انقلاب کیسے آئے گا؟

شہاب احمد خان  اتوار 21 جولائی 2019
اگر ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انقلاب، بعض لوگوں کو جتنا خوبصورت اور دلکش محسوس ہوتا ہے شاید یہ عام طور پراتنا خوبصورت اور دلکش ہوتا نہیں ہے۔ جب ہم انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں نہ جانے کیوں صرف انقلاب فرانس اور انقلاب روس ہی آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب چین بھی آجاتا ہوگا۔ جس طرح ان انقلابات میں انسانی جانیں تلف ہوئیں، جس طرح املاک کا نقصان ہوا، وہ ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم ترین شرط جو انقلاب کےلیے ضروری ہوتی ہے، وہ ہے ایک ایمان دار اور باصلاحیت قیادت۔ جس کی ایمان داری اور صلاحیت پر کوئی دھبہ نہ ہو- دوسری سب سے اہم شرط ہوتی ہے ایک ایسی مشترکہ وجہ جو ایک قوم کے تمام افراد کو متحد کردیتی ہے۔ انقلاب فرانس اور دوسرے انقلابات میں مشترکہ وجہ روٹی تھی۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں تھا، باقی ساری آبادی بهوکی مر رہی تھی۔ ان انقلابات کی قیادت ان ہی بھوکے افراد میں سے ہی اٹھی تھی۔

یا تو ہماری یادداشت اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ہم زیادہ دور کی چیزیں یاد نہیں رکھ پاتے ہیں، یا ان باتوں اور انقلابات کی ہماری نظر میں وہ اہمیت نہیں رہی ہے۔ انسانی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب جس میں ایک جان بھی ضائع نہیں ہوئی، جس کے اثرات آج تک دنیا پر قائم ہیں، وہ انقلاب آج سے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے جزیرہ نما عرب میں آیا تھا۔ جس نے نہ صرف انسانیت کو اس کی معراج پر پہنچایا، بلکہ انسان کی ہدایت کا ایسا راستہ مقرر کیا جو رہتی دنیا تک انسانیت کو رہنمائی فراہم کرتا رہے گا-

دوسرا انقلاب آج سے بہتر سال پہلے برصغیر میں آیا تھا، جس نے تمام مسلمانوں کو ایک قوم بنادیا تھا۔ جس کے لیڈر کی ایمان داری اور خلوص کسی بھی شک و شبے سے بالاتر تھی۔ جس کی قیادت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا- ایک علیحدہ ملک مسلمانوں کےلیے حاصل کرلیا گیا تھا۔ ایک ایسا انقلاب، جس کی قیادت کو انگریز اور ہندو قیادت مل کر بھی ایک لمحے کےلیے جیل میں نہ ڈال سکی تھی۔ کوئی غیر قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ کوئی ہتھیار نہیں اٹھائے گئے تھے۔ صرف قانونی جدوجہد سے انقلاب اپنے کامیاب انجام تک پہنچا تھا۔

شاید یہ ہمیں انقلاب لگتا ہی نہیں ہے۔ اگر ہجرت کے وقت ہندو اور سکھ مسلمانوں کا قتل عام نہ کرتے تو ہجرت بھی پرامن طریقےسے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی۔

ہم لوگ اتنے بےصبر ہوچکے ہیں کہ بنا کسی محنت اور بنا کسی انتظار، نتیجے کے امیدوار رہتے ہیں۔ جہاں جہاں انقلاب آئے ہیں، وہاں لوگوں کی زندگی ایک عام پاکستانی کی زندگی سے کہیں زیادہ مشکل رہی تھی۔ ہمارے یہاں ایک بھیک مانگنے والا بھی پیٹ بھر کر کھاتا اور لمبی تان کر سوتا ہے، جبکہ فرانس اور روس میں انقلاب سے پہلے کے حالات اتنے بدتر تھے جس کا ایک عام پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اگر ہم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ بغیر محنت اور صبر کے دنیا میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر آج ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں محنت اور تعلیم کو اپنا شعار بنانا ہوگا اور مسلسل اس پر کاربند رہنا ہوگا۔ تب کہیں جاکر ہماری اگلی نسل بہتر مستقبل کی صورت دیکھ سکے گی۔ ہر حکومت کے ساتھ بدلتی پالیسیاں اور ترجیحات ہمیں نہ پہلے کہیں پہنچا سکی ہیں، نہ آج کے بعد کہیں پہنچا سکیں گی۔ اگر موجودہ حکومت کچھ سخت اقدامات اٹھا رہی ہے تو مستقبل قریب میں اس کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوجائے گا۔

ملک کی اقتصادی حالت جو ہوچکی ہے، کوئی دوسری حکومت بھی اس سے بہتر حالات پیدا نہیں کرسکتی۔ اگر آزمائے ہوئے لیڈروں کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں تو نتیجہ بھی وہی نکلے گا، جو پہلے نکل چکا ہے۔ فرق صرف اتنا پڑے گا کہ ان لیڈروں کی دولت میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور عوام مزید غریب ہوجائیں گے۔

ہم جس خطے میں رہتے ہیں، وہ پہلے ہی آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ ایسے میں چند لوگوں کی باتیں، جو وہ انقلاب کے متعلق کرتے ہیں، وہ بالکل ایسی محسوس ہوتی ہیں جیسے کوئی دیو انسانی خون کی بو سونگھتا پھر رہا ہو- اور خون پینے کی پیاس اسے بے چین کئے ہوئے ہو۔ کچھ لوگ مریم نواز اور بلاول کو اس طرح لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں، جیسے وہ ہی اس قوم کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان دونوں کا تعلق اسی فسطائی اور بورژوا طبقے سے ہے، جس نے اس ملک کا یہ حال کیا ہے۔

مریم نواز تو خود اپنے آپ کو حکمران خاندان سے بتاتی ہیں۔ ایسے حکمران خاندان جو اپنی دولت کا حساب نہیں دے پاتے ہیں۔ جنھیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی دولت میں اضافہ خود بخود کیسے ہوجاتا ہے۔ اگر یہی قیادت اس ملک میں انقلاب لانے والی ہے تو وہ انقلاب شاید جغرافیے میں تو آجائے، لیکن انسانی زندگیوں میں ابتری کے سوا کچھ نہیں آنے والا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔