سورۂ فاتحہ : کلیدِ شفاء و نجات

پروفیسر تفاخُر محمود گوندل  جمعـء 19 جولائی 2019
یہ بابرکت سورہ، صاحبانِ ایمان کوایک ایسا روح پرور دعائیہ انداز سکھاتی ہے جو بڑا ہی حقیقت پسندانہ اور حلاوت انگیز ہے۔ فوٹو: فائل

یہ بابرکت سورہ، صاحبانِ ایمان کوایک ایسا روح پرور دعائیہ انداز سکھاتی ہے جو بڑا ہی حقیقت پسندانہ اور حلاوت انگیز ہے۔ فوٹو: فائل

مسلمانوں کا ضابطۂ حیات قرآن حکیم، ایک ایسا گراں بہا اور نادر الوجود صحیفۂ آسمانی ہے، جس کا ہر ایک لفظ جامعیت و معنویت کا بحر بے پیدا کنار ہے۔

قرآن حکیم کی چھوٹی سورت ہو یا بڑی، پیروان اسلام کو فلاح دنیوی اور نجات اخروی کا پیغام دے رہی ہے۔ ان تمام چھوٹی اور بڑی سورتوں کی شان نزول ایک خاص پس منظر رکھتی ہے۔ قرآن حکیم کو ’’احسن القصص‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ مگر انبیائے کرام علیہم السلام سے متعلق حقیقت پر مبنی بعض داستانیں محض لطافت طبع کے لیے نہیں ہیں، بل کہ ان کے آغاز یا اختتام پر ان کا بامقصد شان نزول بیان کیا گیا ہے اور موجود ہوتا ہے۔

اس بے بدل اور ذی شان کتاب اللہ کا آغاز ایک ایسی بامقصد اور حیات آفرین سورۃ سے کیا گیا ہے، جس کے مقصدِ نزول کی توضیحات و تشریحات کرتے کرتے مُفسّرین و مجتہدین کے کِلک ہائے گہر بار خستگی و درماندگی کا شکار ہونے لگے۔ تَخیّل کی اڑان میں نقاہت پیدا ہونے لگی۔ لکھتے لکھتے قوی ضعف و اضمحلال کی نذر ہونے لگے۔ روشنائی کے استعمال سے بڑے بڑے عمیق سمندر پایاب ہونے لگے۔ معنوی و صوری اعتبار سے ذخیرۂ الفاظ سمٹتا نظر آنے لگا، مگر اس پُرکیف اور دل پذیر سورۃٔ فاتحہ (جسے مفسرین و فضلائے متین برملا کلیدِ شفا سے تعبیر کرتے ہیں) کے نزول کا پس منظر اور اس کا جلال و کمال رقم کرنے سے عاجز رہے۔ تقابل ادیان میں قرآن کا یہی اعجاز تو اسے دیگر تمام صحائف آسمانی سے ممیز و معتبر کرتا ہے۔

ایجاز و بلاغت وہ کہ اعجاز ہی اعجاز

اجمال وہ دل کش کہ فدا جس پہ تفصیل

سورۂ فاتحہ کو کیوں کلیدِ نجات و شفا کہا گیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی بلاغت و تفحض الفاظ کے بحر بیکراں میں غواصی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک معمولی سُدھ بُدھ رکھنے والا سطح بین انسان بھی اس کی مقصدیت پر تدبّر و تفکّر کرسکتا ہے۔ اس کا آغاز ہی خدائے بزرگ و برتَر کی وجد آگیں توصیف و ثناء سے ہوا ہے۔ تمام تعریفیں اس خالق و مالک کُل کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ آغاز اتنا پُرکیف، اتنا پُر از سطوت و جلال ہے کہ بڑے سے بڑا صاحب رعونت و خشونت بھی اس آیت کریمہ کی تلاوت سے لرزا ٹھتا ہے۔ اس کے دل و دماغ سے خود پسندی اور تمکنت و غرور کے تمام سوتے خشک ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ خیال ذہن سے نکال دینے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ میں‘‘ بھی اپنی مرضی سے کسی کے لیے نفع و ضرر کا باعث بن سکتا ہوں۔

زیادہ سے زیادہ وقت کا کوئی ہامان یہی دعویٰ کرسکتا ہے کہ اپنے کسی مخالف کے لیے قاطع لذّت کام و دہن بن سکتا ہو ۔ مگر سورۂ فاتحہ کے اس فاتحانہ آغاز سے وہ لرز جاتا ہے کہ ثناء خوانی اسی کو زیبا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اب جہان کتنے ہیں ؟ یہ زمانے کے بڑے بڑے افلاطون، محقّق اور دانش ور ابھی تک تعین نہیں کر پائے اور حیرت و استعجاب کی وادی میں کھوئے ہوئے ہیں۔ یہ بڑا ہی بلیغ بحث کا متقاضی موضوع ہے۔ آگے کی آیت خدائے عز و جل کی شان غفور الرحیمی کا ایسا زندگی بخش اظہار ہے، جو ایک متذبذب اور بے قرار انسان کو دولت طمانیت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اللہ نے اپنے رب ہونے اور مُجرّد اپنی ذات کو قابل ستائش قرار دینے کے بعد نوید رحمت فردوس گوش بناتے ہوئے فرمایا کہ جو میرا مُتوکّل بندہ فقط مجھے ہی لائق و سزاوار حمد و ثناء سمجھ لے گا، اس کے لیے میرے کرم کا دائمی در فیض باز ہوجائے گا۔ وہ میری شانِ عفو درگزر اور بے پایاں رحمت سے حتماً اور لازماً بہرہ اندوز ہوگا۔

یارب تیرے کرم کا درفیض باز ہے

بندہ نیاز مند ہے، تُو بے نیاز ہے

آگے کی آیت کریمہ میں پھر اللہ کی شان جلالت و کبریائی حدود اللہ سے نکل جانے والوں کو لرزا رہی ہے کہ میرے بندے کہیں کسی غلط فہمی کا شکار ہوکر دنیا کوایک چراگاہ سمجھ کر حقوق العباد اور حقوق اللہ کو بے دریغ پامال کرنا نہ شروع کردیں اور اپنے آپ کو طاغوتی قوتوں کا غلام نہ بنا ڈالیں۔ اس لیے بڑے پُرجلال انداز میں یہ اعلان فرمایا: خبردار! میں مالک یوم الدّین ہوں۔ اس لیے دلدادۂ مجاز بننے کی کوشش نہ کرنا بل کہ حقائق کو مدنظر رکھنا کہ ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔

سورۂ فاتحہ کا یہ حکیمانہ انداز آغاز ہی سے ایک منفرد شان کا حامل قرار دے رہا ہے۔ جب اللہ کا ایک عاجز بندہ آغاز کے تین بڑے نکات ذہن میں راسخ کرلیتا ہے تو پھر اسے باور کروایا جارہا ہے کہ جو ربِ کائنات پروردگار کُل، رحمٰن و رحیم اور قیامت کے دن کا مالک ہے وہی ہر قسم کی عبادت کے لایق بھی ہے۔ عبادت بھی اسی کی اور استعانت بھی اسی رب ذوالجلال سے طلب کرنا ہے ۔ اگر تم نے استعانت و عبادت کے لیے کسی اور عاجز و بے بس ہستی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو میری شان رحمت قہاری و جبروت میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس لیے مصائب و آلام کی آندھیوں میں یا عالم تعیشات میں عبادت و مدد کے لیے میری طرف ہی رجوع کرنا ہے۔ انسان کا تخیّل اس عقیدے کا حامل بن جائے کہ

کسی کے سامنے جا کر نہ ہاتھ پھیلاؤں

میرا کریم تو دیتا ہے بے حساب مجھے

اب یہ بابرکت سورہ صاحبانِ ایمان کوایک ایسا روح پرور دعائیہ انداز سکھا رہی ہے جو بڑا ہی حقیقت پسندانہ اور حلاوت انگیز ہے۔ فرمایا گیا ہے: اللہ کے حضور دست دعا بلند کرو اور دنیاوی آلائشوں اور طاغوتی کیچڑ اور دلدل سے بچنے کے لیے کہو: اے بارالہٰی! ہمیں صراط مستقیم عطا کر۔

وہ صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو حرزجاں بناکر اللہ کے نیک بندے اس کی بے کراں نعمتوں کے مستحق ٹھہرے۔ جن پر اس کے اتنی لامحدود و بے پایاں نعمتوں کی بارش ہوئی کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ’’ آگاہ ہو جاؤ اللہ کے ولیوں کو دنیا اور عاقبت میں حزن و ملال نہیں ہوگا۔ اور آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ دعا بھی ضرور مانگو کہ اے خالق کُل ہمیں اس راستے سے دائمی بچا کر رکھنا جس پر چل کر عاقبت نااندیش لوگ تیرے غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ سورۃ فاتحہ کے ان جامع مضامین پر نگاہ ڈالنے سے اس کے عمق اور قرینہ ہائے نزول کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسے فی الواقع کیوں کلیدِ شفا و نجات کہا گیا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور اپنے کلام سے ہمیں شفایاب فرماتے ہوئے ہماری راہیں روشن رکھے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔