بنیادی شرح سود میں نصف فیصد اضافہ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 14 ستمبر 2013
 شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط یا کسی دبائو کے بغیر کیا گیا ہے, گورنر اسٹیٹ بینک۔ فوٹو: فائل

شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط یا کسی دبائو کے بغیر کیا گیا ہے, گورنر اسٹیٹ بینک۔ فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود 9 فیصد سے بڑھا کر 9.5 فیصد کر دی ہے۔ مالی سال 2013ء کے دوران پاکستانی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں5.1 فیصد کی کمی ہوئی۔ ڈھائی ماہ میں حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 547 ارب روپے کے قرضے لیے۔ اسٹیٹ بینک کے بقول مالی خسارہ ہدف سے بہت زیادہ رہا۔ بیرونی ادائیگیوں پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک یا سین انور نے جمعہ کو کراچی میں پریس کانفرنس میں مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور شرح سود میں نصف فیصد اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط یا کسی دبائو کے بغیر کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے اور شرح سود بڑھا کر ساڑھے نو فیصد کرنے کا فیصلہ بھی بینک کا اپنا ہے۔

مستقبل میں مہنگائی میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر مانیٹری پالیسی بورڈ نے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے معیشت کی شرح نمو پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالیاتی پالیسی کا اعلان اگست کے تیسرے ہفتے میں ہونا تھا لیکن حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان 6.6 بلین ڈالر قرضے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے تک اس میں تاخیر کی گئی۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ شرح سود میں اضافہ اسی قرضے کا نتیجہ ہے۔ ادھر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ یاسین انور نے کہا کہ سبسڈی کے خاتمے، جنرل سیلز ٹیکس میں  ایک فیصد اضافے اور عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے سبب مہنگائی میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔

نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ نہ ہونے کی بنیادی وجہ شرح سود نہیں بلکہ توانائی بحران اور امن و امان کی خراب صورتحال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ کا صرف پاکستان نہیں بھارت، ترکی سمیت دنیا کے7 بڑے ممالک بھی شکار ہوئے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ حکومت جی ڈی پی کی مد میں ٹیکس کا تناسب بڑھانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا، خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضے لیے گئے اور مجموعی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ مالی سال بینکاری نظام سے 1446 ارب کے قرضے لیے گئے جو اپنے ہدف سے 1000 ارب روپے زائد ہیں تاہم نئی حکومت نے آتے ہی سخت فیصلے لیے جن میں بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنا، انرجی سیکٹر سے سرکلر ڈیٹ کا خاتمہ، نئے ٹیکسز کا نفاذ جیسے اقدامات شامل ہیں جس سے  آئندہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔

کمزور معاشی نظم و نسق اور کم شرح نمو جیسے مسائل بڑی حد تک جوں کے توں برقرار ہیں۔ گورنر ایس بی نے کہا ستمبر 2013ء میں پاکستان کے لیے ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد مزید رقوم آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اس سے زرمبادلہ پر دباؤ کم ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کے مالیاتی پالیسی پر تبصرے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افراطِ زر اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا جس سے عام آدمی کی مشکلات بڑھیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔