘ کے سب سے بڑے پوتے، برٹش آرمی کے ریٹائرڈ جرنیل، پاکستان کے چوتھے اورآخری گورنر جنرل اور پہلے صدر جو اس وقت ڈیفنس سیکریٹری تھے، نے ایوب خان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، اسی میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا کو ان کے احسانات کا بدلہ چکاتے ہوئے ایوب خان نے ہی صدر بنوایا تھا۔

اسکندرمرزا تاج برطانیہ کے لیے اپنے فوجی دور میں وزیرستان اور دیگر این ڈبلیو ایف پی کے علاقہ جات میں وہی خدمات بھی انجام دے چکے تھے، جو  پرویز مشرف نے ضیاء الحق کے بعد انجام دیں۔  حیدرآباد دکن اور کشمیر کے بعد سے جمود کا شکار دکھائی دیتا جنرل گریسی کا مشن پس پردہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہا ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو راستے سے ہٹانے کے بعد ’’عضو معطل‘‘ قرار دیے جانے والے صوبہ بنگال کو علیحدہ ملک بنانے کا وقت قریب آیا تو ایوب کے کمزور کاندھوں نے یہ بوجھ اپنے جانشین  یحییٰ کو منتقل کردیا، جنہوں نے انتہائی فنکاری کے ساتھ معاملات نبھاتے ہوئے نہ صرف سقوط ڈھاکا کی راہ ہموار کی۔ ایک بنگالی رائٹر کے مطابق بھٹو  اور مجیب متحدہ پاکستان پر راضی ہوچکے تھے۔ شاید اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے فرمایا تھا کہ ’’اگر میرے پاس وقت ہوتا تو بھٹو کی پھانسی کے لیے لیپ کے سال کا انتظار کرتا‘‘۔

آزاد کشمیر، حیدرآباد دکن اور سقوط ڈھاکا کے بعد کراچی کو آگ میں جھونکنے کا عمل (جس کے لیے گرائونڈ بھی 1965 میں دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی  اور میانمر سے بنگالیوں کے نام پر لوگوں کی درآمدکے ذریعے فیلڈ مارشل صاحب تیار کرکے جاچکے تھے) شروع کیا گیا اور افغانیوں کی درآمد کے ذریعے اس مشن کو مزید تقویت دی گئی، کراچی میں اسلحہ عام کردیا گیا، غیر ملکیوں کی بھر پور حوصلہ افزائی اور پشت پناہی سے روشنیوں کے شہر کو خون میں نہلادیا گیا۔ تیسرے آمر ( پرویز مشرف) نے تمام ملائوں کو اقتدار کی چوسنی دے کر ساتھ ملایا، بلوچستان اور شمال مغربی علاقوں میں آگ لگائی، نہ صرف برٹش آرمی کیتربیت یافتہ اسکندرمرزا کو سونپے گئے افغان مشن، جسے جنرل ضیا نے قابل انجام بنایا تھا کو پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ دنیا بھر کی دوسری اسلامی ریاستوں کو بھی امریکا کے زیر اثر کرنے کے مواقع فراہم کیے۔

پارٹیوں کا نام کوئی بھی ہو، ہماری سیاست گریسی، ایوب، ضیاء اور مشرف ہی کی پالیسیوں پر چلتی رہے گی۔  جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو سو دن کا وقت مانگا کہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال باہر کریں گے، سو دن گزرے اورپھر سو مہینے کے نصف سے زیادہ، یعنی ساٹھ مہینے، یوں پانچ سال میں ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی رہ گیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت آئی  تو مزدور کی تنخواہ اٹھارہ ہزار کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا، جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کچھ نہ ہوسکا تو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھادیں کہ شاید اس عمل سے مہنگائی اتنی بڑھ جائے کہ نجی ادارے مزدور کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے کرنے پر مجبور ہوجائیں، ایسا نہیں ہوا تو پٹرولیم قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا، ان کے اس دو سالہ دور حکومت کے نصف میں ہی وہ نجی اداروں کو مجبور کردیں گے کہ وہ مزدور کو کم ازکم تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے دیں، عوام کو سب حکومتوں کے مقابل کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی۔

عوام جو پہلے فکر مند تھے اب مایوس ہوچکے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں معاشی، انتظامی اور سفارتی مسائل کی سمجھ نہیں، انھیں دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کو کپڑا، سر چھپانے کو چھت چاہیے، بچوں کی تعلیم، معقول روزگار اور عزت سے دنیا سے رخصت ہونا ان کی بڑی خواہشات میں شامل ہیں۔ پاکستان کی اسی فیصد آبادی کو کوئی سروکار نہیں کہ بجلی گیس سے پیدا ہو یا کوئلے سے، انھیں یہ بھی نہیں پتا کہ ان کے حکمران کس کے لیے کیا کرتے ہیں، نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ جن کے پیچھے وہ چلتے ہیں وہ کن طاقتوں کے تنخواہ دار ہیں اور ان طاقتوں کے مفادات کے لیے وہ دیگر امور قومی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ کچھ بھی کریں ہمیں جان لینا چاہیے کہ دنیا مکافات عمل ہے،  یہ اﷲ ہی جانتا ہے کہ آیندہ وقت کیسا ہوگا، شاید وقت ایسا ہی ہوگا کہ عوام اتنے عاجز آچکے ہوں گے کہ کوئی بھی احتجاج کے لیے گھر سے نہیں نکلے گا، اور حکمران التجائیں کرتے رہ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔