یہ جو خلا ہے

وقار اَحمد  جمعـء 19 جولائی 2019
خلا میں جینے والوں کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خلا میں جینے والوں کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مولانا روم کہتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان خلا ہے۔ کیا یہ خلا واقعی وجود رکھتا ہے؟ ہمارے لیے حق و باطل کے مابین خلا کو سمجھنے کےلیے قوموں، فرقوں، قبیلوں اور نسلوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

دنیا میں نسل پرستی، قوم پرستی اور قبائلی زندگی اپنا اچھا خاصا وجود رکھتی ہے۔ فرقہ پرستی سے اگر کوئی واقف نہیں تو وہ آج کے دور میں مسلمانوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرلے۔ کثیر تعداد میں فرقہ پرست اور قلیل تعداد میں وہ لوگ نظر آئیں گے جو فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکر سوچتے ہوں گے۔ سچ اور جھوٹ کیا ہے، اس کا تعین کرنا کٹھن تو ہے مگر ناممکن نہیں۔

دنیا سچ اور جھوٹ کے اردگرد گھومتی ہے۔ مطلق سچ اور مطلق جھوٹ کم و بیش ہی وجود رکھتا ہے۔ ہر کوئی مفادات، مصلحت اور منافقت کی غرض سے آدھا سچ یا آدھا جھوٹ بولتا ہے۔ پھر وہ معاشرے میں ایک حقیقت بن جاتی ہے اور یوں اس کو سچ تسلیم کرلیا جاتا ہے یا پھر سراسر جھٹلا دیا جاتا ہے۔ ہر ایک شے محض یا مکمل خیر نہیں ہوتی بلکہ اسے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور دنیا ایک ریڈی میڈ سچ یا جھوٹ کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ ہم اپنی دانست میں ایک چیز کو سچ تسلیم کرتے ہیں اور پھر اس کے قریب جاتے ہیں، یا جھوٹ سمجھ کر اس سے دور جاتے ہیں، یعنی عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم خلا میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں تو عمل کیسے کریں گے؟ جبکہ عمل سے زندگی بنتی ہے اور ہم یہاں زندگی بنانے کےلیے آئے ہیں۔

ایسے میں جہاں ایک شخص خلا میں موجود ایک سیارے کو سچ کہتا ہے تو دوسرا دوسرے کو حق مان لیتا ہے۔ ایک سعودیہ کو مقدس اور آخری سچ تسلیم کرلیتا ہے اور دوسرے کے نزدیک ایران اس کے مقابلے میں بڑا سچ ہے۔ ایک چین کو نجات دہندہ سمجھتا ہے تو دوسرا امریکی تعلقات کو ترجیح دیتا ہے۔ یوں معاشرے سوشلی کنسٹرکٹد Socially constructed حقائق کو ساتھ لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک معاشرے میں یہی حقائق دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسی بنیاد پر معاشرے، فرقے، قومیں اور قبیلے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں. یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خلا میں سیارے حقائق ہیں مگر ان کی پوزیشنز تو حتمی نہیں ہیں۔ کیونکہ خلا میں سمتوں کا تعین نہیں ہوتا، اسی لیے اسے خلا کہتے ہیں۔

ایسے ہی معاشرے میں حقائق اپنا وجود رکھتے ہیں، چاہے وہ ریڈی میڈ ہی کیوں نہ ہوں، مگر ان کو حتمی سچ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی شعور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا غیر حتمی سچ سے حتمی سچ کی طرف سفر کررہا ہے۔ اور حتمی سچ یا حتمی جھوٹ تو معاشرے میں وجود نہیں رکھتا۔ ایک معاشرے میں جو ہیرو ہوتا ہے دوسرے میں وہ ولن۔ جو ایک کا دہشت گرد، تو دوسرے کا فریڈم فائٹر ہے۔ یوں یہاں کسی حقیقت کو حتمی طور پر بیان کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلم معاشرہ رزق اور بقا کی خاطر سچ اور جھوٹ کے درمیانی خلا میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ خلافت کے اختتام کے بعد امت مسلمہ کے اکابرین کی صورت میں اجتہاد اس طرح زندہ نہ رہ سکا، جس طرح اسے زندہ رہنے کا حق تھا۔ جس کا خمیازہ بھگتنے کے بعد اسلامی صدارتی نظام، اسلامی فلاحی ریاست، آمریت، ملوکیت یا بادشاہت کے رحم و کرم پر مسلم معاشرہ کوئی آئیڈیل نظام متعارف نہ کروا سکا۔ اور نتیجے کے طور پر آج شام، یمن اور لیبیا میں معاشرہ تو کیا، انسان بقا کی جنگ ہار رہا ہے۔ دوسری طرف کشمیر، فلسطین اور افغانستان سے عالمی طاقتوں کا تسلط ختم کرانے میں ناکام مسلم ممالک اپنی ہی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں۔

مسلم معاشرے میں سب سے زیادہ اعتماد کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے ہر ایک قبیلے، فرقے اور نسل کا اپنا اپنا پیر و مرشد اور اپنا راستہ ہے۔ مزید برآں طاقت کے پجاریوں نے اس معاشرے کو ہمییشہ دو انتہاؤں کے درمیان خلا میں گم رکھا۔ اور یوں معاشرہ آہستہ آہستہ اپنی شناخت کھوتا چلا گیا۔ جہاں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی انسانی کلچر، تہذیب و ثقافت پر نظر انداز ہورہی ہیں، وہیں اس کا نظریات سے گہرا تعلق ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کا خون بہانے والے نے جو پیغام دیا ہے، مسلمان وہ اس لیے بھی بھول گئے کہ ان کے پاس اپنی کوئی مضبوط اور متفقہ آئیڈیالوجی ہی نہیں۔
مختلف رنگ، نسل، زبان، کلچر کی اکائیوں پر استوار مسلم تہذیب جامع اور عالم گیر ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ اسے معاشرتی حقیقتوں کی موشگافیوں میں الجھا کر مسلم معاشرے کو مزید ابتری کی طرف دھکیلنے کے بجائے ایک مربوط نظریے کی ضرورت ہے۔ جو مسلم معاشرتی، معاشی، اقتصادی اور علمی اقدار کا امین ہونے کے ساتھ ساتھ جدیدیت پر مبنی ہو۔

مسلمان کسی بڑے نظریے کو متعارف نہ کروا پائے اور یوں دوسروں کے نظریات کی تائید کرتے رہے اور ان کے حق میں قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل دیتے رہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر سوشلزم یعنی اشتراکیت کی دلیل ویلتھ شیئرنگ یعنی زکوٰۃ سے دی جاسکتی ہے، کیپٹلزم میں ملکیت کی دلیل دی جاسکتی ہے اور اپنی بساط کے مطابق کمانے کی اجازت کو کیپٹلزم کی دلیل کہا جاسکتا ہے، تو پھر ان تمام اکائیوں کو باہم ملا کر ایک مربوط نظام کیوں نہیں پیش کیا جاسکتا؟ اسلامی سربراہی کونسل بن سکتی ہے تو اسلامی فلاحی کونسل کیوں نہیں بن سکتی؟ جس میں زکوٰۃ کو بین الاقوامی طور پر این جی اوز کے تحت غریب مسلمانوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ خط غربت سے نیچے رہنے والے مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیل کر کب تک ان کی لاشوں پر کرسیاں رکھی جاتی رہیں گی۔ انہیں اس دنیا کی نعمتوں سے کب تک محروم رکھا جائے گا؟

خلا میں جینے والوں کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اور بغیر سمت کے ڈائی مینشن بھی نہیں ہوتی۔ جب ڈائی مینشن نہ ہو تو وجود بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے اور غریب مسلمانوں کی عکاسی کررہی ہے۔ ایرانی انقلاب کی خوبیوں سے لے کر سعودیہ میں موجود بادشاہت تک، اور پاکستان کی ہچکولے کھاتی جمہوریت سے لے کر ترکی کی صدارت تک سب کا اصل مغز نکال کر اگر اسے اسلام کی بنیادی کسوٹی پر پرکھا جائے اور (جس کی اجازت دی جائے وہ لے لو اور جس سے منع کیا جائے وہ چھوڑ دو) کو معیار بنا کر ایک مشترکہ نظریہ دیا جائے اور پھر اس کو نظام کی شکل دے کر تمام مسلمان ملکوں میں لاگو کردیا جائے، تو ہم خلا سے یوں نکل آئیں گے جیسے عید کے دن بچے خوشی خوشی گھر سے نکلتے ہیں۔ تمام علما، مفسرین، ماہرین، مدبرین، مبصرین اور سیاست دانوں کے مل بیٹھنے کا وقت ہے۔ مگر ہر ایک اپنے لیے سامریوں میں موسیٰ تلاش کررہا ہے۔ کسی کےلیے چین تو کسی کےلیے امریکا، کسی کےلیے روس، تو کسی کے لیے برطانیہ راہ نجات ہے۔

اس سارے خلا میں جب حقیقتیں تیرتی ہوئی تو ضرور نظر آتی ہیں مگر ان پر یقین کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ جھوٹ اور سچ کے درمیان ایک طویل فاصلہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر یہ سارا نظر اور نظریات کی عینک سے نظر آتا ہے۔ جب انسان عقیدے کی عینک سے دیکھے تو اسے کوئی خلا نظر نہیں آتا۔ اسے حقیقت پر ایمان ہوتا ہے۔ سو اس لیے دنیا کو دیکھنے والی آنکھ پر کوئی نہ کوئی عینک ضرور ہوتی ہے، جبکہ اصل حقیقت کو صرف حقیقی آنکھ سے ہی دیکھا جاسکتا ہے اور وہ اندھوں کو بھی نظر آجاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔