پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں ڈالر 3 روپے پانچ آنے سے164 روپے تک کیسے پہنچا ؟

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 21 جولائی 2019
 بیرون ممالک اور عالمی اداروں سے لئے گئے قرضوں کی داستان جو ملک و قوم پر بوجھ بن گئے ہیں

 بیرون ممالک اور عالمی اداروں سے لئے گئے قرضوں کی داستان جو ملک و قوم پر بوجھ بن گئے ہیں

پاکستان کو شدید نوعیت کے بہت سے مسائل برصغیر کی تقسیم ، پاکستان کے قیام اور آزادی کے ساتھ ملے تھے جن میں اثاثوں کی تقسیم، پانی کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر، مہاجرین کی آبادکاری، فوجی سازوسامان کی تقسیم جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مرکزی بنک میں موجود 4 ارب روپوں میں سے ایک ارب روپے کا حصہ تھا۔ میں نے یہاں پاکستان کی آزادی کے ساتھ برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان اس لیے لکھا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا ایک بہت ہی منفرد ملک ہے کہ برصغیر یعنی چھوٹا براعظم بنیادی طور پر دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم اور ہندو آبادی کے اکثریتی علاقوں کے اعتبار سے تقسیم ہو کر 14 اگست اور15 اگست 1947 ء کودو الگ الگ ملکوں کی حیثیت سے آزاد ہوا اور قیام پاکستان اس لیے استعمال کیا کہ اس سے قبل اس حدود اربعے اور محلِ وقوع اور رقبے کا کو ئی ملک دنیا کے نقشے اور تاریخ میں نہیں تھا، یوں اس کے بانی قائد اعظم بھی دنیا کی تاریخ کے منفرد لیڈر ہیں۔

لیاقت علی خان نے مشترکہ ہندوستان کا آخری وفاقی بجٹ مالی سال 1947-48 ء میں پیش کیا تھا، اور اس بجٹ کو غریب دوست بجٹ کہا گیا تھا، جس میں سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور تاجروں پر ٹیکس لگائے گئے تھے۔ پاکستان کے پہلے مالی سال 1948-49 کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ روپے تھا جس میں آمدن 79 کروڑ 57 لاکھ تھی اور خسارہ 10 کروڑ تھا مگر اس مالی سال کے خاتمے تک پاکستان مالیاتی بحران سے نکل آیا تھا اور مالی سال 1949-50 کا دوسرا قوی بجٹ پاکستان کے مستحکم ہونے کا اعلان تھا، ملک کے اس دوسرے وفاقی بجٹ کا حجم 1 ارب 11 کروڑ تھا یہ بغیر خسارے کا بجٹ تھا۔

جس میں 6 لاکھ روپے بچت تھی، اور اس کے بعد 1969 ء تک سوائے ایک آدھ قومی بجٹ کے تما م قومی بجٹ خسارے سے پاک اور بچت کے بجٹ تھے، سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد آج کے پاکستان میں پہلا قومی بجٹ عوامی حکومت نے مالی سال 1972–73 کا پیش کیا جو خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا، اس کا کل حجم 8 ارب 77 کروڑ تھا اور 18 کروڑ روپے بچت تھی، واضح رہے کہ اُس وقت مالیاتی طور پر ہماری فوری مدد سعودی عرب اور لیبیا نے کی تھی۔ 1970 کے پہلے عام انتخابات کے موقع پر صدر، جنرل یحیٰ خان کے ایل ایف او کے تحت بلو چستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا۔

1972 ء کا عبوری آئین بنا کر بھٹو نے ملک میں مارشل لاء ختم کیا اور خود صدر سے وزیر اعظم بنے اور چاروں صوبوں میں صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں تو بلوچستان میں پہلی صوبائی حکومت سردار عطا اللہ مینگل کی وزارت اعلیٰ کے تحت قائم ہوئی، اُس وقت صوبے کی کل آبادی 23 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی اور صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد بھی 23 تھی ۔ بلوچستان کی پہلی عوامی منتخب حکومت کا پہلا صوبائی بجٹ مالی سال 1972-73 ء بلوچستان کے پہلے صوبائی وزیر ِخزانہ احمد نواز بگٹی نے پیش کیا تھا جس کا کل حجم15 کروڑ روپے تھا اور بجٹ خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ تھا۔

اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 ء میں اقتدار میں آتے ہی ملک کو فوری اور شدید نوعیت کے سیاسی اور اقتصادی گرداب سے نکال لیا تھا اور خصوصاًخارجی سطح پر صرف دو مہینوں ہی میں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بحال کر کے بھارت سے مذاکرات کی راہ بھی ہموار کردی تھی،اور ساتھ ہی ملک کی تاریخ میں پہلی مر تبہ آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی تھی اور ملک میں اپنی پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام پر بھی عملدر آمد شروع کر دیا تھا۔ بھٹو کی شخصیت میں ذہانت، فطانت کے ساتھ قدرے عدم توازن انداز کی تیز رفتاری اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔

پاکستان میں اُن کی حکومت وفاق کے علاوہ پنجاب اور سندھ جیسے بڑی آبادی والے صوبوں میں بھاری اکثریت سے تھی جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میںنیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں تھیں، بلوچستان کی 23 اراکین کی صوبائی اسمبلی میں 1970 ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں بھی کافی اراکین صوبائی اسمبلی کامیاب ہو ئے تھے، اس لیے بھٹو نے یہاں پہلے دن ہی سے جوڑ تو ڑ کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ سردارعطا اللہ خان مینگل کی حکومت کو ہٹانے سے قبل انہوں نے بڑی شاطرانہ چالوں سے اس پہلی صوبائی حکومت کو عوام میں غیر مقبول کرنے کی کو شش بھی کی، جس سے بلو چستان کے نئے صوبے کو مستحکم ہونے کا مناسب وقت بھی نہ مل سکا ۔

اسی طرح بھٹو نے مالی سال 1972-73 کا قومی بجٹ جو سعودی عرب اور لیبیا کی بھاری مالی امداد سے بغیر خسارے کا پیش کیا تھا جس میں 18 کروڑ کی بچت تھی اگر اس بچت میں سے 8 کروڑ روپے کی گرانٹ بلو چستان کے صوبائی بجٹ کے خسارے کو ختم کر نے کے لیے دی جاتی تو اس سے ایک جانب نئے صوبے بلوچستان کے عوام کی دلی ہمدردیاں وفاقی حکومت کے ساتھ ہوتیں اور ساتھ ہی یہ نیا صوبہ فوراً ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر مستحکم ہو جاتا، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے بھارت نے اقتصاد ی طور پر پاکستان کو کمزور اور ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے اور اس کے بعد، یہی صورت بھٹو نے بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے استعما ل کی۔

یوں بلوچستان کے صوبہ بنتے ہی بلو چستان کو شدید نوعیت کے سیاسی، اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، صدر ایوب خان کی اقتصادی مالیاتی پالیسیوں پر یہ تنقید تو کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی تیز رفتار ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو حد درجہ مراعا ت دیں جس کے نتیجے میں ارتکازِ کی وجہ سے ملک کی مجموعی دولت مشہور 22 خاندانوں میں جمع ہوئی مگر اُن کے زمانے تک ہی ملک میں فنانشل ڈسپلن قائم رہا، قومی سالانہ آمدن زیادہ اور اخراجات کم رہے، رشوت ستانی اور اوُنچی سطحوں پر کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی، پی آئی اے، ریلوے اور ڈاکخانہ سمیت دیگر قومی ادارے خسارے کی بجائے فائدے میں تھے، اگرچہ اکثریت کی قوتِ خرید کم تھی مگر سادہ طرز زندگی اور حکومت کی جانب سے مفت تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کی وجہ سے غربت نہیں تھی یعنی ہر بیمار کو سرکاری ہسپتال میں مفت علاج کی اور ہر بچے کو سر کاری اسکول میں معیاری تعلیم کی سہو لت میسر تھی، راشن کارڈ سسٹم کے تحت 18 روپے 75 پیسے فی چالیس کلو آٹا، 1 روپے 12 پیسے فی کلو چینی اور ڈھائی روپے فی کلو بناسپتی گھی ملتا تھا۔

بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی بڑے صنعتی یونٹوں کو اپنی شوشلسٹ ’’مساوات‘‘ کی پالیسیوں کے تحت قومی ملکیت میں لیا، بعد میں فلور ملز اور رائس ملوں تک کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا مگر اس کے ساتھ فنانشل ڈسپلن برقرار نہ رکھ سکے۔ اِن قومیائے گئے اداروں کے لیے اُن کے پاس نظریات کے حامل افسران کی انتظامیہ اور مزدور یونینوں کے لحاظ سے قو میائے گئے اداروں سے حب الوطنی کی بنیاد پر محنت کا جذبہ ناپید تھا، پھر قومیائے گئے اِن اداروں میں ضرورت سے زیادہ بلکہ دگنی تگنی تعداد میں ملازم رکھے گئے، یوں یہ نفع بخش ادارے نقصان میں جانے لگے۔ بھٹو دور کی خو ش قسمتی کہ اس زمانے میں عرب امارات کو برطانوی نو آبادیاتی نظام سے آزادی ملی، پھر اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد تقریباً 30 لاکھ افراد محنت مزدوری کے لیے عرب اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں گئے اور یوں پاکستان کو بڑے اور مستقل نوعیت کا زر مبادلہ کا ذریعہ ہاتھ آگیا، تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے مالی گرانٹ اور امداد بھی ملتی رہی جس نے بھٹو کو ملک کی غیرجانبدارانہ اور آزاد خارجہ پالیسی کو اختیار کرنے میں مدد دی، مگر صدر ایوب کے زمانے کی طرح ہماری اقتصادی صنعتی ترقی مستحکم نہ رہ سکی۔

1977 ء میں بھٹو کے رخصت ہونے پر ملک میں فوراً دوبارہ وہی اقتصادی مالیاتی نظام نافذ العمل کیا گیا جس میں اُس وقت کے سینئر بیوروکریٹ اور مالیاتی امور کے ماہر غلام اسحاق خان نے جو بعد میں صدر مملکت بھی بنے اہم کردار اداکیا۔ یہ اقتصادی نظام سیاسی مفادات اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اپنایا گیا تھا جس سے فوری طور پر عوام کی قوتِ خر ید کم ہوئی، دو بارہ انحصار مغربی قوتوں پر کرنا پڑا۔ اگر چہ 1989-80 ء میں سابق سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں فوجی مداخلت سے پاکستان کو امداد اور قرضے ملے، مگر اس کے خاطر خواہ اثرات ملکی معیشت پر مرتب نہ ہوئے۔

مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوتا رہا، ڈالر کی قیمت بھی بڑھی، البتہ 1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے بعد جب جونیجو حکومت میں دنیا کے معروف ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے مالیاتی سال 1986-87 کا قومی بجٹ پیش کیا تو یہ بجٹ حیرت انگیز طور پر خسارے سے پاک اور عوام دوست بجٹ تھا مگر یہ ایک ہی قومی بجٹ تھا ۔ اگر چہ وزرا کی سطح پر پرمٹوں الاٹ منٹ، ٹھیکوں کی بنیاد پر 1972 ء کے بعد سے کچھ صوبائی اور وفاقی وزرا کی کرپشن کھل کر سامنے آنے لگی تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ایسی تھی کہ جس پر اُن کے بد ترین دشمن کرپشن کا نہ تو الزام لگا سکے اور نہ ہی انہوں نے کو ئی کرپشن کی ، مگر بعض کا کہنا یہ ہے کہ جب 1988 ء میں بینظیر اقتدار میں آئیں اور اٹھارہ ماہ بعد رخصت ہو گئیں تو اُن کو یہ احساس ہو گیا کہ یہاں اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت بھی ہے الیکشن میں بھی پیسہ چلتا ہے اور اُن کو اس کا یقین دلایا گیا کہ اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر ’’ جیسا دیس ویسا بھیس ‘‘ ہی کے مطابق چلنا ہو گا۔

1990 ء میں دنیا سے اشتراکیت رخصت ہو گئی اور سابق سوویت یونین کے رہنما گورباچوف نے گلاسنس اور پر سٹریکا متعارف کر وا کر ایک جانب روسی مشرقی ریاستوں اور وسطیٰ ایشیا کی مسلم ریاستوںکو آزاد اور خود مختار کر دیا تو دوسری جانب اشتراکی نظام کو چھوڑ کر امریکہ مغربی یورپ ،آسٹریلیا ،کینیڈا کی طر ح آزاد معیشت اور تجارت کا نظام اپنا لیا، امریکہ نے ڈبلیو ٹی او، اور نیو ورلڈ آرڈر کے ساتھ اس وسیع دنیا کو گلوبل ولیج قراردے دیا، ہمارے ہاں ڈیڑھ صدی پرانا چونگی کا نظام ختم ہوا اور دیگر مقامی ٹیکسوں کو ختم کر کے 15% سے 18% جنرل سیلز ٹیکس نافذ ہوا، یہ اقتصادی اور معاشی اعتبار سے پوری دنیا میں ہونے والی تیز رفتار اور اہم تبدیلیوں کا دور تھا، روس کا کڑا امتحان اور آزمائش تھی، واضح رہے کہ 1990 ء سے قبل روس کی کرنسی روبل امریکی ڈالر کے تقریباً برابر تھی اس کی قدر میں عا لمی سطح پر خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی اور ایک ڈالر 450 روسی روبل سے زیادہ کا ہوگیا، اگرچہ آج امریکی ڈالر تقریباً71 روبل کا ہے مگر روس معاشی، اقتصادی، عسکری اور صنعتی اعتبار سے دوبارہ عالمی سطح پراپنی کھوئی ہوئی پوزیشن تقریباً بحال کر چکا ہے۔

مگر پاکستان جس نے اقوام متحد ہ کی قرارداد پر افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف یورپ اور امریکہ سے تعاون کیا تھا، نہ صرف امریکہ اور یورپ کی جانب سے نظر انداز کر دیا گیا بلکہ خود ہمارے ہاں اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے ملک کے لیے کوئی مفید اور بہتر منصوبہ بندی نہیں کی، صوابدیدی فنڈز جو1980 ء کی دہائی میں 35 لاکھ روپے فی رکن پارلیمنٹ شروع ہوئے تھے جلد کروڑوں روپے سالانہ تک پہنچنے لگے، اور چونکہ یہ انفرادی طور پر ہیں اس لیے اربوں روپے سالانہ کی ان رقوم سے گذشتہ 34 برسوں کی مجموعی اربوں ڈالر اور کھربوں روپے کی رقم سے کو ئی بڑا اور پیداواری نوعیت کا منصوبہ مکمل نہ ہو سکا،کو ئی بڑا ڈیم نہ بنا جب کہ جو منصوبے اربوں کی لاگت اور زرمبالہ سے شروع ہوئے وہ اورنج ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے ہیں جس سے روزانہ صرف ایک شہر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد سفر کر تے ہیں اور یومیہ اِن کو کروڑوں روپے کی سبسڈی پر سستا ٹکٹ دیا جاتا ہے، یہ بالکل سستی روٹی جیسا منصوبہ ہے، یوں اگر گذشتہ دس برسوں میں کے منصوبوں اور قومی بجٹوں کودیکھیں تو افتخار عارف کے یہ اشعار حقیقت حال کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

منکر بھی نہیں حامیِ غالب بھی نہیں تھے

ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

اور پھر سونے پر سوہاگا کہ 2008 ء تا 2018 ء تک پانچ پانچ سال اقتدار میں رہنے والی جماعتوں نے ایک دوسرے پر نہ صرف قومی دولت کو نقصان پہنچانے اور کرپشن کے الزامات عائد کئے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی قائم کئے اور پھر عالمی سطح پر پانامہ لیک جیسے اسکینڈل میں بعض بڑ ے لیڈروں کے نام بھی آگئے،اس تناظر میں پی ٹی آئی کی دس ماہ کی وفاقی حکومت کی جانب سے 11 جون 2019 ء کو وفاقی وزیر ِمملکت برائے ریوینو محمد حماد اظہر نے مالی سال2019-20 ء کا قومی بجٹ پیش کیا جس کا کل حجم 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ تھا اور بجٹ خسارہ 3151 ارب روپے ہے اس بجٹ کو ٹیکنکل بنیاد پر عوام دوست بجٹ نہیں کہا جا سکتا جو بھٹو دور میں ہوا کرتا تھا، جب کہ گذشتہ دس برسوں میں پیش کئے جانے والے 11 قومی بجٹ بھی عوام دوست نہیں تھے، البتہ ووٹ دوست سیاسی مفادات پسندانہ، قومی بجٹ ضرور تھے، بجٹ مالی سال 2019-20 ء سے قبل ہی آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج ( اقتصادی ضمانتی امدادی قرضہ) کے لیے مذاکرات شروع ہوگئے اور30 جون بجٹ کی منظوری تک امریکی ڈالر کی قیمت 164 روپے تک جا پہنچی۔

پا کستان میں ڈالر کی قیمت اور معیشت و اقتصادیات کا تاریخی جا ئز ہ کچھ یوں ہے۔ 1948 ء سے لیکر 1954 تک ا مریکی ڈالر کی قیمت 3.3085 روپے رہی، ایک ڈالر تقریباً تین روپے31 پیسے رہا، یوں آزادی کے بعد ڈالر کی قیمت لگاتار سات سال تک پاکستان میں مستحکم رہی، 1955ء میں سیاسی بحران زیادہ بڑھنے لگا تو ڈالر کی قیمت میں قدرے اضافہ ہوا اور ڈالر کی قیمت 3.9141 روپے یعنی تقریباً تین روپے 92 پیسے ہو گئی، اگر چہ 1956 ء میں ملک میں پہلا پارلیمانی آئین نافذالعمل ہوا، مگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا اور ڈالر 4.7619 روپے کا ہوگیا یعنی ایک امریکی ڈالر چار روپے 77 پیسے کا ہو گیا ۔

یہا ں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1952 ء سے امریکی امداد اور قرضے شروع ہو گئے تھے لیکن یہ بہت ہمدردانہ اور دوستانہ نوعیت کے تھے، شرح سود بہت کم اور ادائیگی آسان اور طویل المدت تھی جب کہ گرانٹ میںغذائی امداد مفت بھی تھی، لیکن ہم سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علاقائی اور اشتراکی ممالک کے خلاف ہو گئے تھے۔ ڈالر کی یہ قیمت بھی طویل عرصے تک مستحکم رہی اور 1970-71تک پاکستان میں ڈالر کی قیمت پانچ روپے سے معمولی زیادہ رہی، 16 دسمبر1971 ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد 20 دسمبر1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا،1972 ء میں ڈالر کی قیمت میںتقریباً 73.6 فیصد اضافہ ہوا اور ایک ڈالر 8.6814 روپے کا ہو گیا، 1973 ء میں ڈالر کی قیمت 9.9942 یعنی تقریباً دس روپے ہوگئی مگر1974ء میں ڈالر 9.9 روپے کا ہوگیا اور اس کے بعد ڈالر کی یہ قیمت بھی تقریباً نو سال یعنی1981 ء تک مستحکم رہی۔

اس دور میں علاقائی سطح پر اور دنیا کی تاریخ میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ بھارت، پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان میں مقبول ترین لیڈر قتل ہوئے یا پھانسی پر چڑھا دئیے گئے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور ہمسایہ ملک ایران اور افغانستان میں باد شاہتوں کے تختے الٹ دئیے گئے، حالانکہ پاکستان نے

امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اب نہ صرف ہمارے مجموعی قرضوں کا حجم بڑھنے لگا بلکہ اب شرح سود میںاضافے کے ساتھ بعض شرائط ایسی بھی عائد ہونے لگیں جن سے ہماری آزاد خارجہ پالیسی متاثر ہونے لگی، اس دور میں یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ماحولیاتی مسائل سے بچنے کے لیے درمیانے درجے کی صنعتیں، سستے خام مال، سستی توانائی و افرادی قوت اور ٹیکسوں میں پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے بالکل چھوٹ یا بہت زیادہ رعایت پر، اِن غریب ملکوں میں سرمایہ کاری شروع کی جو اب بھی جاری ہے، اس کے مجموعی منفی اثرات کسی نہ کسی سطح پر ہر ترقی پذیر ملک کو ہوئے۔ 1982 ء میں ڈالر کے نرخ میں تقریباً19.95% اضافہ ہوا اور ایک ڈالر 11.8475 روپے یعنی تقریباً گیارہ روپے85پیسے کا ہو گیا۔

1982 ء کے بعد سے سالانہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1983 ء میں ڈالر 13.117 روپے، 1984 ء میں 14.0463 روپے، 1985 ء میں15.9284 یعنی تقریباً پندرہ روپے 93 پیسے اور 1986 ء میں16.6475 روپے1987 ء میں ایک ڈالر17.3988 روپے اور1988 ء میں جب صدر جنرل ضیا الحق اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ڈالر کی قیمت 18.0033 روپے یعنی اٹھارہ روپے سے معمولی زیادہ تھی لیکن 1983 سے 1988 ء تک ڈالر کی قیمت میں تقریباً52% اضافہ ہوا اور اگر ضیاالحق کے مجموعی دور حکومت گیارہ سال کے دوران اضافہ دیکھیں تو یہ مجموعی اضافہ 81.81% تک رہا ، 1988 ء سے 1999 ء تک بینظیر اور میاں محمد نواز شریف کی دو دو مرتبہ حکومتیں رہیں۔ اس دوران بھی سالانہ بنیادوں پر ڈالر میں اضافہ کا رجحان برقرار رہا۔ 1989 ء میں ڈالر کی قیمت 20.5415 روپے یعنی ساڑھے بیس روپے سے کچھ زیادہ تھی جو بڑھ کر 1990 ء میں اگست میں بینظیر حکومت کی رخصتی تک 21.7074 روپے ہو گیا یعنی 18 ماہ کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں 20.55% کاا ضافہ ہوا۔

ان کے بعد تین مہینے عبوری حکومت کے بعد میاں نوازشریف کی حکومت آئی، 1991 ء میں ڈالر کی قیمت 23.8008 روپے ہوگئی 1992 ء میں ڈالر 25.0828 روپے کا ہو گیا، 1993 ء میں جب نواز شریف کو ہٹایا گیا اور تین ماہ بعد بینظر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو ڈالر 28.1072 روپے کا ہو گیا یعنی ڈالر کی قیمت میں تقریبا ً 29.49 فیصد اضافہ ہوا، 1994 ء میں ڈالر کی قیمت 30.5666 روپے ہو گئی، 1995 ء میں ڈالر 31.6427 روپے کا ہوگیا اور نومبر 1996 ء میں اپنی دوسری مرتبہ کی حکومت کے بعد رخصت ہوئیں تو ڈالر36.0787 روپے کا ہو گیا تھا یعنی اس دوران ڈالر کی قیمت میں 28.36 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 90 دنوں کی عبوری حکومت کے بعد عام انتخابات کے بعد میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو1997 ء میں ڈالر کی قیمت 41.115 روپے ہو گئی یعنی ڈالر کی قیمت میں صرف ایک سال میں13.97 فیصد کا اضافہ ہوا، 1998 ء میں ڈالرکی قیمت 45.04 روپے ہو گئی اور 1999 ء میں جب میاں نواز شریف رخصت ہوئے تو ڈالر 51.4 روپے کا ہو گیا، یوںاس دوران 42 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا،اس دوران اربوں ڈالر ملک سے باہر گئے۔ یوں 1988 ء سے1999 ء تک بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دس سالہ دور حکومت میں ڈالر 18 روپے سے بڑھ کر 51.4 روپے کا ہو گیا، یوں اس دس برسوں میں ڈالر کی قیمت 185 فیصد بڑھی۔

اکتوبر 1999 ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا،2001 ء میں ڈالر کی قیمت 63.5 روپے ہو گئی یعنی 23.46% اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے عالمی سطح کے معروف ماہر معاشیات شوکت عزیز کو بلوا کر وزیر خزانہ بنایا اور پھر میر ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت کے بعد اُن کو وزیر اعظم بھی بنایا، انہوں نے پہلے دو سال سخت معاشی اقتصادی فیصلے کئے۔ 2002 ء میں ڈالر کی قیمت کم ہو کر 60.5 روپے ہو گئی، 2005 ء میں ڈالر 59.7 روپے کا ہوا، 2006 ء سے ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے لگا اور اس سال ڈالر 60.4 روپے، 2007 ء میں ڈالر60.83 روپے کا ہو گیا۔ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، دسمبر 2008 ء میں ڈالر 78 روپے کا ہوگیا، 22.19 فیصد اضافہ صرف پہلے سال میں ہوا، 2009 ء میں ڈالر کی قیمت 84 روپے ہو گئی یعنی 7.69% اضافہ ہوا، 2010 ء میں ڈالر 85.75 روپے کا ہو گیا۔

2011 ء میں ڈالر 88.6 روپے کا ہوا، 2012 ء میں ڈالر نے بڑی چھلانگ لگائی اور 98 روپے کا ہو گیا۔ دسمبر 1913 ء میں ڈالر 108 روپے کا ہو گیا۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا پانچ سالہ دور تھا جس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے جن کو عدا لت کی جانب سے سوئز حکومت کو بروقت خط نہ لکھنے کی وجہ سے برطرف کیا گیا اور بعد میں راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنایا گیا جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری صدر بنے تھے۔ 2007 ء تک ڈالر 60.43 روپے کا تھا جو 2013 ء میں 78.71 فیصد اضافے کے ساتھ 108 روپے کا ہو گیا تھا، واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری کے پورے دور حکومت میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف باآواز بلند آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر شدید نوعیت کی کرپشن کے الزامات عائد کرتے رہے۔

2013 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت تو تشکیل دے دی مگر اِن پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے اور ووٹوں کی بنیاد پر دوسرے نمبر کی جماعت تحریک انصاف نے جو ایک نئی پُر اثر پُر جوش جماعت کی صورت میں سامنے آئی تھی تحریک شروع کرد ی ، جسے عوامی پذیرائی بھی ملی اور اس جماعت نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو چیلنج کر دیا۔ وزیراعظم نوازشریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کمال فنکاری دکھائی اور 2014 ء میں ڈالر کو 108 روپے کی بلند سطح سے 103 روپے فی ڈالر کی سطح پر لے آئے یعنی ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے کی حیرت انگیز کمی کردی۔

نومبر 2015 ء میں ڈالر کچھ دنوں کے لیے 105 روپے کا ہوا مگر دسمبر 2016 ء میں ڈالر 104 روپے کا ہو گیا، اس دوران حکومت مسلسل بڑے ملکی اور غیر ملکی قرضے لیتی رہی۔ اسحاق ڈار نے بھاری شرح کے منافع پر سکوک باؤنڈز جاری کر کے بھی زرمبادلہ جمع کیا جس کی ادائیگی کی مدت طویل رکھی پھر نوازشریف کی سزا کے بعد اور خصوصاً پانامہ لیکس اور کرپشن کے دیگر الزمات کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس وقت کے مسلم لیگ کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے طیارے میں لندن چلے گئے اور اب تک وہیں ہیں، ان کے جانے کے بعد اگر چہ یہ کہا گیا کہ یہ حکومت الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے صرف تین ماہ سپلیمنٹر ی بجٹ دے مگر مسلم لیگ ن کے نئے مقرر کردہ وزیر مملکت برائے خزانہ اسماعیل مفتاح نے بجٹ مالی سال 2018-19 ء دیا جس میں پوسٹ مارٹم کرکے حکومتی آمدنی کے ذرائع کو بہت کم اور اخراجات کو بہت زیادہ کر دیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دن کے آخری گھنٹوں میں بھی کروڑوں روپے مالیت کے سرکاری چیکوں پر دستخط کئے۔ یوں یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا آخری بجٹ مالی سال 2018-19 ء عوام دوست اور ملک دوست نہیں تھا بلکہ اپوزیشن اور بہت سے ماہرین کے مطابق غالباً اُن کو یہ احساس تھا کہ آئندہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی آئے گی اس لیے اُن کی نئی اور ناتجربہ کار حکومت کے ساتھ اس طرح کی اقتصادی اور معاشی، بارودی سرنگیں اور ٹائم بم لگا دئیے گئے۔

حالانکہ 2008 ء سے 2013 ء تک جب ڈالر کی قیمت 60.4 روپے سے بڑھ کر 108 روپے تک پہنچ گئی تھی تو اس کی وجہ تجارت میں خسارہ، اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے اورکھربوں روپے کے اندرونی قرضے، مالی بے ضابطگیاں وغیرہ تھیں اور اس کے بعد اِن وجوہات کی شدت میں زیادہ اضافہ ہوا، مگر اسحاق ڈرا نے منفی انداز سے مسلم لیگ کے ووٹ بنک کو مستحکم رکھنے اور پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے کے بعد ناکام بنانے کی خاطر ملک و قوم کے مفادات کو نظر انداز کر دیا۔ اگر اسحاق ڈار زرداری کی پیپلز پارٹی کی طرح عالمی سطح کے تقاضوں کے عین مطابق قومی مالیاتی مسائل طے کرتے تو 2018 ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت رخصت ہو رہی تھی تو ڈالر کی حقیقی قیمت 145 روپے سے کسی طرح کم نہ ہوتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت صدر پرویز مشرف کی حکومت کے دوران قدرے کم ہوئی تو اس کی ایک بڑی وجہ نائن الیون کے بعد کی فوری امریکی امداد تھی جب کہ مسلم لیگ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دور میں تو حکومت پر کرپشن کے ایسے الزمات عائد ہوئے کہ نوازشریف کی وزارت ِ عظمیٰ بھی گئی اور انہیں جیل بھی جانا پڑا اور خود اسحاق ڈار سابق اور مفرور وفاقی وزیر خزانہ کہلاتے ہیں اور حالیہ حکومت اُن کی واپسی کے لیے قانونی کوششوں میں مصروف ہے۔

اب جہاں تک تعلق عمران خان کی پی ٹی آئی کی دس ماہ کی حکومت کا ہے تو مالی سال 2018-19 ء جو 30 جون 2019 ء کو ختم ہوا، اِس مالی سال کا بجٹ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بنایا تھا جس کو دس مہینے حالیہ حکومت نے بھگت لیا ہے ، اور 11 جون 2019 ء کو نئے مالی سال 2019-20 ء کا قومی بجٹ دیا جو 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ رو پے کا ہے اور بجٹ خسارہ 3151 ارب روپے ہے۔ یہ بجٹ اور اس کا خسارہ بھی بڑا ہے مگر یہ اعداد و شمار مالیاتی حقائق اور سچائی کے عکاس ہیں، تلخ حقائق سامنے ہیں، حکومت نے قومی اسمبلی سے بجٹ منظور بھی کر وا لیا ہے اور حکومت کو آئی ایم ایف کی طرف سے 6 ارب ڈالر قرضے کی منظوری بھی ملی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی ہو گی مگر اس وقت یہ تلخ حقیقت ہے ، مارچ 2018 ء میں ڈالر کی قیمت 115.20 تک پہنچی تھی جو اب 157 روپے ہے یعنی دس ماہ کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں 36.52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یوں یہ تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان حکومت کا پہلا بجٹ چیلنج بجٹ ہے جس کو ملک دوست کہا جا رہا ہے، اُن کی حکومت نے قوم کو دھوکے میں نہیں رکھا ہے، جو کچھ سامنے ہے وہ دکھا دیا ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ عمران ہی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران قرضے نہ لینے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوٰے کئے تھے مگر حکومت میںآنے کے بعد اُن کا کہنا یہ ہے کہ اُنہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ملک کی معاشی و اقتصادی اور مالیاتی صورتحال اس قدر ابتر ہوگی۔ یوں حالیہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ اقدامات اٹھانے پڑے اور مستقبل قریب میں بہتر اقتصادی، معاشی اور مالیاتی ڈسپلن کو اپناتے ہوئے اِس معاشی اقتصا دی بحران سے باہر نکل آئیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو اس مشکل دور سے نکالنے کی مدت تک اُن کو صبر کے ساتھ وقت گزار نے پر آمادہ کر پائے گی؟ کیونکہ ڈالر کی قیمت کے بہت کم مدت میں 36.52 فیصد کے اضافے سے پاکستانی روپے کی امپورٹڈ چیزوں کی قوت خرید میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے ، اور ملکی اشیا کی مہنگائی دس سے بیس فیصد ،اور ساتھ ہی اپوزیشن ہے جس کے بعض اراکین معاشی بحران کے ذمہ دار رہے ہیں، وہ منظم ہو کر دفاعی انداز کی بجائے جارحانہ انداز اختیار کئے ہو ئے ہیں۔

پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت نہیں ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جن کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں اور اِن میں سے بیشتر جیلوں میں بھی ہیں وہ متحدہ اپوزیشن کی صورت میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اور اب اپوزیشن مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کرنے لگی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن ، پی ٹی آئی کی عددی بنیاد پر کمزور حکومت کے خلاف اب تک عدم اعتماد کی کوئی تحریک لانے کی کوئی بات بھی نہیں کر سکی ہے، اور وزیر اعظم عمران خان، جو پہلے بھی قدرے دفاعی انداز پر یقین نہیں رکھتے تھے اب بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری اور آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کے بعد کچھ زیادہ دلیرانہ انداز میں آگے آگئے ہیں، 2 جولائی کو اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اُنہیں 19 ارب ڈالر سے زائد کے حسابات جاری کا خسارہ ورثے میں ملا۔ اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومتوں نے زیادہ شرح سود پر تجارتی قرضے حاصل کئے اور ممکن تھا کہ ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور قطر جیسے دوست ممالک مدد نہ کرتے، انہوںنے یہ بھی بتایا کہ سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ وہ گذشتہ دس برسوں میں لئے گئے اور خرچ کئے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن کا اعلان بھی کر چکے ہیں، اور اب ایمنسٹی اسکیم کی مدت گزر جانے پر انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ بے نامی اثاثوں اورجائیدادوں کی اطلاع دینے والوں کو اس کا 10% حصہ دیا جائے گا، اور اب وہ 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ کا سرکاری دورہ بھی کریں گے، یوں جولائی کا مہینہ پاکستان میں سیاسی، اقتصادی، مالیاتی اور معاشی لحاظ سے واضح انداز میں سمت کا تعین کرنے والا مہینہ ہو گا اور دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیسے سمت نما ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں تک تعلق مالیاتی اقتصادی امور کا ہے تو اِن کے دور حکومت میں بلوچستان پر توجہ دینے کی کہیں زیادہ ضرورت ہو گی۔

انہیں جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بھی بنانا ہے اور فاٹا کے خیبر پختونخوا میں شامل کئے گئے علاقوں پر مشتمل اضلاع میں تیز رفتار ترقی بھی کر کے دکھانی ہو گی، اور اپنے اعلانات کے مطابق کرپشن کے قومی مجرموں سے اربوں ڈالر کی لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس لانی ہو گی۔اس تناظر میں جو بات امید افزا اور حوصلہ مند ہے وہ یہ کہ پاکستا ن جیسے ملک میں مستحکم ترقی،خوشحالی اور مضبوط دفاع کے لیے ضروی ہوتا ہے کہ وزارتِ خزانہ، خارجہ، دفاع اور داخلہ کے درمیان بہترین روابط ہوں اور ماہرین اپنے اپنے شعبوں کے علاوہ مجموعی طور پر پوری صورتحال کا علم رکھتے ہوئے فوری اور بروقت اہم فیصلے جرات مندانہ انداز میںکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ابھی چند دنوں ہی میں ایف بی آر اور دیگر متعلقہ محکموں میں جو شفلنگ ہوئی ہے یہ واضح کرے گی کہ نئی حکومت درست فوری اور بروقت فیصلے کر رہی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔