ایوانِ صدر میں جمہوریت کے جلوے

زاہدہ حنا  ہفتہ 14 ستمبر 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یکم ذی الحج 1434 کا ہلالِ نو اپنی جھلک دکھا کر غروب ہوا۔ بحیرۂ عرب کے کنارے آباد کھارا ماچھی اور مائی کلاچی سے کراچی بن جانے والے شہر نے ستاروں ٹنکا سیاہ دوشالہ اوڑھا اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ آصف علی زرداری کے چاہنے والوں نے ان کی مدتِ صدارت مکمل ہونے کا جشن یوں منایا کہ رات کی سیاہ چادر میں رنگ ونور کے گل بوٹے ٹانک دیے۔ یہ ماہتابی چلی، وہ انار چھوٹے، آگ کے سرخ، سبز، نارنجی، اودے، سنہرے اور روپہلے پھولوں نے اپنی بہار آسمان پر دکھائی اور زمین پر پھیلے ہوئے سمندر کی موجوں میں اس کے رنگ لہریں لیتے رہے۔

یہ وفاداروں کی تہنیت اور تبریک تھی، اس شخص کے لیے جس نے ایوانِ صدر میں پانچ برس کی نہایت مشکل مدت گزاری۔ اس سے پہلے دوپہر کو بلند وبالا پیڑوں کے سائے میں صدر مملکت اپنے ذاتی ملازمین سے رخصت ہوئے، کئی کو اشک بار چھوڑا۔ سیاہ سوٹ میں پہنے ہوئے وہ اس بگھی میں بیٹھے جسے چاق چوبند گھوڑے کھینچ رہے تھے جس کی پوشش پر سرخ حاشیہ تھا اور سنہری جھالر اسے شوبھا دے رہی تھی۔ چمچماتے ہوئے سازکو دھوپ سنہرے پن میں رنگ رہی تھی اور بری، بحری، فضائی فوج کے نوجوان اردل میں تھے۔ وہ سنہرا ہالہ جو اس بگھی کے گرد تھا، کسی فرد یا کسی سیاسی جماعت کا نہیں، یہ جمہوریت کی جیت کا ہالہ تھا۔ صدر کی سواری اس طرف جارہی تھی جہاں انھیں گارڈ آف آنر دیا جانے والا تھا۔

آصف زرداری پاکستان کے پہلے منتخب صدر ہیں جنھوں نے اپنے عہدۂ صدارت کے 5 برس مکمل کیے اور رخصت ہوئے تو عزت و احترام کے ساتھ۔ اس منظر پر آنکھیں بھر آتی ہیں۔ یہ مسرت کے آنسو ہیں۔ مجھے اپنی کئی تحریریں یاد آتی ہیں جو سنگینوں کے سائے میں شائع ہوئیں۔ مجھے سابق ائیر مارشل اصغر خان یاد آتے ہیں جنھوں نے اپنے ادارے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ’’آپ ہمیشہ جھوٹ پر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آپ کو اپنے اندر صفائی کرنی ہوگی تاکہ آپ کی اخلاقی طاقت برقرار رہے۔ بہ صورت دیگر آپ کی حیثیت کرائے کی فوج کی طرح ہوجائے گی۔‘‘آج واقعی جشن کا دن ہے۔ فوج نے 2008ء سے 2013ء کے دوران اپنے دامن سے یہ داغ دھو دیا ہے کہ وہ کرائے کی فوج ہے اور اس کاکام سنگین کی نوک پر منتخب حکمرانوں کی تذلیل، اقتدار کو ان سے غصب کرنا، انھیں جلاوطن کرنا اور ان کے قتل کی سازش میں شریک ہونا رہا ہے۔

مجھے 19 اگست 2008 کو لکھی جانے والی اپنی ایک تحریر یاد آتی ہے جسے میں نے خونِ دل سے لکھا تھا۔ انتخابات میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کی کامیابی کے باوجود (ر) جنرل پرویز مشرف ایوانِ صدر سے کس شان سے رخصت ہوئے تھے۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے میں نے لکھا تھا ’’ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے والے، انصاف کی تلاش میں صعوبتیں سہنے والے، منصف اور ان کے ہم نوا وکیل ، بے نظیر بھٹو اور اکبربگٹی،جامعہ حفصہ میں قتل کر دیے جا نے والے ،شمالی علاقوں میں بم باری اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا قصاص طلب کرنے والے ،سیاست سے وابستہ ہر رہنما اور کارکن اور ہر باضمیر پاکستانی عورت اور مرد ایک غاصب کی شاندار رخصتی کے مناظر دیکھتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں ۔ وردی پوش جوانوں کے شانوں اور گریبانوں میں ٹنکے ہوئے سنہرے بٹن سے کھیلنے والی سورج کی شعاعیں ان کی آنکھوں میں نیزے کی انی بن کر اُترتی ہیں اور انھیں اپنے منتخب وزرائے اعظم کی ذلت آمیز رخصت یاد آتی ہے ، کسی وزیر اعظم کا تقریر کرتے ہوئے مارا جانا،کسی کا لاوارثوں کی طرح دفن ہونا یاد آتا ہے ،کسی کے سر سے بہتا ہوا جیتا جاگتا لہو آنکھوں میں پھرتا ہے اور کسی وزیر اعظم کو جانوروں کی طرح پنجرے میں پھرایا جانا نگاہوں میں گھوم جاتا ہے ۔‘‘

صد شکر کہ 9 ستمبر 2013 کو میری آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایوانِ صدر کے شاندار ایوان میں لگ بھگ ساڑھے چھ سو لوگوں کا اجتماع تھا۔ ان میں وزیر، مشیر، سفیر تھے اور منتخب اراکین پارلیمنٹ بھی۔ سابق اور حاضر اسپیکر بھی وہاں تھے اور سابق وزرائے اعظم بھی۔ کئی بزرگ خواتین تھیں وقت نے جن کے شانے جھکا دیے تھے لیکن چہروں کو خوشی خیرہ کررہی تھی۔ ان کے خاندان کا ایک فرد، پاکستان کا صدر منتخب ہوا تھا اور اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والا تھا، متعدد بزرگ تھے جو کسی نہ کسی کاروبار سے وابستہ تھے اور کراچی سے اسلام آباد آئے تھے صرف اس تاریخی لمحے کو دیکھنے کے لیے جسے وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، نواسوں، نواسیوں اور پوتوں پوتیوں کو سنائیں گے۔

مغل بادشاہ جب دربار میں جلوس کرتے تھے تو نقارے پر چوب پڑتی تھی۔ اس روز شہنائی کی آواز نے چیف جسٹس، وزیر اعظم، نومنتخب صدر اور سابق صدر کی آمد کا اعلان کیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ عوام کے منتخب کردہ ایک صدر سے اقتدار دوسرے صدر کو منتقل ہورہا ہے۔ طالع آزمائوں کی دخل اندازی اور محلاتی سازشوں کو عوام کی طاقت نے شکست دے دی تھی۔

حلف برداری کی رسم ختم ہوئی جس کے بعد عصرانے کا آغاز ہوا۔ سادہ لباس محافظوں نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر بنائی جس کے حصار میں زرداری صاحب، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، میاں نواز شریف اور ممنون حسین صاحب تھے۔ پاکستان میں عوامی اور آئینی اقتدار کے چار نمائندے۔ ان لوگوں کو مبارکباد دے کر جب میں پلٹی تو مجھے اس بات کی بے پایاں مسرت تھی کہ ان چاروں میں سے کوئی بھی کسی جاگیردار، تمن دار یا خانِ خاناں کا بیٹا نہ تھا۔ یہ لوگ اس بات کا اشارہ تھے کہ جمہوریت کا سفر اگر اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو سیاست میں عوامی شراکت کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا۔ اس روز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے چہروں پر سرشاری کا عجب عالم تھا۔ جلا وطنی کے طویل ماہ وسال گزارتے ہوئے انھوں نے شاید وقت کے اس طور منقلب ہونے کے بارے میں نہ سوچا ہو۔ جلاوطنی محلوں میں گزاری جائے تب بھی دل کا اضطراب چین نہیں لینے دیتا۔ تب ہی کہا گیا ہے کہ ’’خارِ وطن از سُنبل وریحاں خوش تر۔‘‘

اس روز سندھ سے آئے ہوئے مسلم لیگی اپنا رنگ جما رہے تھے اور ’جئے بھٹو‘ کے انداز میں ’جئے نواز شریف‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ سندھ کے قوم پرست رہنمائوں کی بھی خاصی تعداد موجود تھی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نہایت گرم جوشی سے ملے۔ جناب امین فہیم، احسن اقبال، مشاہد اللہ خان، اعتزاز احسن اور حاصل بزنجو سے بھی ملاقات رہی ۔ ہالہ میں میاں نواز شریف کے لیے سرگرم شاہ محمد شاہ اپنے پرانے دوست غزال عثمانی کے ساتھ دوستوں سے مل رہے تھے۔ جناب سلیم ضیاء، خواجہ طارق نذیر، نہال ہاشمی، ناصر الدین محمود اورکراچی سے آئے ہوئے دوسرے بہت سے لوگ اس بات پر خوش تھے کہ صدارت ایک کراچی والے کے حصے میں آئی ہے۔

غزال سے 30 برس پرانی دوست داری ہے واپسی پر وہ اپنے فارم ہائوس لے گئے جس کا نام انھوں نے ’گلِ رعنا‘ رکھا ہے۔ پھولوں کے تختوں اور پھلوں کے پیڑوں سے گھرے ہوئے اور ساڑھے چار ایکڑ پرپھیلے ہوئے اس فارم ہائوس میں یوں تو ہر چیز میں ان کے تربیت یافتہ ذوق کی جھلک نظر آتی ہے لیکن خاصے کی چیز ان کی لائبریری تھی۔ از عرش تا فرش کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں، یہ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی ہے اور یہ تصوف اور مذہب پر بیس بیس جلدوں کے انسائیکلو پیڈیا۔ ٹرانسفر آف پاور کی مکمل جلدیں موجود ہیں، ٹوائن بی، ول دوراں اور گریٹ بکس بھی اپنی جھلک دکھا رہی ہیں۔ شاہنامے کا ایک نادر نسخہ، راجستھان کی ضخیم تاریخ اور سندھ سے متعلق متعدد کتابیں۔ مثنوی مولانا روم کے مختلف تراجم، ’’دیوانِ شمس تبریز‘ کا ایک صفحہ آپ سے آپ کھل جاتا ہے:

چہ تدبیر اے مسلماناں کہ من خود رانمی دانم

نہ ترسا، نہ یہودم من، نہ گبرم نے مسلمانم

بے اختیار بلھے شاہ یاد آتے ہیں جنھوں نے صدیوں بعد اس مضمون کو یوں باندھا تھا کہ:

بلھیا! کیہ جاناں میں کون

نہ میں مومن وچ مسیتاں …… نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں

نہ میں پاکاں وچ پلیتاں …… نہ میں موسیٰؑ نہ فرعون

بلھیا! کیہ جاناں میں کون

اس وقت ہمارے یہاں سچ اور حق کے دعویداروں نے انسانوں کا جینا جس طور حرام کیا ہے، کاش وہ مولانا روم، بلھے شاہ ، بابا فرید، نانک اور وارث شاہ کی روح میں جھانک کر دیکھ سکیں۔ آج کے پُر آشوب دور میں حکمت و دانائی کے جواہر ریزوں میں سے چند اگر ہم اپنے دامن میں سمیٹ لیں تو ہماری اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔