انصاف بھی مہنگا بکنے لگا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 14 ستمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پرانی بات ہے ایک سی ایس پی یا آئی سی ایس افسر ہوتے تھے جناب ریاض الدین احمد۔ یہ ایک معروف علمی خاندان کے فرزند تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد کے فرزند، ان کے دو بھائی وجیہہ الدین احمد اور معز الدین احمد بھی سی ایس پی تھے۔ ان کے ایک بھائی ڈبلیو زیڈ احمد فلمی دنیا کی مشہور شخصیت تھے۔ یہ سب عاصمہ جہانگیر کے ماموں تھے۔

وجہ یہ ہے کہ ریاض صاحب نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ پہلے سی ایس پی تھے جو ملازمت سے ازخود مستعفی ہوئے اور ان کی اس گستاخی پر بہت حیرت ہوئی اور یہ بہت بڑی خبر بھی بنی۔ انھوں نے ایک مختصر پریس کانفرنس کی، بطور رپورٹر میں بھی موجود تھا۔ انھوں نے استعفیٰ کو ذاتی وجوہات کا سبب قرار دیا البتہ انھوں نے انتظامیہ کے بارے میں بھی کچھ باتیں کہیں۔ ان کی ایک بات مجھے اب تک یاد ہے کہ ملک میں ایگزیکٹو کا بڑا خلا آنے والا ہے یعنی انتظامی صلاحیت رکھنے والے لوگ بہت کم ہوں گے جو ایک خطرناک صورتحال ہو گی۔ ان کی اس بات پر مدتیں گزر گئیں اور ہم اس دوران دیکھتے رہے کہ ملک میں قابل اور دانشمند لوگ رفتہ رفتہ بہت کم ہو گئے اور جو رہ گئے ان پر سیاسی دبائو اس قدر بڑھ گیا کہ ان کو خاموشی اور لاتعلقی میں ہی پناہ مل سکی۔

ریاست کا کام چلانے کے لیے اس کمی کو اداروں کی صورت میں پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے کمیٹیوں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی۔ افسر کہا کرتے تھے کہ وہ ذمے داری سے بچنے کے لیے خود فیصلے نہیں کرتے۔ کمیٹی بنا لیتے ہیں اور کوئی اہم مسئلہ اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ کمیٹی جو فیصلہ کرتی ہے اس کا حوالہ دے کر افسر مجاز حکم جاری کر دیتا ہے اور اپنے آپ کو اس ذمے داری سے بچا لیتا ہے لیکن کمیٹیوں میں وہ طاقت نہیں ہوتی جو کسی فرد کی ذات میں ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلے کو نافذ کرنے میں ذاتی دلچسپی لیتا ہے اور اس کی ذمے داری قبول کرتا ہے۔ صاحب ضلع (ڈی سی) اور ایس پی میں یہی طاقت ہوتی تھی اور وہ اپنے احکامات کے نفاذ اور ان کے نتائج کو قبول کرتے تھے۔ ان احکامات کی تعمیل میں وہ اپنی عزت سمجھتے تھے۔

انگریزوں نے بڑی محنت سے انتظامیہ کو پروان چڑھایا تھا اور اس کی کامیابی کو تاج برطانیہ کی عزت سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کو بھی یہی قابل، دیانت دار اور محنتی انتظامیہ ورثے میں ملی تھی۔ دنیا بھر نے خصوصاً بھارتیوں نے مسلسل کہا کہ پاکستان نہیں چل سکے گا بلکہ ایک سیاستدان نے تو جو بعد میں بھارت کے صدر بھی بن گئے ایک کتاب میں لکھا کہ پاکستان کوئی چھ ماہ کا مہمان ہے لیکن اس انتظامیہ نے پاکستان دشمنوں کو خاموش کرا دیا اور یہ ملک ایسا آزاد اور خود مختار ملک بن گیا کہ اس نے بھارت کے خلاف جنگ تک لڑنے سے گریز نہیں کیا۔ بھارت کی جغرافیائی اور عددی برتری کو پرکاہ کی اہمیت نہ دی اور پاکستان پر اپنے مکمل یقین کی طاقت سے حالات کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کی فوج کے پیچھے عوام تھے اور عوام کو انتظامیہ نے متحد کر رکھا تھا اور ان کے اندر ملک سے محبت کی طاقت بھر دی تھی۔ پاکستان کو اس طاقت سے ہمارے حکومتی اداروں یعنی اسمبلیوں اور شورائوں نے کمزور کیا اور پھر تباہ کر دیا۔

اس کا آغاز فوجی حکومتوں نے کیا۔ فوجی حکمرانوں کو اپنی طرز کے احکامات کی تعمیل کی ضرورت تھی جو سول انتظامیہ درست نہیں سمجھتی تھی لیکن اقتدار افواج کے پاس تھا چنانچہ فوج نے انتظامیہ کی مرضی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا حکم چلایا۔ شروع میں سیاستدانوں کی طرح انتظامیہ نے بھی فوج کا ساتھ دیا اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سول کے افسر رفتہ رفتہ اپنی پرانی روایات کو بھولنے لگے اور فوج کے رنگ میں ڈھلنے لگے لیکن ان کے اندر پھر بھی مزاحمت زندہ رہی اور فوجی حکمران ان سے مطمئن نہ ہو سکے۔ ضیاء الحق کے سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن نے ایک دن مجھ سے کہا کہ افسروں نے بہت تنگ کر رکھا ہے، ان کا کیا علاج کیا جا سکتا ہے۔ ایک فوجی حکمران تو ان سے اس قدر تنگ تھا کہ اس نے کوئی تین سو سے زائد اونچے افسروں کو بیک جنبشِ قلم رخصت کر دیا۔ یہ جنرل یحییٰ خان تھے۔ ان کا یہ حکم گویا سول انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اعلان تھا۔ اس حادثہ کے بعد سول انتظامیہ نے بڑی حد تک فوجی حکمرانوں سے سمجھوتہ کر لیا اور پھر دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اس کے بعد طویل ترین مارشل لاء آئے، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے لوگ برسوں تک باری باری حکمران رہے۔ اس دوران انتظامیہ کے افسران کلبلائے ضرور رہے، اپنی برج پارٹیوں اور گولف کے میدانوں میں دلوں کا غبار نکالتے رہے لیکن بہرحال حکومت کسی اور کے پاس تھی چنانچہ اوپر جنرل مجیب الرحمٰن کا ذکر اسی سلسلے میں آیا ہے جو افسروں سے بے زار تھے۔

بات ہو رہی تھی سول انتظامیہ کی جو حالات نے رفتہ رفتہ خراب کر دی، کبھی فوجیوں نے اور کبھی سویلین حکمرانوں نے۔ اسمبلیوں میں ارکان اسمبلی اپنے اپنے علاقے میں حکومت چاہتے تھے چنانچہ وہ اپنی پسند کے افسروں کی تعیناتی پر سودا بازی کرتے تھے۔ کسی کلیدی عہدے پر کسی افسر کی موجودگی کافی سمجھی جاتی تھی۔ اپنی پسند کا افسر لگوانے کے لیے ارکان اسمبلی کبھی ایکا کر لیتے تھے اور اپنے کسی ساتھی کا مطالبہ منوانے کے لیے حکمران کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ جب حکومتیں ان ارکان کی حمایت کی محتاج ہوتی تھیں تو وہ ان کا کوئی بڑا مطالبہ کیسے رد کر سکتی تھیں۔ اس صورت حال کا ایک خطرناک نتیجہ یہ نکلا کہ عوام انصاف سے محروم ہونے لگے اور حکومتیں غیر مقبول، لیکن کسی سویلین کو بھی جتنا وقت بھی مل جاتا تھا وہ اپنی کسر پوری کر لیتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی سرکاری ملازم کرپشن کرے تو اس کو سزا مل سکتی ہے لیکن کسی سیاستدان کو کوئی پوچھتا نہیں کیوں کہ وہ اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے جس سے حکمرانوں کا تعلق ہوتا ہے۔

آج کے پاکستانی حیرت زدہ ہیں کہ ان کے سابق وزراء اعظم تک عدالت عظمیٰ سے کرپٹ ثابت ہو چکے ہیں مگر انھیں کوئی پوچھتا نہیں۔ ایسی صورت حال میں معاشرے سے کرپشن کیسے ختم ہو سکتی اور انصاف کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ کل کی بات ہے عدالتیں چیخ رہی ہیں کہ کسی کی رہائی غیرقانونی اور غیر اسلامی ہے لیکن کروڑوں روپے دے کر رہائی خریدی جا چکی ہے۔ حکومت بھی یہ سب دیکھ رہی ہے اور عوام بھی لیکن کوئی سرکاری بااختیار اہلکار ایسا موجود نہیں جو مداخلت کر سکے۔ مجھے ان دنوں ریاض الدین صاحب کی بات بار بار یاد آتی ہے کہ ملک میں انتظامیہ کا بحران آنے والا ہے جو آ چکا ہے بلکہ جڑ پکڑ چکا ہے۔ انصاف کھلے بندوں بک رہا ہے اور کوئی اس خرید و فروخت کو روکنے والا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔