آرٹیکل 19 کی عملی مشق میں حائل رکاوٹیں…

رقیہ اقبال  جمعـء 13 ستمبر 2013

جمہوریت اور آزادیٔ صحافت لازم و ملزوم ہیں۔ ایک اچھی جمہوریت اسی وقت تشکیل پا سکتی ہے جب صحافت کو آزادی حاصل ہوگی کیونکہ جب صحافت کو آزادی ہوگی تو وہ آزادانہ حکومت کا احتساب کرسکے گی اور اس طرح نظام میں شفافیت آئے گی اور ایک بہترین جمہوریت تشکیل پاسکے گی۔

امسال 3 مئی آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے نہایت اچھا پیغام دیا کہ

“When it is safe to speak, the whole world benefits.”

کیا ہی اچھا ہو کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اس پر عملدرآمد بھی کریں کیونکہ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں آزادی اظہار کی تو ضمانت دے دی گئی لیکن اس کے بعد کی ضمانت نہیں دی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کرکے اس کا باضابطہ طور پر اعلان کیا اور تمام رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ اپنے عوام کو بلا امتیاز اس منشور میں دیے گئے تمام حقوق کی حفاظت کریں۔ یہ منشور 30 دفعات پر مشتمل ہے جس کی دفعہ 19 میں آزادی صحافت کی بات کی گئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہر فرد کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے اور وہ اس کی تبلیغ کرسکتا ہے۔‘‘ پاکستان نے انسانی حقوق کے اعلان نامہ پر 10 دسمبر 1948ء کو دستخط کیے تھے۔ مزید برآں 1956، 1962 اور 1973 تینوں میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے بنیادی حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق :

’’اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعہ عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا اور پریس کی آزادی ہوگی۔‘‘

لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر دور میں آزادیٔ صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ قدغن کبھی سیاہ صحافتی قوانین بناکر لگائی گئی، کبھی صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنا کر لگائی گئی، کبھی صحافیوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تو کبھی انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ آمرانہ دورِ حکومت ہو یا جمہوری دورِ حکومت، آوازِ حق کو دبانے اور سچ کا گلا گھونٹنے کے لیے صحافیوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی آئینی ضمانت دیے جانے کے باوجود اسے کھلم کھلا چیلنج کیا جاتا رہا۔

پہرے ہیں خیالات پہ تالے ہیں لبوں پر

کہنے کو میرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے

آرٹیکل 19 آزادی صحافت کی آئینی ضمانت تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس میں کچھ قدغن بھی لگائی گئی ہیں اور پوری طرح صحافت کو آزادی دینے کی بجائے اسے پابندیوں میں جکڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں شامل ہے کہ آپ فوج اور عدلیہ کے خلاف بات نہیں کرسکتے ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، قومی مفاد کی آڑ میں حکومتیں اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں اس کے علاوہ محض آرٹیکل کی حد تک تو آزادی دے دی گئی لیکن بہت سے عناصر ایسے ہیں جو آزادیٔ صحافت اور آرٹیکل 19 کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔دیگر ممالک سے اپنا موازنہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ آرٹیکل 19 پر بھرپور طریقے سے عملدرآمد کروانے کے لیے ان رکاوٹوں  کو ختم کردیا جائے لیکن پھر وہی بات آجاتی ہے کہ کیا ایسی صورت میں میڈیا خود احتسابی کرسکے گا؟

آزادیٔ صحافت اور آرٹیکل 19 کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ پریشر گروپس ہیں جو کھلم کھلا آئین کے آرٹیکل 19 کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور میڈیا کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔ اگر کوئی صحافی سچ کو بے نقاب کرنا چاہے تو حقائق کا گلا گھونٹنے اور آواز حق کو دبانے کے لیے اسے اُٹھا لیا جاتا ہے، یا اس کے بچوں کو غائب کروا دیا جاتا ہے۔ غرض ایسی عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ دیگر صحافی اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور کوئی دوبارہ ان سے ٹکرانے کی کوشش نہ کرے۔ لہٰذا ہمارے اکثر بہادر صحافی سچ کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ہر دور میں رہا یہ آئین منصفی

جو سر نہ جھک سکے وہ قلم کردیے گئے

اب اکثر رپورٹرز ان پریشر گروپس کی وجہ سے سیلف سنسر شپ بھی کرنے لگے ہیں اور وہ کوئی اس طرح کی رپورٹ دیتے ہوئے گھبراتے ہیں جس کا انھیں بھاری خمیازہ اٹھانا پڑے۔ اس طرح وہ تمام حقائق جو ایک عام آدمی جاننے کا حق رکھتا ہے  پس پشت چلے جاتے ہیں۔

کچھ اس میں ہمارا اپنا بھی قصور ہے، یہاں میں BBC کے نمایندے وسعت اللہ خان کو Quote کرنا چاہوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب پہلا صحافی مارا گیا تو ہم سب نے سوچا کہ خدا کا شکر ہے کہ یہ میں نہیں ہوں اور جس ادارے کا صحافی مارا گیا اس نے بھی مہم چلانے کی بجائے اپنی کاروباری عاقبت کو پہلے دیکھا اور مصلحت کی پتلی گلی سے نیچا نیچا نکل لیا۔ چنانچہ پھر دوسرا، تیسرا، چوتھا صحافی مرا اور پھر مرتے ہی چلے گئے۔ ہم نے اپنے اغوا شدہ صحافی کو تو تاوان دے کر اور اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے چھڑوا لیا لیکن دوسرے اغوا شدہ صحافی کی خبر تو کجا اس کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا۔ ہم اور ہمارا ادارہ یہی کہتے رہے کہ ایک مقامی اخبار میں کام کرنے والا رپورٹر مارا گیا، ایک مقامی چینل کا صحافی زخمی ہوگیا، ایک علاقائی صحافی کو نامعلوم افراد اُٹھا کر لے گئے۔ اگر پہلے صحافی کے قتل یا اغوا پر میڈیا یکجا ہوجاتا اور قاتل کو قاتل اور اغوا کار کو اغوا کار کہہ دیتا تو شاید دوسرے اور تیسرے صحافی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے دس بار سوچا جاتا۔ لہٰذا جب تک ہم خود اپنی ترجیحات طے نہیں کریں گے کوئی ہماری ترجیحات طے نہیں کرے گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جو میڈیا کے اپنے ہیں ان کا نہ کسی جمہوری اور غیر جمہوری سیٹ اَپ کے آنے جانے سے، ہونے نہ ہونے سے کوئی تعلق ہے، ریٹنگ کا طوق کسی حکومت یا ایجنسی، ریاست یا غیر ریاستی عناصر نے نہیں میڈیا نے خود گلے میں ڈالا ہے۔‘‘

آرٹیکل 19 اور آزادیٔ صحافت کی راہ میں حائل ملٹی نیشنل کمپنیز بھی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیز میڈیا اداروں کے ادارتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں اوراس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ باقی رکاوٹوں سے زیادہ خطرناک رکاوٹ ہیں ۔

اکبر الٰہ آبادی نے پابند صحافت کا خاکہ کچھ یوں کھینچا   ؎

فقط میرا ہاتھ چل رہا ہے، اُنہیں کا مطلب نکل رہا ہے

اُنہیں کا مضمون، اُنہیں کا کاغذ، قلم اُنہیں کا، دوات ان کی

اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر ذرایع ابلاغ کے اداروں ،تجارتی اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے گہرے تعلقات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔