رحمٰن کے بندے ۔۔۔۔ !

مفتی عبداللطیف  جمعـء 19 جولائی 2019
پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں کہ جہنم سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کا آدھا ٹکڑا صدقہ کرکے اپنے آپ کو بچالو۔ فوٹو: فائل

پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں کہ جہنم سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کا آدھا ٹکڑا صدقہ کرکے اپنے آپ کو بچالو۔ فوٹو: فائل

سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو سجدوں اور قیام کی حالت میں راتیں گزارتے ہیں۔ مومن اپنی زندگی پر غور کرے کہ اس کی راتیں کیسے گزرتی ہیں۔ کتنے ایسے وہ لوگ ہیں جو پریشانی میں مبتلا ہیں، نیند نہیں آتی، مُٹھی بھر خواب آور گولیاں کھا کر سوتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ جب کسی پریشانی میں ہوتے تو نماز میں مصروف ہو جاتے تھے، کیوں کہ آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ دن کی گھڑیوں میں انسان مصروف ہو جاتا ہے مگر رات کو جب لوگ سو جاتے ہیں تب یہ اپنے رب کے ساتھ لو لگاتا ہے۔ جنّت کی لالچ ہوتی ہے۔ اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ اللہ کو پکارتے ہیں اور جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس کو خرچ کرکے جہنّم سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں کہ جہنم سے بچنے کی کوشش کرو چاہے کھجور کا آدھا ٹکڑا صدقہ کرکے اپنے آپ کو بچالو۔ اللہ فرماتے ہیں کہ متّقی جنّتوں میں ہوں گے۔ ان کا وصف یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ محسنین میں سے تھے۔ رات کی تنہائیوں میں سحری کے اوقات میں اٹھ کر اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ جس بندے نے نماز عشاء جماعت کے ساتھ ادا کی اُس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ آدھی رات تک تہجد پڑھتا رہا اور جس نے عشاء کے بعد فجر کی نماز بھی باجماعت ادا کی گویا کہ اُس نے ساری رات تہجد پڑھی۔ کتنے لوگ آج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہ وصف مجھ میں موجود ہے۔ دراصل انسان کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔

بلاشبہ تہجد متّقیوں کا وصف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو ایک صحابیؓ نے بتایا کہ فلاں شخص تہجد بھی پڑھتا ہے اور چوری بھی کرتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ سچ ہے کہ وہ شخص تہجد بھی پڑھتا ہے اور چوری بھی کرتا ہے تو میں ضمانت دیتا ہوں اگر وہ تہجد کی پابندی جاری رکھے تو اس کی چوری اور دیگر گناہوں سے چھٹکارا ہو جائے گا۔ کچھ دنوں بعد صحابیؓ دوبارہ تشریف لائے اور بتایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ واقعتا اس شخص نے گناہوں سے توبہ کرلی ہے۔

رات کا قیام انسان کو گناہوں سے روک دیتا ہے۔ ہم غور کریں کہ رمضان میں ہم نے تراویح پڑھی، رات کے کچھ حصے میں نوافل پڑھے، لیکن رمضان کے بعد اللہ کے قریب کیوں نہیں ہو رہے، اللہ سے کثرت سے معافی کیوں نہیں مانگتے۔ رسول اللہ ﷺ نے رات کی ابتداء میں بھی تہجد پڑھی، رات کے درمیان میں اور رات کے آخری حصے میں بھی پڑھنا سنّت ہے۔ رات کا قیام اللہ کا قُرب نصیب کرتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ قیامت کے روز مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔

ان پر جو لباس ہے وہ گندھک کا ہے، جس سے آگ جلدی لگتی ہے۔ ان کو ٹانگوں سے پکڑ کر منہ کے بل گھسیٹا جائے گا۔ جب کہ مومنین نیکیاں کرنے کے باوجود جہنّم سے بچنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو انسان دن میں تین مرتبہ جہنّم سے پناہ کی دعائیں مانگتا ہے تو جہنّم خود رب کائنات سے کہتی ہے کہ یااللہ! اس بندے کو مجھ سے محفوظ رکھ ، اس انسان کو مجھ سے بچالے۔ وہ جہنّم جس کے ساتھ ستّر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستّر ہزار فرشتے اسے کھینچ رہے ہیں، مگر پھر بھی وہ بندوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سو ہمیں زیادہ سے زیادہ جہنّم سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

رحمان کے بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو بخل کرتے ہیں اور نہ اسراف، بل کہ اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ ان کے معاملات بہت درست ہوتے ہیں۔ اپنے رب سے دعائیں کرتے ہیں کہ یااللہ! جہنّم سے آزادی دینا۔ رحمٰن کے بندوں کا خرچ بڑے اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے۔ فضول خرچی سے پاک ہوتا ہے۔ ہم شادی بیاہ پر ضرورت سے زیادہ خرچتے ہیں۔

جہاں دو کھانوں سے کام چل سکتا ہے وہاں درجنوں ڈشیں پکائی جاتی ہیں۔ کبھی اس اسراف کے متعلق ہم نے سوچا ؟ کپڑے خریدتے وقت اسراف سے کام لیتے ہیں۔ حالاں کہ حکم ہے کھاؤ پیو اور صدقہ کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو پہلی چیز انسان کو بچانے والی ہے وہ یہ ہے کہ انسان پوشیدہ طور پر اور اعلانیہ طور پر ہر جگہ اللہ سے ڈرے۔ دوسری چیز انسان کو غربت میں اور امیری میں ہر حال میں میانہ روی سے چلنا چاہیے۔ یہ کام یاب لوگ ہیں۔

اسی طرح فرمایا کہ اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ ناحق کسی کو قتل نہیں کرتے۔ آج افسوس ناک صورت حال ہے کہ کوئی کسی دوسرے کو کافر کہہ کر قتل کر دیتا ہے۔ خُودکَش حملے یہ کہہ کر کیے جاتے ہیں کہ یہ مُرتد ہیں۔ یہ خوارج کی علامت ہے۔ یہ دنیا کے بدترین لوگ ہیں۔ آج دنیا میں اس گناہ کو فیشن بنا دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنا خواب بیان فرمایا کہ ایک بہت بڑا تندور ہے، جس میں آگ جل رہی ہے جو نیچے سے کُھلا ہوا اور اوپر سے اس کا منہ تنگ ہے۔ اس میں جلنے والے مرد اور عورتیں ہیں اور وہ سب عریاں ہیں۔ پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا یہ سب زانی تھے۔ اللہ نے ان کو قیامت تک کے لیے یہ سزا دی ہے۔ لہٰذا رحمٰن کے بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے۔ شرک نہیں کرتے۔ قتل نہیں کرتے۔ زنا نہیں کرتے۔ اسراف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رحمٰن کا بندہ بننے کی صفات اپنانے کی توفیق دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔