کینیا میں وسیع ذخائر آب کی دریافت

ندیم سبحان  ہفتہ 14 ستمبر 2013
وسیع ذخائر آب کی دریافت کا اعلان چار روز قبل اقوامی متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیا تھا۔ فوٹو : فائل

وسیع ذخائر آب کی دریافت کا اعلان چار روز قبل اقوامی متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیا تھا۔ فوٹو : فائل

ٹرکانا افریقی ملک کینیا کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے۔

تاہم یہ کینیا کی وہ کاؤنٹی بھی ہے جہاں کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ ٹرکانا میں پانی کی قلت ہے اور یہاں بارش بھی انتہائی کم ہوتی ہے، اس لیے  پانی بے حد احتیاط سے خرچ کیا جاتا ہے۔  1938ء سے لے کر اب تک یہ کاؤنٹی تیرہ بار قحط کا شکار ہوچکی ہے۔ تاہم  بوند بوند کو ترسے ترکانا کے باسی بہت جلد جی بھر کر پانی استعمال کررہے ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے دریافت ہوا ہے کہ شمالی کینیا کے اس حصے میں زیر زمین پانی کی دو انتہائی وسیع جھیلیں موجود ہیں۔ ماہرین کے لگائے گئے تخمینوں کے مطابق ان ذخائر آب کا پانی اگلے 70 برس تک ملک بھر کی ضروریات کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔

وسیع ذخائر آب کی دریافت کا اعلان چار روز قبل اقوامی متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیا تھا۔ کینیا کی وزیر برائے ماحولیات، پانی و قدرتی وسائل جوڈی واکھونگو کا کہنا ہے کہ پانی کی یہ جھیلیں نہ صرف مقامی آبادیوں بلکہ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ ان دو ذخائر میں پانی کی مجموعی مقدار 200 ارب کیوبک میٹر سے اوپر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ پانی قدرے احتیاط سے استعمال کیا جائے تو اگلی دو نسلوں کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے۔

یہ وسیع ذخائر آب سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ راڈار ٹیکنالوجیز انٹرنیشنل‘‘ نامی کمپنی نے دریافت کیے ہیں۔ مذکورہ کمپنی نے جنرل مینیجر کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ پانی کی مقدار لگائے گئے تخمینے سے کئی گنا زیادہ ہو۔ ان کے الفاظ میں،’’  یہ ایک پیچیدہ ماڈل ہے مگر ہم نے اپنے تخمینے کی بنیاد ابتدائی 300 میٹرز پر رکھی ہے جب کہ جھیل کی گہرائی ڈیڑھ کلومیٹر ہے، اور ممکن ہے کہ یہ ساری کی ساری پانی سے بھری ہوئی ہو۔ لہٰذا اس امر کا امکان موجود ہے کہ پانی کی مقدار لگائے گئے اندازوں سے کئی گنا زیادہ ہو۔

براعظم افریقا کے اس خطے میں قحط کی سی صورت حال سال بھر پائی جاتی ہے، اور مختلف قبائل کے درمیان پانی وجۂ تنازع بھی بنتا رہتا ہے۔ ٹرکانا کی سرحدیں یوگنڈا، جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا سے ملتی ہیں۔اور یہاں کے باشندوں اور ان ممالک کے سرحدی علاقوں  کے باسیوں کے درمیان پانی پر جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ دریافت سے اس خطے میں نہ صرف امن کا دور دورہ ہوسکتا ہے کہ بلکہ یہاں کے لوگ اپنی غذا خود اگا پائیں گے، جس سے یہاں خوش حالی بھی آئے گی۔

قلت آب کے ساتھ ساتھ کینیا کا یہ علاقہ خوراک کی قلت کا بھی شکار ہے۔ یہاں غذائی قلت کا شکار لوگوں کی شرح 37 فی صد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جھیلوں سے پانی کے حصول کے لیے کیے جانے والے اقدامات ماحول پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں، مگر انسان ماحول سے زیادہ اہم ہیں۔ مذکورہ کمپنی کے جنرل مینیجر کہتے ہیں،’’ جب لوگ پیاسے مر رہے ہوں تو آپ ماحول کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں۔ ‘‘ یونیسکو سائنسی اور قدریی دل چسپیوں کے حامل خطوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتا ہے تاہم اس ادارے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل Gretchen Kalonjiبھی انسانی ضرورت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

’’ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پانی نایاب ہے، اور 2011ء میں یہاں بدترین قحط نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، جس کی وجہ سے  بارہ ملین افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔ اور بڑی تعداد میں لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا یہاں پانی کی فراہمی بہت اہم ہے۔‘‘ واکھونگو کہتی ہیں کہ یہ دریافت تاریخی ہے کیوں کہ پہلی بار ٹرکانا کے لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ذخائر آب لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ پہلے زرعی اور پھر صنعتی پیداوار کے ذریعے۔‘‘ اگر ان ذخائر کو احتیاط سے استعمال کیے جائے تو کینیا میں قلت آب قصۂ ماضی بن جائے گی۔

جھیل ٹرکانا کے پانی کے برعکس جس میں قلوی ارضی دھاتوں  ( alkaline)  کی بلند مقدار پائی جاتی ہے، زیرزمین پانی پینے کے قابل ہے اور صرف ایک مہینے میں استعمال کے لیے دست یاب ہوسکتا ہے۔ واکھنگو کے مطابق بہت جلد قلت آب کے شکار دیگر علاقوں میں بھی سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کی تلاش شروع کردی جائے گی اور ممکن ہے کہ وہاں بھی زیرزمین ذخائر آب دریافت ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔