کیا ایغور مسلمان انسان نہیں ہیں ؟

گلناز ایغور  اتوار 21 جولائی 2019
سنکیانگ کی سڑکیں خالی پڑی ہیں ، گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں، دکانیں بند پڑی ہیں کیوں کہ ان کے مالکان لاپتا ہیں

سنکیانگ کی سڑکیں خالی پڑی ہیں ، گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں، دکانیں بند پڑی ہیں کیوں کہ ان کے مالکان لاپتا ہیں

گلنازایغور چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم وہاں پیدا ہونے والے حالات نے انھیں اور ان کے گھروالوں کو اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ وہ مختلف ممالک سے گزرتے ہوئے بالآخر لندن مقیم ہوگئیں۔ گلنازایغور اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں کیوںکہ اس کے نتیجے میں انھیں اور ان کے گھر والوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آج کل معروف برطانوی جریدے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ سمیت مختلف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایغور قوم کے مصائب اور مشکلات پر لکھ رہی ہیں۔ (ادارہ)

میرا نام گلناز ہے اور میں ایغور مسلمان ہوں۔ میں مشرقی ترکستان میں پیدا ہوئی جسے دنیا ’سنکیانگ‘ کے نام سے جانتی ہے، سبب یہ ہے کہ چین نے اسے یہی نام دیا ہے۔ جب میں لڑکی تھی، ابھی ٹین ایج میں داخل ہورہی تھی، شاید گیارہ برس کی تھی۔ اس عمر کی لڑکی حالات دیکھ کر کافی حد تک سمجھ سکتی تھی کہ چین اس کے لئے محفوظ ملک نہیں ہے۔ اب میری عمر 25 برس ہے۔ اس قدر زیادہ برس باہر گزارنے کے باوجود سنکیانگ سے مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔

میری کوشش ہے کہ میں اپنے بارے میں بہت زیادہ گفتگو نہ کروں۔ میری یہ کہانی پڑھ کر شاید آپ میری پوزیشن کو سمجھ سکیں، اگر آپ پسند کریں تو آپ اسے دوسروں کو پڑھنے کے لئے بھیج سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے اسکول میں پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا کیونکہ میں اپنے والد کے ساتھ مل کر کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ بعض اوقات مجھے وہاں اکیلے ہی کام کرنا پڑتا تھا کیونکہ میرے والد کی طبعیت ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ میرے چھوٹے ہاتھ کام کرنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتے تھے لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

جب ہم مارکیٹ میں جاتے تھے تو مجھے وہ چینی سیکورٹی اہلکار یاد ہیں جن کی آنکھیں ہم پر جمی ہوتی تھیں۔ تب مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں، جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ تاہم اس ناپسندیدگی کا اصل سبب یہ تھا کہ ہم ایغور اور مسلمان تھے۔

پھر ایک رات چینی سیکورٹی اہلکاروں نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا، انھوں نے گھر کا ہر کونا کھدرا چھان مارا۔ میری والدہ نے مجھے تہہ خانے میں چھپادیا۔ انھوں نے ایک چھوٹی سی شیشی میں ایک محلول مجھے تھمادیا اور کہا کہ اگر کوئی اہلکار تمھیں چھوئے تو تم یہ شربت پی لینا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی نوبت نہ آئی۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ یہ معمول کی تلاشی ہے تاہم کچھ عرصہ بعد ایک ایسا خوفناک واقعہ ہوا جس نے ہمیں ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔

میری ایک خالہ ہمارے ہمسائے میں رہتی تھیں، وہ دوسرے بچے کے لئے امید سے تھیں، ان کے گھر والے انھیں کہیں دور بھیجنے کا منصوبہ بنارہے تھے کیونکہ ایغور ماؤں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ چین میں ایک بچہ پالیسی ختم کردی گئی تھی تاہم ایغور ماؤں کی مسلسل مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ دوبارہ حمل کی صورت میں انھیں ابارشن پر مجبور کیا جاتا ہے، وہاں یہ ایک معمول ہے۔ یہ چیز مجھے اس قدر خوفزدہ کرتی ہے کہ میں اپنے احساسات و جذبات اور اپنی شناخت لوگوں پر ظاہر نہیں کرتی۔

بہرحال کسی نہ کسی طرح چینی حکام کو میری خالہ کا پتہ چل گیا، انھوں نے اسے اسقاط حمل کرانے پر مجبور کردیا۔ گرد سے اٹے ایک ہسپتال کے ایک کمرے میں ایک رات میری خالہ انتقال کرگئیں۔ وہ اس وقت چھ ماہ کی حاملہ تھیں، ان کی زندگی کو شدید خطرہ تھا لیکن ڈاکٹر اپنا کام کرتے رہے۔

اس واقعے نے ہمارے خاندان کو شدید غم اور صدمہ سے دوچار کردیا۔ چنانچہ میرے والد نے چین چھوڑدینے کا فیصلہ کرلیا۔ ہم فوراً ترکی کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں ہم کسی ایک جگہ پر زیادہ دیر قیام نہیں کرتے تھے۔ اس طرح ہم دو سال تک زندگی بسر کرتے رہے۔ ان دو برسوں کے دوران میں ، ہم چین میں ایغور لوگوں پر کریک ڈاؤن کی خبریں سنتے رہے، ارمچی کے قتل عام کا بھی پتا چلا، مسجدوں کو شہید کرنے کی خبریں بھی ملتی رہیں، معصوم افراد کی گرفتاریوں کا علم ہوتا رہا، حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی خبر ملی کہ بیرون ملک مقیم ایغور مسلمانوں کو تلاش کرنے کے لئے آپریشن کئے جاتے ہیں۔

میرے والد نے ہمیں خبردار کیا ہوا تھا کہ اپنی ایغور شناخت ظاہر نہ کرنا۔ انھوں نے خود بھی ہمیں ایغور کلچر کی تعلیم دینے سے گریز کیا۔ پھر تھائی لینڈ سے خبر آئی کہ 300 ایغور لوگوں کو وہاں سے واپس چین بھیج دیا گیا، اس خبر نے ہمیں شدید خوفزدہ کردیا۔ حقیقت یہ تھی کہ گرفتار ایغور لوگوں کا احتجاج اور بھوک ہڑتال بھی ان کے کام نہ آسکی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر چین نے ہمیں بھی تلاش کرلیا تو ہمیں بھی سزا دی جائے گی۔

تمام تر مشکلات جو ہم نے برداشت کیں، کے باوجود میرے والد نے ہماری تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہماری تعلیم بہت اچھی ہو۔ ان کا خیال تھا کہ اچھی تعلیم ہی ہمیں ایک ایسے راستے پر لے جائے گی جو غلامی اور خوف سے نجات دلاسکتا ہے۔ وہ مجھے ایک ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں دنیا کو ہر فرد کے لئے ایک بہتر جگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔ اگرچہ میں اپنے آپ کو ایک ایکٹویسٹ سمجھتی ہوں، جب بھی میں ناانصافی کی کوئی خبر سنتی یا دیکھتی ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے، پھر میں کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتی ہوں۔

یہ دنیا ’پہلی دنیا‘ اور ’تیسری دنیا‘ کے ممالک میں تقسیم ہے، تاہم ایغور لوگوں کو کہیں بھی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ عالمی رہنماؤں نے ہم لوگوں کو مظالم سہنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے، سوال یہ ہے کہ وہ آخر ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کیا ہم ایغور انسان نہیں ہیں؟

چند سال پہلے میرے اندر کی ایغور لڑکی نے مجھ پر غلبہ پالیا، چنانچہ میں نے ٹوئٹر پر اپنا اکاؤنٹ بنایا جہاں میں بہت سے لوگوں کو چین میں جاری ایغور لوگوں کی جدوجہد سے آگاہ کرتی ہوں۔ آخر ہمیں ایغور اور مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا کیوں دی جارہی ہے؟ ہمارا جرم کیاہے؟ بہت سے لوگ جن سے میرا رابطہ ہوا، ان میں سے کچھ نے میری کہانی جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ تاہم میں ایسا کچھ نہیں بول سکتی جس سے میرے گھر والوں پر مشکلات آن پڑیں۔

یہ کہانی لکھنے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں کہ چینی حکام میرا تعاقب کریں گے۔ ممکن ہے کہ مجھے خاموش کرادیا جائے۔ تاہم میری کہانی بہت اہم ہے۔ دنیا ایک طویل عرصہ سے ایغور لوگوں کو نظرانداز کرتی رہی ہے لیکن اب وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوچکی ہے۔ بہت سے دیگر ایغور لوگوں کی طرح گلناز کو بھی اغوا کیا جاسکتا ہے، اس پر تشدد کیا جاسکتا ہے، اسے قتل کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی جنگ ، ناانصافی کے خلاف لڑائی کسی نہ کسی کو جاری رکھنی چاہئے، مجھے امید ہے کہ وہ آپ ہوں گے۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی ماں بنتی ہے یا کوئی باپ بنتا ہے تو اس وقت اس کے جذبات و احساسات بے مثال ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے جہاں ایک ننھی جان کو گھر میں لانے، اس کی پرورش کرنے اور اسے منازل طے کرتے ہوئے دیکھنے کا لطف ملتا ہے۔

آپ چشم تخیل سے دیکھیں کہ ایک دن آپ کو گھر سے آپ کے بچوں کی نظروں کے سامنے سے اٹھالیا جاتا ہے اور آپ کو ایک انٹرنمنٹ کیمپ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کو خبر تک نہیں ہوتی کہ آپ کو یہاں کیوں لایا گیا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنے بچوں سے دوبارہ مل سکیں گے یا نہیں۔ سوچئے کہ آپ کو دوران حراست یہ بتایا جائے کہ آپ کا جرم اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرناہے، اسی لئے آپ کو اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً آپ شدید خوف کا شکار ہوجائیں گے۔ اس وقت چین میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کو اسی خوف کے ساتھ شب و روز گزارنا پڑ تے ہیں۔

سنکیانگ میں واقع چینی کنسنٹریشن کیمپوں کو چینی حکام ’ووکیشنل ٹریننگ کیمپ‘ قرار دیتے ہیں، جہاں 20لاکھ ایغور قیدوبند کی صعوبتیں اٹھا چکے ہیں، تقریباً ایک لاکھ ایغور اب بھی وہاں انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ کیمپ ایغور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو نگل چکے ہیں۔ یہاں ان کی برین واشنگ ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے کلچر، مذہب اور دیگر شناختوں کو بھول جائیں۔ انھیں ان کے گھر والوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی تقریریں اور کمیونسٹ پارٹی کے گیت یاد نہ کرنے کے ’’جرم‘‘ میں خواتین کی عصمت دردی کی جاتی ہے اور مردوں کو کئی گھنٹوں تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چینی حکام کہتے ہیں کہ وہ سنکیانگ کے لوگوں کو بہترین ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل بنارہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایغور اسکالرز، ڈاکٹرز، سائنس دانوں اور فن کاروں کو کون سی ’’ملازمت‘‘ کی ضرورت ہے جو انھیں یہاں لایا گیا ہے؟ وہ پہلے ہی سے باروزگار تھے، پھر انھیں ملازمتوں کی ضرورت کیوں ہوگی بھلا؟

یہ کیسی ووکیشنل ٹریننگ ہے کہ ایک پوری قوم کو کیمپوں میں بند کردیا جائے اور ان سے کسی کو ملنے جلنے اور بات کرنے کی اجازت بھی نہ ہو! حتیٰ کہ گھروالوں سے بھی نہیں، انھیں گھر واپس آنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی !! ان کیمپوں کے بارے میں حقائق کو صرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق ہی نے دنیا والوں کے سامنے منکشف کیا۔

اس وقت ہزاروں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ان کیمپوں میں قید ہیں یا پھر انھیں یتیم خانوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ سنکیانگ کی سڑکیں خالی پڑی ہیں ، گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں، دکانیں بند پڑی ہیں کیونکہ ان کے مالکان لاپتہ ہیں۔ جب سے میں اپنے والدین کے ساتھ چین سے فرار ہوئی ہوں، وہاں حالات مزید سنگین ہوچکے ہیں۔ اگرچہ میں اب لندن میں ’’محفوظ‘‘ زندگی بسر کررہی ہوں تاہم رات کو والدین چھن جانے کا خیال آتے ہوئے میں ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہوں۔

جوں جوں دن گزر رہے ہیں، کیمپوں سے رہائی پانے اور تحقیقی رپورٹس لکھنے والوں کی گواہیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح سیٹلائٹ کے ذریعے ان کیمپوں کی تصاویر بھی منظرعام پر آچکی ہیں۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے ایک سینئیر روسی افسر کو بغیرمنصوبہ بندی کے سنکیانگ بھیجا۔ ان کے دورے کے بعد چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا کہ چین کا اقوام متحدہ کے ساتھ ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کی کوششوں پر اتفاق پایا گیا ہے۔ اس کے بعد سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔

واضح رہے کہ چین اس وقت اقوام متحدہ کی طرف سے ’امن کوششوں‘ کے بجٹ کا 10فیصد فراہم کررہا ہے۔ امریکا اس ادارے سے فارغ ہورہا ہے جبکہ چین ادارے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ عشروں تک چین اس ادارے میں پچھلی نشست پر بیٹھا رہا ، وہ خاموشی سے اپنے پوائنٹ سکور کرتا رہا، تاہم اب وہ کھل کر سامنے آرہا ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سابقہ رپورٹس میں چین کو انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اگر اس ملک کا اثرورسوخ اسی طرح بڑھتا رہا تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جب چین کا نام ایسی تمام فہرستوں سے خارج کروادیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی خاموشی کے نتیجے میں دنیا کے باقی لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا۔ اگر دنیا آج ایغور لوگوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی تو کل اس خاموش دنیا کے ساتھ بھی کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔ دنیا کے جن ممالک میں چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے، وہاں کی حکومتیں بھی خاموش ہیں۔ مثلاً قازقستان میں موجودہ انسانی حقوق کی تنظیمیں قازق شہریوں کی چین میں حراست پر بات کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سبب یہ ہے کہ بذات خود قازقستان کی حکومت نے ان تنظیموں کے منہ بند کررکھے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں چین کے خلاف سخت رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے حالانکہ جعلی شادیوں کے نام پر پاکستانی لڑکیوں کو چین میں اسمگلنگ کرنے کا ایک معاملہ بھی سامنے آچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔