نئی دواؤں کی تیزرفتار تیاری کےلیے چپ پر کیمیکل لیبارٹری بنا لی گئی

ویب ڈیسک  جمعـء 19 جولائی 2019
ایسی ایک چپ پر 75 بایوکیمیکلز کو صرف تین دن میں آزمایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ، جرمنی)

ایسی ایک چپ پر 75 بایوکیمیکلز کو صرف تین دن میں آزمایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ، جرمنی)

برلن: کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، جرمنی کے کیمیائی ماہرین نے ’’کیم بایوس‘‘ (chemBIOS) کے نام سے ایسی چپ تیار کرلی ہے جو ایک وسیع و عریض حیاتی کیمیائی تجربہ گاہ (بایوکیمیکل لیبارٹری) کا کام کرتے ہوئے نہ صرف ہزاروں نئے کیمیکلز کی تیاری بہت کم وقت میں کرسکتی ہے بلکہ زندہ خلیات کی مدد سے کسی خاص بیماری کے علاج میں ان مرکبات کی افادیت بھی فوری طور پر جانچ سکتی ہے۔ اس طرح نئی دوائیں بنانے کا ابتدائی مرحلہ بہت مؤثر اور تیز رفتار ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ دوائی خصوصیات کے حامل کسی نئے مرکب کی تلاش سے لے کر اس مرکب پر مشتمل کوئی نئی اور مؤثر دوا کے بازار میں دستیاب ہونے تک میں 20 سال لگ جاتے ہیں جبکہ اس کا خرچہ بھی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ آتا ہے۔ اس کام کی ابتداء کسی ایسے مرکب/ کیمیکل کی تلاش سے ہوتی ہے جو متوقع طور پر کسی بیماری یا تکلیف کے علاج میں مفید ثابت ہوسکے۔ اس مقصد کےلیے مختلف مادّوں کو آپس میں ملا کر کوئی نیا مرکب تیار کیا جاتا ہے اور پھر اسے پیٹری ڈش میں رکھے جاندار خلیات پر آزما کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ مرکب اس خاص مرض کے خلاف کوئی تاثیر رکھتا بھی ہے یا نہیں۔

اگر کیمیکل میں اس بیماری کے خلاف کچھ سرگرمی دیکھی جاتی ہے تو پھر اسے چوہوں پر آزمایا جاتا ہے؛ اور جب وہاں سے بھی خاطر خواہ کامیابی ملتی ہے تو پھر اس کی انسانی آزمائشیں شروع کی جاتی ہیں جو کئی مرحلوں پر محیط ہوتی ہیں۔ غرض یہ سارا عمل جب تک مکمل ہوتا ہے، تب تک ایک پوری نسل جوان ہوچکی ہوتی ہے۔

البتہ، اگر دوائی خصوصیات کے حامل نئے مرکبات کی شناخت کا عمل تیز ہوجائے تو نئی دواؤں کی تیاری پر آنے والی لاگت بھی کم ہوجائے گی۔ کیم بایوس چپ کے ذریعے 75 نئے مرکبات کی تیاری سے لے کر زندہ خلیوں پر ان کی آزمائش تک کا عمل صرف 3 دنوں میں مکمل کرلیا گیا جبکہ اس میں صرف ایک ملی لیٹر محلول استعمال کیا گیا۔

اس پیش رفت کی تفصیلات ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔