- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
پطرس بخاری کی کا ملیت پسندی
دسمبر 1947ء کے آخری دن تھے کہ ہندوستان کے کچھ ادیبوں نے کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان لڑائی کے بارے میں ہندوستان کی حمایت میں ایک بیان شائع کیا۔
محمد حسن عسکری‘ غلام عباس صاحب اور میں ایک جگہ جمع تھے‘ وہاں اس بیان کا ذکر آیا تو ہم نے سوچا کہ پاکستان کے ادیبوں کو بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے تاکہ باہر کی دنیا کو حقیقت حال معلوم ہوسکے۔ تاثیر صاحب چونکہ اس قسم کے معاملات میں زیادہ درک رکھتے تھے۔ لہٰذا عباس صاحب اور میں ان کے ہاں پہنچے اور ان سے بیان کی عبارت کی درخواست کی۔ تاثیر صاحب نے ارتجالاً اردو میں ایک مختصر سا بیان لکھ کر ہمارے حوالے کیا اور ہم نے ادیبوں سے دستخط لینے کی مہم شروع کر دی۔ اس مقصد کے لئے ہم دونوں بخاری صاحب کے پاس پہنچے۔
اگرچہ ہم دونوں کو یہ اندیشہ تھا کہ بخاری صاحب دستخط نہیں کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ادیبوں کو سیاست سے کیا واسطہ‘ مگر بخاری صاحب اس سلسلے میں بہت ہی پرجوش نکلے۔ انہیں تاثیر صاحب کا لکھا ہوا بیان پسند نہ آیا۔ اسلوب اور مواد دونوں کے اعتبار سے ۔ اس سلسلے میں ان کا یہ جملہ ابھی تک یاد ہے کہ ہمیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آج محمد حسین آزاد‘ حالی اور شبلی زندہ ہوتے تو وہ یہ بیان کس طرح لکھتے۔ اس کے علاوہ ان کی رائے تھی کہ بیان میں تفیصل سے کام لینا چاہئے تاکہ تصویر کا دوسرا رخ پوری طرح سامنے آ جائے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ بیان فیض سے لکھایا جائے اور اس کی زبان انگریزی ہو تاکہ باہر کے ملکوں میں اصل متن جا سکے۔ چنانچہ ہم وقت طے کر کے فیض صاحب کے مکان پر پہنچے۔ فیض صاحب بولتے گئے اور میں لکھتا گیا۔ ٹائپ کرانے کے بعد ہم نے وہ بیان بخاری صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے اسے بھی پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ فیض نے بھی گھاس کاٹی ہے۔ آخر ہماری درخواست پر وہ اس بیان کو کاٹ چھانٹ کر درست کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ دوسرے دن جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ لاج کے برآمدے میں بیٹھے بیان کی صاف کاپی ٹائپ کر رہے تھے۔
مسترد شدہ مسودوں کا ڈھیر ان کے پاس پڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رات گئے تک اس کام میں لگے رہے تھے۔ اب سوال تھا اردو ترجمے کا۔ چونکہ بیان اردو کے ادیبوں کی طرف سے جاری ہونے والا تھا‘ اس لئے بخاری صاحب کا اصرار تھا کہ اس انگریزی متن کا ایک آزاد ترجمہ ہماری طرف سے ہی ہونا چاہے اور عبارت ادیبوں کے شایان شان ہونی چاہئے۔ انگریزی بیان کا اردو ترجمہ اگر اخباروں کے مترجموں پر چھوڑا گیا تو وہ نہ جانے اس کا کیا حشر کریں گے۔
چنانچہ اردو ترجمے کا کام صوفی تبسم صاحب کے سپرد ہوا۔ شام کو جب صوفی صاحب‘ عباس صاحب اور میں اردو بیان لے کر بخاری صاحب کے ہاں پہنچے تو انہوںنے اسے بھی پسند نہ کیا۔ مشکل یہ تھی کہ بخاری صاحب کا معیار حسن نگارش اتنا بلند تھا کہ اس معاملے میں ان کی خوشنودی حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ آخر انہوں نے صوفی صاحب کی درخواست پر اس متن کی نظر ثانی شروع کی۔ بخاری صاحب نے جب کام مکمل کر لیا تو مجھ سے مخاطب ہو کر بڑی لہک سے کہا کہ آخر اس شعر کا اضافہ کر دو:
گریزد از صف ماہر کہ مرد غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ مانیست
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔