سرکاری ملازمین حاکم اعلیٰ، بے بس عوام بدترین غلام

ظفر سجاد  اتوار 21 جولائی 2019

وطن عزیز میں جب بھی کوئی شہری اپنے جائز مسئلے کے حل کیلئے کسی بھی سرکاری دفتر میں جاتا ہے تو فرعون بنے ہوئے سرکاری ملازمین اپنے ہی لوگوں سے وہ سلوک کرتے ہیں، جو دنیاکی کوئی بھی فاتح اور وحشی قوم بھی اپنی مفتوح اور غلام قوم سے نہیں کرتی اس قدر حقارت انگیز سلوک کیا جاتا ہے کہ ہر عزت دار بندہ سرکاری دفتر میں جانے سے اجتناب کرتا ہے، کسی ایک ادارے یا سرکاری دفتر میں عوام کو معمولی عزت نہیں دی جاتی۔ کوئی یہ بھی نہیں سوچتا کہ ایک سائل یا بے بس فرد کو ذلیل کرنا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا کتنا بڑا گناہ اور غیر اخلاقی بات ہے۔ حتیٰ کہ نائب قاصد اور گارڈ تک ہر عزت دار شہری کو بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

معدوم ہوتی ہوئی احتجاجی آوازیں
ہمارے ملک میں کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اب احتجاجی آوازیں کمزور ہوتے ہوتے معدوم ہو رہی ہیں، ظلم و ناانصافی پر احتجاج کرنے والے ریاستی معاملات سے بیزار اوربددل ہو چکے ہیں۔ جب عوا م کے احتجاج، جذبات، احساسات اور گلیِ شکوے کو چنداں اہمیت نہ دی جائے تو آخرکار بددلی اور بیزاری کے سوا اور کیا راستہ رہ جاتا ہے، بیزار اور بد دل افراد صرف وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، یہ افراد زندگی کی حقیقی رِمق اور خوشیوں سے محروم ہو چکے ہیں، اس بات کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جس سے اس وقت وطن عزیز دوچار ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں تنزلی کا شکار ہیں، ملکی ترقی، نظام تعلیم، سائنسی ترقی اور کھیل سمیت ہم ہر جگہ نیچے سے نیچے جا رہے ہیں۔

موجودہ دور میں بھی میرٹ کا نظام نظر نہیں آتا ’’وزیراعظم سٹیزن پورٹل‘‘ قائم ہونے کے باوجود افسر شاہی کے روّیے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ’’سٹیزن پورٹل ‘‘ میں تقریباً دس لاکھ شکایات درج کروائی گئیں، وزیر اعظم آفس کے مطابق 80 فیصد شکایات کو نبٹا دیا گیا ہے۔ مگر میڈیا میں ابھی تک ایک خبر بھی ایسی نہیں آئی کہ عوام کی تکلیف یا مشکل کا باعث بننے والے کسی بھی سرکاری ملازم کو غلط روّیے کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا ہو یا اُسے ایسی سزا دی گئی ہو کہ دوسروںکو عبرت حاصل ہو، بلکہ اُلٹا سرکاری ملازمین کے دلوںسے وزیراعظم اور وزیر اعظم آفس کا خوف بھی ختم ہوگیا ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی (جو کہ ہر چینل دکھا رہا ہوتا ہے) سے سرکاری ملازمین بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔نااہل، نکمے اور سازشی سرکاری ملازمین نے ریاست کو جس نہج پر پہنچایا ہے سب کے سامنے ہے مگر ان افراد نے عوام کو بھی ریاست سے ہی بد دل کر دیا ہے۔

محب وطن پاکستانی کی ہجرت
ماسٹر عبدالحمیدوطن اور دین سے انتہائی محبت رکھنے والے اسکول ٹیچر تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے انکا کُُنبہ گورداس پورمیںرہائش پذیر تھا، وطن کو آزادی مِلی تو ان کے دادا، تایا، والد اور ماموں کو شہید کردیا گیا۔ دو جوان بہنوں کو سکِھ بلوائی اٹھا کر لے گئے، ماں لاپتہ ہوگئی وہ کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچے، لاہور میں ان کا پہلا ٹھکانہ مہاجرکیمپ بنا پھر وہ گوالمنڈی کے علاقہ میں رہائش پذیر ہوگئے، مزدوری کرنے کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے، پھر بی اے کیا اور سرکاری نوکری کی بجائے صرف اس لئے’’ٹیچنگ ‘‘ کو تر جیح دی کہ انھیںقوم کو تعلیم دینے اور تربیت کرنے کا موقع مِلے گا۔

اس زمانے میں سرکاری نوکری مِلنا قطاً دشوار نہیں تھا بلکہ تعلیم یا فتہ نوجوانوں کی ضرورت تھی، وہ اپنے شاگردوں کو بڑی دلسوزی اور جانفشانی سے پڑھاتے تھے، اسی اثنا میں ان کی شادی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا ۔ وہ اپنے شاگردوں کو ’’نصاب اور کتاب ‘‘ پڑھانے کے علاوہ کردار سازی اور حبّ الوطنی پر بہت زور دیتے تھے، ان کے شاگرد نمایاں عہدوں تک پہنچے ، وہ ہمیشہ کہتے کہ اچھا استاد ’’معمارقوم‘‘ ہوتا ہے۔ شام کو وہ بہت سارے طالبعلموں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ کہتے تھے’’ میں اپنے وطن کی تعمیر نو میں اپنا حق ادا کر رہا ہوں،‘‘ اس وطن کیلئے جس کی بنیادوںمیں میرے پیارے ابا جی کا خون ہے، میرے دادا کا خون ہے، تایا کا خون ہے، میری بہنوں کی عصمتوں کا خون ہے، ہمارے پورے خاندان کی آزرئووںکا خون ہے۔

انھوں نے اپنے دونوں بیٹوںکی پرورش اور تربیت کی بنیاد ہی اعلیٰ اخلاقی اوصاف، دین سے محبت اورا نتہادرجہ کی حبّ الوطنی پر رکھی، وہ اپنے بچوں کو خاندان کی قربانیوں کا ذکر کر کے وطن کی خدمت کا درس دیتے، بچے یہی باتیں سُن کر جوان ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سرکاری نوکری کی تلاش شروع کی، ایک بیٹے کو کسی نہ کسی طرح ایک سرکاری محکمے میں نوکری مِل گئی مگر یہ و ہ دور تھا کہ سرکاری ملازم تنخواہ ’’ٹوکن منی‘‘ کے طور پر وصول کرتے تھے اصل آمدنی رشوت کی کمائی تھی، اسکی تربیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ رشوت کی کمائی سے بچوں کی تربیت کی جائے یا گھر یلو اخراجات پورے کئے جائیں، اس کی ایمانداری اس کے لئے وبال جان بن گئی، دفتری ساتھی اس کی ایمانداری سے تنگ تھے۔

محدود آمدنی کی وجہ سے معاشرے میں بھی اُسے کوئی مقام حاصل نہ تھا، اس کے اخلاقی اوصاف ، ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبات اس کی خوشیوں اور پُر سکون زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، داستان بڑی طویل ہے ، قصہ مختصر یہ کہ ایک دن وہ وطن چھوڑ کر لندن چلا گیا ، اب وہ وہاں پُر سکون زندگی گزار رہا ہے، وہاں اس نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کی، تین بچے ہوئے، بیوی نے کئی دفعہ کہا کہ بچوں کو ان کا اصل وطن دکھاتے ہیں، مگر وہ انکار کر دیتا ہے،کہتا ہے کہ وہاں انصاف نہیں ہے ، ایماندار اور محنتی شہریوں کی قدر نہیں ہے، وطن سے محبت کرنے والوں کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے، سرکاری ملازمین فرعونیت کی انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں، وہ وطن واپس نہیں آیا۔ اس وطن کے لئے سارا خاندان قربان کرنے والے کا بیٹا اپنا وطن چھوڑ کر چلا گیا ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟

محکمہ پولیس نوجوان نسل کی بددلی کا باعث بن چکا ہے
نعیم نامی ایک لڑکا وطن کی خدمت کا جذبہ لئے جوان ہوا، تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ مختلف جماعتوں کے سیا ستدانوں نے اپنا ووٹ بنک بنانے کیلئے اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کروا دیا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں بھرتی کروا دیا ہے کہ اب سالوں تک کوئی بھی نئی آسامی نہیں نِکل پائے گی، ان سیا ستدانوں نے میرٹ کی پرواہ کی نہ اہلیت کی، نا اہل اور نکمے ترین افراد کو سرکاری محکموں میں کھپا دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ ایک جماعت کے سربراہ کے اپنے خاندان کی لا تعداد سریا ملیں، شوگر ملیں، کارخانے اور دوسرے کاروبار تھے، انھوں نے اپنا ووٹ بنک بنانے اور بڑھانے کیلئے بے روز گار نوجوانوں کو اُن میں نوکریاں نہیں دیں بلکہ انھیں سرکاری محکموں میں نوکریاں دے کر قوم کو ذلیل کروانے کیلئے ان پر مسلط کردیا۔

اس نوجوان کو سرکاری نوکری نہیں مِلی تو اس نے نجی کمپنی میں نوکری کر لی، 3 ماہ بعد اُسے نجی کمپنی سے تنخواہ نہیں ملی بلکہ اُسے نوکری سے ہی نکال دیا گیا، اُس نے لاہور کے تھانہ لیا قت آباد سے رجوع کیا۔ وہاں صدیق نامی اے ایس آئی نے درخواست وصول کی دوسرے فریق کو بھی تھانے بلّوایا اُن سے علیحدگی میں ’’ کوئی بات ‘‘ کی پھر اس نوجوان کو ذلیل کر کے تھانے سے نکال دیا کہ آپس کے لین دین کے معاملات میں پولیس مداخلت نہیں کر سکتی، اُسے سول عدالت جانا پڑے گا، لڑکے نے اے ایس آئی کی خاصی منِت و سماجت کی مگر اُس نے ایک نہ سُنی، وہ نوجوان خاموش ہوگیا، اور ملک سے باہر جانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگیا، اُس کے والد نے کہا کہ وطن میں رہ کر ملک کی خدمت کرے تو تلخی سے کہنے لگا ’’اس وطن کی خدمت ؟‘‘ جہاں ہمیشہ ایماندار لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، شریف لوگوں کا حق مارا جاتا ہے، جہاں مظلوم کی کسی سطح پر شنوائی نہیں ہے۔

جہاں حکمرانوں کو صرف اقتدار سے چمٹے رہنے کی پرواہ ہوتی ہے۔’’ یہاں ہر دور میں غریب کی کمائی لٹتی ہے، یہاں ہر دور کے سلطان سے بھول ہوتی ہے، باپ کو کہنے لگا کہ ہر طاقتور اور با اثر آدمی کمزور پر ظلم کرتا ہے ، تھانے میں انصاف ملِتا ہے نہ کچہری میں، وہ باہر کے ملک میں دونمبر کا شہری بن کر زندگی گزار لے گا اب مجھ میں مزید ناانصافی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ یہ نوجوان بھی باہر چلا گیا، مگر بددلی کا باعث بننے والے وہ سر کاری اہلکار آج بھی اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کا روّیہ مجرمانہ سمجھا جاتا اور نہ ہی ایسے اہلکاروں کیلئے سخت سزائیں موجود ہیں۔

ٹریفک وارڈن کی ڈھٹائی
شاہ کام چوک لاہور میں کنور زاہد حسین نامی ٹریفک وارڈن نے رُکی ہوئی موٹر سائیکل کی ریس زیادہ ہونے کی پاداش میں ایک معمر شہری کا چالان کردیا، معمر شہری نے خاصی منت وسماجت کی کہ اسکی موٹر سائیکل خراب ہے مگر ٹریفک وارڈن نے اس کی ایک نہ سُنی، وہ بیمار اور معمر شہری میلوں دور ویلنشیاٹاؤن میں موجود نیشنل بنک گیا توپتہ چلا کہ اس بنک کا وقت دوسرے بنکوں کے مقابلے میں کم ہے، د و روز بعد وہ دوبارہ بنک گیا وہاں چالان کی رقم جمع کروانے والوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی کئی گھنٹوں بعد اسکی باری آئی ، اب چالان چھڑوانے کیلئے اُسے دوبارہ مزید میلوں دور’’ اڈہ پلاٹ رائے ونڈ‘‘ جانا پڑا ۔ شائد دنیا کے کسی اور ملک میں شہر یوں کی اتنی تذلیل نہ ہوتی ہوگی، جس قدرہمارے وطن عزیز میں ہوتی ہے۔

ایک تو ٹریفک وارڈن نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، دوم چالان کی رقم کسی نزدیکی بنک میں جمع کروانے کی بجائے کوسوں میل دور کے بنک کا انتخاب کیا گیا۔ کاغذات واپس لینے کیلئے مزید میلوں دور جا نا پڑا، اس ناانصافی پر اس معمر شہری کے دل میں جو جذبات پیدا ہوئے ہوں گے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تقر یباً تمام ٹریفک وارڈنز اسی روّیے کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر بے بس شہریوں کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ اس روّیے کی اصل وجہ موجودہ ’’ سی ٹی او‘‘ کی ہلہ شیری ہے کہ اب امن و امان قابو میں رکھنے اور شہریوں کو لا قا نیت سے بچانے کیلئے یہی رویہ اپنانا پڑا ہے، انھوں نے چالانوں کی حد بھی مقرر کر رکھی ہے۔

ہر حال میں ہر ٹریفک وارڈن مطلوبہ تعداد میں چالان کرے گا، اس چکر میں بیگناہوں کے بھی چالان ہورہے ہیں، مگر اس طرح امن وامان قابو میں رکھنے اور شہریوں کو لاقانونیت سے بچانے کی جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے نہ ان سرکاری افسران واہلکاروں کو احساس ہے نہ ہی دوسرے ریاستی اداروں کو ۔’’لمحے خطا کرتے ہیں اور صدیاں سزا پاتی ہیں‘‘ ۔ مگر یہ سوچ اُن ملکوں میں ہوتی ہے کہ جہاں صرف سیا ستدان نہیں بلکہ ’’ راہنما‘‘ بھی ہوتے ہیں اور یہاں تو کوئی بھی راہنما نہیں ہے۔ایسے واقعات وطن عزیز میں ہر جگہ اور ہر لمحہ رونما ہوتے رہتے ہیں، عوام کی بیزاری، بددلی اور لاتعلقی کے جذبات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے مگر کسی کے پاس یہ سب کچھ سوچنے یا سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہے، چند ہزار مفاد پرست ، لالچی اور بے ضمیر افراد نے پورے ملک کی عوام کو ایک خاص نہج تک پہنچا دیا ہے، اب حالات و واقعات وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا راستہ بھی نظر نہیںآتا۔

تمام سرکاری افسران اپنے آپ کو حاکم اعلیٰ سمجھتے ہیں
دنیا کے تمام مہذب ممالک میں شہریوں کو عزت، سُکون اور بہترین زندگی دینے کیلئے حکمت عملی طے کی جاتی ہے، سرکاری ملازمین کو ’’سول سرونٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے مگر یہاںہر سرکاری ملازم ’’ حاکم اعلیٰ ‘‘ اور فرعوں بنا ہوا ہے، سرکاری محکمے شہریوں کو سہولت دینے کیلئے بنائے جاتے ہیں مگر یہاں تمام محکمے ’’ اذیت ‘‘ دینے کیلئے قائم کئے گئے ہیں، دنیا کے تمام ممالک میں شہریوں کو ریاست سے بددل کرنے والے عناصر کو کسی معافی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں سرکاری افسران و اہلکا ر عوام کو انتہائی حقیر اور غلام سمجھتے ہیں۔

کسی بھی ریاست کے اصل ’’ اسٹیک ہولڈر ‘‘( مالک) عوام ہوتے ہیں ان کے تحفظ ، آسائشوں اور پُرسکون زندگی کیلئے تمام محکمے قائم کئے جاتے ہیں، عوام اس کے عوض ٹیکسوں کے ذریعے ان تمام سہولیات کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ عوام کی زندگی میں بہتری لانے اور انھیں مزید سہولتیں دینے کیلئے سرکاری، حکومتی مشینری کام کرتی ہے، ریاست چلانے کیلئے عوام میں سے بہتر افراد کو چنا جاتا ہے، عوام کے جذبات اور احساسات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر اُس کام سے اجتناب کیا جاتا ہے کہ جس سے فرد واحد کی دل آزاری ہو یا اس میں ریاست سے بددلی کے جذبات پیدا ہوں ۔ ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں افراد سے، سرکاری محکموں یا اداروں سے نہیں، موجودہ وزیراعظم عمران خان اس نقطے کو بخوبی سمجھتے بھی ہیں اور اسکی اہمیت سے بھی واقف ہیں وہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ اس کچلی ہوئی اور استحصال زدہ قوم کو ظلم و ناانصافی کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے سیاسی میدان میں آئے ہیں۔ مگر ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات اور بھی دگرگوں ہوچکے ہیں ۔ سرکاری افسران کی گردن کا سریا مزید سخت ہوچکا ہے۔

وطن عزیزپاکستان کا سب سے نازک مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان نسل ملکی ترقی کے معاملات سے لا تعلق ہو رہی ہے، نوجوانوں میں بد دلی اور بے چینی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں، نفسانفسی خودغرضی اور مفاد پرستی اپنے عروج پر ہے، اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور وطن سے محبت کی قطعاً قدر نہیں ہے، اور اس کی اصل وجہ عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ طاقت کے ذریعے ہمیشہ کچھ وقت کیلئے عوام کو دبایا جا سکتا ہے ۔ کسی نہ کسی وقت گرفت ڈھیلی ضرور ہوتی ہے اور پھر واپسی کا راستہ نہیں رہتا۔

زیادہ دبانے سے قوم پھٹ جاتی ہے یا مردہ ہوجاتی ہے
یہ نقطہ بھی نہایت اہم ہے کہ اگر ظلم و استحصال کی شکار قوم کی زندگی میں انقلاب آجائے اور وہ استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، نااہل سازشی، نالائق اور لالچی افراد سے ریاستی معاملات چھین کر خود اختیارات سنبھال کر بہتری لے آئے تو بعض اوقات ریاست اور عوام کے حق میں اچھا ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی قوم اس حد تک مایوس، بددل اور لا تعلق ہوجائے کہ وہ اپنی ہی بہتری کیلئے بھی نہ سوچیں تو یہ وہ مقام ِ فکر ہے کہ جہاں سب کو سوچنا پڑے گا کہ کیا قوم ’’ مردہ‘‘ تو نہیں ہوگی ’’احساس زیاں‘‘ بھی تو ختم نہیں ہوگیا۔ جبر کے اس نظام نے کیا گل کھلائے ہیں؟ سب کو سوچنا پڑے گا مگر سب سے بڑی ذمہ داری، حکومت، عدلیہ، طاقتور اداروں اور اہل دانش طبقات پر عائد ہوتی ہے۔

اس مسئلے کا حل سب کو سوچنا ہے، حکومت ِوقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آتش فشاں پھٹنے سے پہلے احتیاطی تدبیر کریں ’’ریاست مدینہ‘‘ کا ماڈل بنانے کیلئے سب سے پہلے فرد کے جذبات، احساسات ، محسوسات ، سہولیات اور ہر قسم کے تحفظ کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ حکومت نے ہر فرد کی خوشیوں کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہے، اپنے اختیارات کا بھی حساب دینا ہے ۔ جب سرکاری افسران و ملازمین عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا بازار گرم کرتے ہیں ،’’ تو بوتا کوئی ہے اور کاٹتاکوئی اور ہے‘‘۔ بیدار مغز حکمران اس نقطے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی اوّلین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ سرکاری عمّال کو حّدود میں رکھا جائے۔ ملکی اور ریاستی قوانین ہی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ سرکاری افسران و ملازمین کو بے مہار ہونے کا موقع نہ ملے۔

وطن عزیز پاکستان میں ریاستی استحکام کبھی بھی نہیں رہا جس کی وجہ سے یہاں دیرپا عوام دوست پالیسوں کا مفاد مکمل طور پر نہیں ہو سکا۔ اب بیوروکریٹس بھی اپنی لا بنگ کرتے ہیں، ہر سرکاری محکمے میں گروپ بندیاں ہو چکی ہیں، چالاک اور ہوشیار قسم کے بیوروکریٹس ریاست کی بجائے سیاسی افراد کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، سرکاری ملازمین کی سیاسی وابستگی کسی بھی ریاست میں مناسب نہیں سمجھی جاتی۔

ایک موجودہ بیوروکریٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت بیوروکریسی میں مداخلت کرتی ہے، نااہل ترین بندوں کی تعیناتیوں کیلئے سفارش کرتی ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کاعُذر سننا نہیں چاہتی، اگر کوئی بھی سفارشی اہلکار نااہلی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے متعلقہ افسران اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے۔ اس بیوروکریٹ نے برّملا کہا کہ موجودہ حکومت اس بات کا اعلان کردے کہ وہ سرکاری مشینری کو نہ ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرے گی اور نہ ہی بیوروکریسی میں کسی قسم کی مداخلت کرے گی ، تمام افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی ’’اے سی آر‘‘ (سالانہ خفیہ رپورٹ) پوری دیانتداری کے ساتھ تیار کرے، تاکہ اہل اور قابل افسران کو اوپر آنے کا موقع ملے، انھوں نے کہا کہ ہر دفتر میں سائلین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے افسران کو کسی بھی قسم کی اہم پوسٹنگ نہ دی جائے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری دفاتر میں بگاڑ بہت زیادہ پیدا ہو چکا ہے مگر ایک خاص حکمت عملی اور تدبیر سے آہستہ آہستہ یہ بگاڑ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری ملازمین کو یہ احساس دلانا اشد ضروری ہے کہ آپ کو عوام کی خدمت کیلئے سرکاری ملازمت پر رکھا گیا ہے اُن پر حاکمیت کیلئے اور آپ کی خدمات کے عوض آپ کو عوام کے پیسے سے ہی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، اگر کسی کوکوئی نجی ملازمت پر رکھتا ہے اور اس کا معاوضہ ادا کرتا ہے تو اس کی حکم عدولی کو سوچ بھی نہیں سکتا، اسی طرح سرکاری ملازمت کرنے والے افراد کا معاوضہ عوام اداکر رہی ہے ۔ مگر ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے؟ ریاستی طاقت کا استعمال ہمیشہ ریاست کو کمزور کرتا ہے۔

سرکاری اہلکاروں کے روّیے سے برسراقتدار طبقہ غیر مقبول ہوتا ہے
پاکستان کی عوام کی اکثریث حکومت اور ریاست میں فرق نہیں سمجھتی وہ سرکاری ملازمین اور بیورویسی کو ریاستی ملازم سمجھنے کی بجائے حکومت کا حصہ سمجھتے ہیں، جب یہ افسران و ملازمین عوام کے ساتھ بُرا روّیہ اپنائے رکھتے ہیں یا ان کے مسائل حل کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہیں تو لوگوں کے دِلوں میں حکومت سے بیزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، بیدار مغز حکمران ہمیشہ سرکاری مشینری کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے، موجودہ حکومت، وزیروں اور مشیروں کی فوج بھی بے لگام بیوروکریسی اور سرکاری افسران و ملازمین کو لگام ڈالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

تمام ریاستی اداروں میں احساس ذمہ داری اور عوام کے جذبات کو اہمیت دینے کا احساس پیدا کرنا ہوگا، عوام کو عزت دی جائے، ووٹر کو عزت دی جائے ،کچلے ہوئے طبقات کو عزت دی جائے، اور استحصال زدہ افراد کو عزت دے تاکہ سب اس وطن کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے اس کی سرفرازی کیلئے جدوجہد کر سکیں، اقتدار کے ایوانوں سے کبھی یہ آواز نہیں گوبجی کہ’’ شہریوں کو عزت دو‘ انھیں ان کا حق دو‘ اُنھیں بھی انسان سمجھو، ان کے احساسات اور محسوسات کی قدر کرو‘ ملک سے لُوٹی ہوئی ساری دولت انھیں واپس دو، اب اس مفتوح قوم کو آزادی دو، انھیں حقیقی خوشیاں اور سکون دو، اگر ہر شہری سے مجرموں والا سلوک کیا جائے گا تو اس کے اندر مثبت روّیہ اور مثبت سوچ کیسے پیدا ہوگی؟ سب کو اس کے متعلق سوچنا ہوگا۔

عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت ہے
اولاد، مال و دولت، اعلیٰ عہدے واختیارات، طاقت اور علِم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں ۔ اس امانت کو اُسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح اُس نے قرآن پاک کے ذریعے حکم دیا ہے، سنّت ﷺ اور احادیث موجود ہیں۔

صحابہ کرام ؓ کی زندگی مشعل راہ ہے، اولیا کرام ؒ کی تعلیمات موجود ہیں، جتنا بڑا عہدہ، جتنا زیادہ مال، جتنی زیادہ اولاد، جتنے زیادہ اختیارات، جتنی زیادہ طاقت، جتنا زیادہ علم اور جتنی زیادہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتیں، اُتنا ہی زیادہ حساب، اللہ تعالیٰ نے سرکاری افسران و اہلکاروں کو صاحب اختیار بنایا، یہ اختیارات اور عہدے اللہ کی امانت ہیں اگر لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی جائے۔ ان کے ساتھ حقارت انگیز سلوک کیا جائے، ان کی داد رسی نہ کی جائے، انھیں ریلیف نہ دیا جائے، تو گویا انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی نعمت کا بھی غلط استعمال کیا اس کی ناشکری اور نافرمانی کی اور ان خدمات کے عوض قوم سے اکٹھے کئے گئے ٹیکس سے جو تنخواہ مِلی اُسے بھی حرام کردیا۔

یہ بھی دین کا بنیادی فلسفہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی کام کیلئے اُجرّت لے کر وہ کام صحیح طریقے سے سر انجام نہ دے تو گویا اُس نے حرام کمایا، اپنے عہدے، اختیارات اور طاقت کا تو غلط استعمال کیا ہی، تنخواہ بھی جائز نہ رہی اوپر سے رشوت لیکر اللہ پاک کے غضب کو اور بھی دعوت دی، ’’حاکم اعلیٰ ‘ اور فرعون‘‘ بنے سرکاری ملازمین نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیںکی کہ اللہ تعالیٰ اس سے کس قدر ناراض ہوگا اور انھیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟ ہمارے اکابرین تو بیت المال کے تیل کی روشنی میں بھی اپنے ذاتی کام نہیں کرتے تھے، یہاں تو غریب قوم کی کمائی سے گل چھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی امانت میں ہر لمحہ خیانت کاآخر کار انجام کیا ہوگا؟، یہ کوئی بھی نہیں سوچتا۔

دنیا کی مظلوم ترین قوم
پاکستانی عوام دنیا کی سب سے مظلوم ترین قوم ہے۔ ایک یہاں برسر اقتدار رہنے والے تما م طبقات پہلے تو ملکی و سائل لُوٹ کر چٹ کرگئے، ملکی وسائل ختم ہوئے تو بیرونی حکومتوں سے قرض لی کر کھا گئے، پھر مزید قرضہ بھی ہڑپ کر گئے۔ پھر عوام کو مجبور کیا کہ لُوٹی ہوئے دولت کیلئے جو اندرونی اور بیرونی قرضے لئے گئے تھے اب وہ بے تحاشا ٹیکس ادا کرکے ان کا سُود ادا کریں ۔ عوام کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہے کہ وہ اپنی ’’خدمات ‘‘ کیلئے سرکاری افسران و اہلکاروں کی تنخواہوں کیلئے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اور اپنے جائز کام کروانے کیلئے انھیں بھاری رقومات بھی بطور رشوت ادا کرتے ہیں، اتنی ’’خدمات ‘‘ کے باوجود انھیں ہر جگہ ذلِت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے باوجود پاکستانی قوم سے مزید قربانیوں اور خدمات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، سیاستدانوں، بیوروکریسی اور بالادست طبقے کی خوشیوں اور انھیں ریلیف دینے کیلئے’’ مزید محنت ‘‘ کا درس دیا جا رہا ہے ۔ خوراک، علاج، تعلیم اور خوشیوں کیلئے ترسنے والی عوام سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ حاکموں، افسران اور بالادست طبقے کی عیاشیوں کیلئے مزید جدوجہد کریں گے۔

سونا چاندی نہیں افراد اہم ہوتے ہیں
ایک انگریزی نظم کے پہلے مصرعے کا اُردو ترجمہ ہے’’ سو نا نہیں بلکہ افراد ہی کسی قوم کوعظیم اور مضبوط بنا سکتے ہیں ‘‘ ہمیشہ اُس قوم نے ترقی کی ہے، جہاں عوام کو عزت دی جائے عوام کو ریاست کی ’’آنرشپ‘‘(ملکیت) کا احساس دلایا جائے۔ انھیں باور کروایا جائے کہ حکومت اُن کے مفادات کی نگہبان ہے، ’’ سول سرونٹ‘‘ اُن کی خدمت کیلئے ہیں۔ تمام قوانین ان کے تحفظ کیلئے ہیں ۔ ریاست کے اصل مالک ’’وہ ‘‘ ہیں ۔ قوموں کی ترقی میں افراد کی ہی اصل اہمیت ہوتی ہے۔ سکھِ برادری ہر سکھِ کو ایک فرد نہیں بلکہ ’’ سولکھ خالصہ ‘‘( سو لاکھ کے برابر) سمجھتی ہے۔ کسی بھی ریاست میں رہنے والی اقلیتی عوام کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو فوراً احساس ہوتا ہے کہ ہر کمیونٹی اپنے افراد کو خصوصی اہمیت و عزت دیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ترقی کے مراحل و منازل طے کرتی ہیں ۔ مگر وطن عزیز پاکستان میں ٹیکس دینے والی عوام کو مفتوح قوم سمجھ کر وہ غلامانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ جس کا مہذب دنیا میں تصور بھی نہیںکیا جا سکتا ، عوام کو ہر سرکاری دفتر میں دھتکارا جاتا ہے۔ حقارت انگیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس سلوک کو ہماری عمومی زندگی کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے ۔ مگر کئی ’’ دانشور ‘‘ اپنی تحریروں میں اس بات کا گِلہ کرتے ہیں کہ پتہ نہیں قوم بے حِس اور بیزار کیوں ہو چکی ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام’جمہوری ‘ ہے نہ ’ اسلامی‘
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بہت سے قوانین اسلامی احکامات سے متصادم ہیں۔ جمہوریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود عوام کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں ہے۔ بادشاہت میں تو صرف چند افراد ہی عوام پر حکومت کرتے ہیں یہاں ہر منتخب نمائندہ، سرکاری ملازم ، ہر جاگیردار، سردار، زمیندار، ہر طاقتور، ہر بدمعاش، ہر ظالم ، ہر استحصالی عوام پر’’ حکومت ‘‘ کرتا نظر آتا ہے۔ اس وقت ملکی خزانے لُوٹنے والوں کیلئے مقدمات چلانے، انصاف اور سزاء کی جو مثالیں قائم کی گئی ہیں، اس کچلی ہوئی عوام پر اس کے کیا ’’اثرات‘‘ مرتب ہو رہے ہیں؟ کوئی سوچتا بھی نہیںہے۔

وہ شہر جو ہم سے چھوٹا تھا
بہت سال گزرے پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ جوکہ امریکہ میں مقیم تھے، کا کسی اخبار کے سنڈے میگزین میں انٹرویو پڑھ رہا تھا۔ انٹرویو نِگار نے آخری سوال پوچھا کہ وہ پاکستان واپس کیوں نہیں آجاتے، انھوں نے بڑے دّکھ سے جواب دیا کہ عمر کے جس حصے میں ہوں اس عمر میں سکون، سہولیات اور تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان میں تو نہیں مل سکتے، ان کے یہ الفاظ آج تک مجھے یاد ہیں ۔ ایک دفعہ بیرونِ ملک مقیم ایک پاکستانی ماہر ِ تعلیم سے ملاقات ہوئی اُسے کہا کہ وہ پاکستان واپس آ کر ملک کی خدمت کرے، اُس نے کہا ’’ کہ اپنی پہچان، اپنا دیس اور اپنوں کو چھوڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے ہر تارکین وطن سے پوچھ کر دیکھیں۔ ہم اس وطن کے شہری ضرور تھے، مگر وہ وطن ہمارا نہیں تھا اُن چند ہزار افراد کا تھا اور ہے، کہ جو ملک اور لوگوں کی تقدیر کے مالک ہیں جن کی مرضی کے بغیر وہاں کچھ نہیں ہوتا، جس دن وہاں شہریوں کو عزت، حقوق اور آسودگی حاصل ہو جائے گی، ہر پاکستانی وطن واپس آجائے گا، چاہے اُسے کتنی ہی کم تنخواہ ملیِ، تارکین وطن زرمبادلہ ملک بھجوا کر ملک کی کس قدر خدمت کر رہے ہیں مگر انھیں اس کا کریڈٹ کیا ملتا ہے؟ ہم یہاں دونمبر کے شہری ہیں مگر اپنے وطن جا کر تین نمبر کے شہری بن جاتے ہیں کیونکہ پردیس میں رہنے کی وجہ سے وہاں ہمارے ’’ اعلیٰ سطحی ‘‘ تعلقات نہیں ہوتے اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا کوئی جائزکام بھی نہیں ہوتا ۔۔

ریٹائرڈ اعلیٰ پولیس افسر کا پچھتاوہ
ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ایک پولیس افسر کے پاس بیٹھا تھا، باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ دوران ملازمت ہر لمحہ احساس رہا کہ غریب، مظلوم اور استحصال کا نشانہ بننے والی عوام کے ساتھ بہت ہی ناانصافی اور ظلم ہوتا ہے،ان کا استحصال ہوتا ہے۔ میں نے اگرچہ بہت کوشش کی کہ مظلوم کے ساتھ ناانصافی نہ ہو مگر ہمارا سِسٹم ایسا ہے کہ طاقتور اور بالادست طبقہ صرف اپنی مرضی کا انصاف اور فیصلے چاہتا ہے، کوئی پولیس افسر جتنا بھی ایماندار کیوں نہ ہو کسی نہ کسی مقام پر وہ مجبور ہو جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں اگر آج لا تعداد مسائل اور مشکلات موجود ہیں تو اس کی اصل وجہ صرف یہی ہے کہ صاحب اختیار کو اللہ پاک کاخوف نہیں ہے، وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر کسی کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہوگی توکیا وہ ریاست کا ’’ وفادار‘‘ رہے گا؟ یااس کے دل و دماغ میں منفی خیالات پیدا ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔