دوست نوازی کے شوق میں بازی ہاتھ سے نکل گئی

سلیم خالق  ہفتہ 14 ستمبر 2013
 کپتان اور مینجمنٹ کی من مانیاں، غلط فیصلے لے ڈوبے ۔ فوٹو : فائل

کپتان اور مینجمنٹ کی من مانیاں، غلط فیصلے لے ڈوبے ۔ فوٹو : فائل

 ’’کسی کمزور ٹیم کومضبوط بنانا ہو تو اس کے پاکستان سے میچز رکھ دیں، یہ دنیا کی واحد سائیڈ ہے جس کی ہر سیریز میں نئے پلیئرز اُبھرکر سامنے آتے ہیں۔

البتہ ان کا تعلق حریف اسکواڈ سے ہوتا ہے‘‘گرین کیپس کے بارے میں عام شائقین کے یہ تاثرات کسی حد تک ٹھیک بھی ہیں، ہم نے ورلڈکپ کا میچ ہار کر بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلایا اور اب زمبابوین ٹیم ہماری مہربانی سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی،پانیان گرا کا ہمارے بیٹسمینوں نے ایسے سامنا کیا جیسے میک گرا کو کھیل رہے ہوں، ٹینڈائی چتاراکو بھی اس سیریز سے قبل کوئی جانتا تک نہ تھا مگر اب دونوں بہترین ٹیسٹ بولرز کے روپ میں سامنے آئے، ایک ون ڈے کی ہار اتفاق ہو سکتی ہے مگر دوسرے ٹیسٹ میں جس طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ لمحہ فکریہ ہے۔دونوں میچز میں میزبان نے برتری حاصل کی جس سے اس کے حاوی رہنے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی زمبابوین سائیڈ کو حال ہی میں کئی اسٹارز کے بغیر بھی بھارت نے بآسانی قابو کرلیا تھا لہٰذا راتوں رات اس کی کارکردگی میں ڈرامائی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

اس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہماری کرکٹ بہت پیچھے چلی گئی اور اب کمزور ٹیمیں بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ کھیلوں میں ہر جیت کی یقینا اہمیت ہوتی ہے مگر بہتر مستقبل کے لیے بعض اوقات خطرات بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب ہماری ٹیم اس مقام پر پہنچ گئی کہ زمبابوے کو ہرانے کے لیے سینئرز کی فوج لے جانا پڑتی ہے۔ بھارت نے نوجوان کھلاڑیوں کو آزمایا اور نئے کپتان کو گروم کیا جس کا اسے مستقبل میں فائدہ ہو گا۔ پاکستان نے حال کو بہتر رکھنے کے لیے مستقبل کا نہ سوچا جس کی وجہ سے اب کچھ ہاتھ آیا نہ ہی کوئی ایک نوجوان بھی اُبھر کر سامنے آ سکا البتہ دوستیاں خوب نبھائی گئیں۔

کپتان نے اپنے دیرینہ ساتھی حفیظ کو ٹیسٹ ٹیم میں سیٹ کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر انھوں نے کچھ کر کے نہ دیا۔4 اننگز میں مجموعی طور پر وہ59 رنز بنا سکے۔ پورے سال میں ان کے ٹیسٹ رنزکی تعداد102ہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ٹیل اینڈر سعید اجمل ان سے زیادہ 127رنز اسکور کر چکے ہیں۔ حفیظ نے کوئی ففٹی نہیں بنائی۔اس کے باوجود سلیکٹرز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انھیں پتا ہے کہ اس سے اچھی کوئی نوکری نہیں مل سکتی جہاں سال میں چند ٹیمیں منتخب کرنے پر لاکھوں روپے اکاؤنٹ میں آئیں۔ ہر ماہ بھاری رقم کا چیک کسے بُرالگتا ہے، اسی وجہ سے سلیکشن کمیٹی کے ارکان آنکھیں بندکر کے جو کپتان اور ٹیم مینجمنٹ کہے اس پر عمل کر لیتے ہیں۔

سابق چیف سلیکٹر اقبال  قاسم  پھر  بھی تھوڑی بہت بحث کر لیتے تھے مگر جب سے انھوں نے عہدہ چھوڑا بیچارے دیگرسلیکٹرز کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں رہی، جب تک سلیکشن کمیٹی میں بڑے نام نہیں شامل کیے جاتے کپتان و کوچ ایسے ہی من مانیاں کرتے رہیں گے۔ اگر ظہیر عباس یا عامر سہیل کے معیار کا کوئی کھلاڑی چیف سلیکٹر بنے تو وہ اپنی بات منوا بھی سکے گا۔ حالیہ سیریز کے لیے اگر میرٹ پر انتخاب ہوتا تو حفیظ ٹیسٹ ٹیم میں شامل نہ ہوتے۔

پلیئنگ الیون بھی درست نہ چنی گئی۔ جاوید میانداد پاکستان کے عظیم کرکٹر رہے ہیں مگر ملکی کرکٹ کی کئی اعلیٰ شخصیات انھیں پسند نہیں کرتیں۔ ان کا زور میانداد پر تو چلتا نہیں وہ فیصل اقبال پر نزلہ گرا دیتے ہیں۔ ذرا مصباح سے پوچھا جائے کہ کیوں گذشتہ کئی ٹورز کے دوران ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے والے اس بیٹسمین کو نہیں کھلایا گیا۔ماضی میں بڑی ٹیموں کیخلاف بھی فیصل نے عمدہ پرفارم کیا۔ اب وہ مختلف ممالک کی سیر کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بار جب یقینی تھا کہ انھیں چانس مل جائے گا تو محمد ایوب ڈوگر کا ڈیبیو کرا دیا گیا، وہ نجانے اب کہاں گم ہو چکے ہیں۔ زمبابوے سے صرف2ٹیسٹ کی سیریز ہوئی، اس میں اگر کوئی پلیئر پہلے میچ میں ناکام رہا تو اگلے میں اسے بٹھا کر کسی اور کو چانس دینا چاہیے تھا۔

اگر ایک ہی الیون کھلانی تھی تو15 کھلاڑیوں کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ شان مسعود نے زمبابوے جاکر کیا حاصل کیا، حفیظ کو ادھوری فٹنس کے باوجود پہلا ٹیسٹ کیوں کھلایا گیا، کیا اس سے نوجوان بیٹسمین کی حق تلفی نہیں ہوئی؟ اس میچ میں نائب کپتان نے بولنگ نہیں کی، مصباح نے یونس خان تک کو آزمایا مگر حفیظ کی ضرورت محسوس نہ کی یہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ وہ مکمل فٹ نہ تھے مگر انھیں ڈر تھا کہ اگر کہیں شان نے ڈیبیو پر بڑی اننگز کھیل دی تو ان کے لیے مصیبت پڑ جائے گی۔اسی طرح اسد شفیق نے آخری7 ٹیسٹ اننگز میں صرف74 رنز بنائے اس کے باوجود انھیں مسلسل کھلایا گیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فیصل کو نہ آزمانے کا پہلے سے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ اظہر علی نے ٹیسٹ کیریئر کا عمدہ آغاز کیا اور ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کو جم کر کھیلنے والا ایک مضبوط بیٹسمین مل چکا، مگر اب ان کا کھیل بھی روبہ زوال ہے۔

حالیہ سیریز کے دوران بعض اوقات وہ جس طرح بولڈ ہوئے اس سے ان کی تکنیک پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکا۔ زمبابوے کیخلاف وہ محض ایک بڑی اننگز کھیل سکے۔ رواں سال انھوں نے 21 کی معمولی اوسط سے رنز بنائے۔ دراصل یہ ہمارا ہی قصور ہے۔ پلیئرز کو متواتر کھلا کر یہ احساس دلا دیتے ہیں کہ ٹیم میں اب جگہ پکی ہو چکی، اس سے وہ محنت کرنا چھوڑ دیتا اور پرفارمنس پر اثر پڑتا ہے۔اگر بیک اپ کھلاڑیوںکو بھی آزمائیں تو سب پر تلوار لٹکی رہے گی کہ پرفارم نہ کیا تو ڈراپ ہو جائیں گے۔ مقابلے بازی کی اس فضا سے ٹیم کو فائدہ ہو گا۔

پاکستان کے اوپننگ مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، حالیہ سیریز میں 13،17،29اور30رنز کے آغاز مل سکے، خرم منظور ابتدائی میچ میں ناکام رہے مگر دوسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں ففٹیز بنائیں، گوکہ انھوں نے اچھی اننگز کھیلیں مگر اوپنر کا کام صرف 50رنز بنانا نہیں، انھیں اپنے اسکور کو آگے بڑھانا سیکھنا چاہیے، چند چوکے تو ٹیل اینڈرز بھی لگا دیتے ہیں، اصل کارنامہ سنچریاں بنانا ہے، اگر وہ خود کو طویل عرصے تک ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں تو کھیل میں ٹمپرامنٹ لاکر بڑی اننگز سجانی ہوں گی۔ حالیہ سیریز میں یونس خان کا کھیل شاندار رہا، انھوں نے پہلے ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنا کر ٹیم کی مشکلات کم کیں،اب ان کے حامیوں نے انھیں دوبارہ ون ڈے میں لانے کی باتیں شروع کر دی ہیں،ایسا کسی صورت نہیں کرنا چاہیے، یونس صرف ٹیسٹ کے اچھے کھلاڑی ہیں انھیں اسی تک محدود رکھ کر محدود اوورز کے میچز میں عمر اکمل جیسے باصلاحیت نوجوانوں کو ہی کھلانا چاہیے۔

کپتان مصباح نے شاندار فارم کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے زمبابوے کیخلاف بھی اچھی بیٹنگ کی، دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے79رنز ناٹ آؤٹ بنائے مگر دوسرے اینڈ سے سپورٹ نہ ملنے کے بعد ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کرا سکے، اس میں ان کا بھی قصور ہے، جب آخری پلیئر کریز پر آیا تو انھیں اس سے بات کرنا چاہیے تھا کہ اندھا دھند نہ بھاگنا، اگلے اوور میں سنگل لے کر اسٹرائیک دینے کی کوشش کرنا، انھوں نے ایسا نہ کیا جس سے راحت علی ناممکن رن لیتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے، یوں مصباح تو ناٹ آؤٹ واپس گئے مگر ٹیم ہار گئی۔ ٹیم کی خراب کارکردگی نے مصباح کو فرسٹریشن کا شکار بھی کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں وہ نوجوانوں کو آزمانے کا مطالبہ کرنے والوں پر برس پڑے اور انھیں ’’گندے لوگ‘‘ تک قرار دے دیا، حالانکہ اس سیریز میں ینگسٹرز کو کھلانے کا مستقبل میں فائدہ ہی ہونا تھا، اب جنوبی افریقہ کیخلاف کیسے کسی نئے کھلاڑی کی صلاحیتوں کو پرکھا جا سکے گا، بڑے ناموں کے باوجود پاکستان ایک ون ڈے اور ٹیسٹ ہار گیا، کپتان کو اس بات پر زعم تھا کہ ان جیسے سینئرز نے پہلے ٹیسٹ میں ناکامی سے بچایا، دوسرے میچ میں تو ان سب کی موجودگی میں ہار ملی، اب وہ کیا کہیں گے، جب ہارنا ہی تھا تو کیوں نہ نئے کھلاڑیوں کو ہی آزما لیا جاتا، بہرحال یہ دور ہی ایسا ہے کسی کو تنقید برداشت نہیں، اگر ٹیم کی بھلائی کے لیے سابق کرکٹرز و دیگر افراد کوئی بات کہہ دیں تو انھیں اس طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے، حالانکہ سب کا مقصد ٹیم کی بہتری ہوتا ہے، مصباح یاد رکھیںکہ ایک دن انہوں نے بھی سابق کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہونا ہے۔

وہ وقت زیاد دور نہیں جب کپتان بھی دیگر سابق کرکٹرز کی طرح کمنٹری یا پھر کسی چینل پر تبصرے کرتے دکھائی دیں گے، ایسے میں یقینا انھیں پلیئرز پر تنقید بھی کرنا ہو گی، یوں ان کی باتیں بھی لوگوں کوگراں گذریں گی اور کوئی ایسے ہی نازیبا کمنٹس دیتا دکھائی دے گا۔.

پاکستان کی ایک اچھے وکٹ کیپر بیٹسمین کی تلاش نجانے کب ختم ہو گی، ماضی میں راشد لطیف اور معین خان جیسے باصلاحیت کرکٹرز نہ صرف عمدہ وکٹ کیپنگ بلکہ بیٹنگ میں بھی کارنامے انجام دیتے دکھائی دیتے تھے، کامران اکمل نے بھی ٹیم کے لیے خدمات انجام دیں،اب ان کے بھائی عدنان کھیل رہے ہیں مگر ان کی بیٹنگ غیرمعمولی نہیں، حالیہ سیریز میں گوکہ انھوں نے ایک اچھی اننگز کھیلی مگر یہ کافی نہیں، ہمیں ایسا پلیئر چاہیے جو دونوں شعبوں میں بہترین ہو ، نجانے یہ تلاش کب ختم ہو گی۔

پاکستانی پیس اٹیک کی کارکردگی اس سیریز میں مناسب رہی، جنید خان اور راحت علی نے چند اچھے اسپیلز کیے، ہمیں ان سے وسیم اکرم اور وقار یونس جیسی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں جو اگر 5 وکٹیں لیتے تو حریف ٹیم 100رنز بھی نہیں بنا پاتی تھی، یہ دونوں نوجوان ہیں اور اگر بولنگ کا معیار برقرار رکھا تو مستقبل میں مزید کارآمد ثابت ہوں گے، سعید اجمل نے ٹیسٹ میں اپنی اہمیت ایک بار پھر منواتے ہوئے سیریز میں 14 وکٹیں حاصل کیں، عبدالرحمان کا کھیل بھی مناسب رہا، یہ دونوں اسپنرز جنوبی افریقہ کیخلاف خاصے اہم ثابت ہوں گے، پی سی بی یقیناً سیریز کے لیے اسپن پچز تیار کرائے گا، وہاں سعید اور عبدالرحمان حریف بیٹسمینوں کو جینا دوبھر کر سکتے ہیں۔ حالیہ سیریز سے پاکستان کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا، پروٹیز کیخلاف اہم مقابلوں سے قبل یہ شکست اعتماد میں کمی کا باعث بن سکتی ہے، ایسے میں پلیئرز کو جلد اس ناکامی کے اثر سے نکالنا مینجمنٹ کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔

پی سی بی میں ان دنوں خاموشی چھائی ہوئی ہے، نگراں چیئرمین نجم سیٹھی کو 3ماہ میں انتخابات کرانے کا ٹاسک ملا مگر انھوں نے اس میں سے اچھا خاصا وقت اختیارات میں کمی کا رونا رو کر گذار دیا، اس کے بعد وہ ٹی وی رائٹس کے معاملے سے خود کو الگ ثابت کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے، اب ان کی واپسی ہوئی تو عدالت میں پیشی کی تاریخ بھی قریب آچکی، اس موقع پر جب ان سے انتخابات کے حوالے سے پوچھا جائے گا تو نجانے کیا جواب دیں گے، ویسے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پی سی بی میں ان کا جو کردار تھا وہ پورا کر چکے اور اب کسی نئی شخصیت کو چیئرمین بنانے کی تیاری ہو رہی ہے،اصل صورتحال تو چند روز میں ہی واضح ہو گی لیکن ابھی حالات بہتر نہیں لگتے،اب دیکھنا یہ ہو گا کہ حالیہ شکست سے بورڈ سبق لے کر کیا اقدامات کرتا ہے، اگر سب کچھ ایسے ہی چلنے دیا گیا تو پھر پروٹیز کیخلاف بھی خراب نتائج کے  لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔