شام کی شامت

شیخ جابر  ہفتہ 14 ستمبر 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

ابھی شام اپنوں کی ہلاکت خیزیوں ہی کے زخم چاٹ رہا تھا، اسے ابھی لہولہو لخت کے ٹکڑے سمیٹنا کا موقع بھی نہیں ملاتھا کہ امریکا نے اپنی دہشت گردانہ اورجنگجویانہ مہم جوئی میں توسیع مزید کا عندیہ دے دیا۔ باراک اوباما شام میں ایک نیا محاذ کھول دینے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صرف باراک اوباما ہی پر منحصر نہیں ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا اپنے قیام کے روز اول ہی سے ہلاکت خیزی میں مصروف ہے۔ جب سے اب تک امریکا نے جتنی جنگیں لڑی ہیں یا جو مداخلتیں کی ہیں اگر محض ان کے نام ہی لکھنا شروع کردیے جائیں تو یہ کالم کم پڑجائے گا۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جب فہرست ہی اتنی طویل ہے تو اس کے نتائج اور ہلاکتیں کس درجے ہولناک ہوںگی۔آج امریکی استعمارعراق، افغانستان، سوڈان اور لیبیا وغیرہ کے بعد اپنے خون آشام پنجے شام میں گاڑنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ بندوق کی نوک سے امن اگانے کا، لہو کے دریا بہا کے آزادی کا نعرہ لگانے کا یہ پہلا امریکی اقدام نہیں ہے۔

وائٹ ہائوس میں امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے کہا ہے کہ شام میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی جس کا جواب امریکا کو دینا ہوگا۔ ظاہر ہے اینٹ کا جواب پتھر سے دیاجائے گا۔ اب تک اگر ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں تو امریکا شام پر حملہ کرکے دس گنا زیادہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلے گا۔ پھر اسے کچھ قرار آئے گا کہ کیا عراق میں ایسا نہیں ہورہا۔ عراق پر دوسرے امریکی حملے کے بعد سے اب تک عراق کے سوا لاکھ سے زائد معصوم شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ آج بھی عراق میں اوسطاً چھ سات شہری روزانہ دہشت گردی کی نذر ہورہے ہیں۔ کیا کوئی امریکا بہادر سے یہ سوال کرنے کی ہمت کرسکتا ہے کہ یہ کون سے بنیادی حقوق انسانی کے تحت ہورہاہے؟ کیا آپ کے حقوق انسان کی تعریف یہی ہے کہ اسے تمام دنیاوی غموں سے آزاد کردیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کیا عراق پر حملے کا کوئی اخلاقی،قانونی یا مذہبی جواز ہے؟ اگر ہے تو آج تک پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ اور اگر نہیں ہے تو کوئی امریکا سے مطالبہ کیوں نہیں کرتا کہ وہ یہ لشکر کشی بند کرے۔

اسے یہ دہشت گردانہ حملے اور ان حملوں کے جواب میں مزید دہشت گردی کے فروغ کی حکمت عملی کو فوری طورپر ترک کرکے اپنی گزشتہ جنگ بازی اور ہلاکت خیزی کی شرم ناک تاریخ پر معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ آج پورے عرب میں امریکی استعمار اور اس کے ایجنٹوں نے آگ بھڑکارکھی ہے۔ ہلاکتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کررکھاہے۔ محض اسرائیل نوازی کے لیے صرف ایک دن میں سیکڑوں عرب مسلمانوں کا خون بہادیا جاتاہے، ایک اندازے کے مطابق عرب دنیا میں اوسطاً 15عرب مسلمان جارحیت کا نشانہ بن کر روزانہ ہلاک ہورہے ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب پر کیا دہری ذمے داریاں عائد نہیں ہوجاتیں؟ افغانستان کو آزادی دلوانے کے نام پر امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ کس قانون کے تحت ؟کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا آج افغانستان آزاد ہے، ہزاروں افغانی ہلاک ہوچکے ہیں اور روزانہ ہلاک ہورہے ہیں، چار سے پانچ افغانی اوسطاً روزانہ ہلاک ہوتے ہیں۔

ان معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمے دار کون ہے؟ امریکا جس نے نام نہاد آزادی کے نام پر افغانستان پر حملہ کردیا؟ نیٹو، جو معصوم شہریوں کی ہلاکتوں میں برابر کا شریک ہے؟ پاکستانی حکمران جو ہر امریکی حکم پر ڈالر بٹورتے اور امریکی ہر ہر ہلاکت خیزی اور دہشت گردی میں امریکا کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں؟ کون؟ معصوم شہری ہلاکتوں کا ذمے دار خطے کو کھنڈر بنادینے کا ذمے دار؟ اسے عالمی آویزش کا شکار بنادینے والے آپس ہی میں لڑوادینے والا کون ہے؟اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے ’’یونی سیف‘‘ نے 2012میں ایک رپورٹ شائع کی تھی ۔ اس رپورٹ کے مطابق افغان جنگ میں 18برس سے کم عمر کے بچوں کی ہلاکتوں کا تناسب بہت زیادہ بتایا گیاتھا۔ افغان جنگ سے ہلاک ہونے والے بچوں کی اوسط تعداد 5بچے یومیہ بتائی گئی تھی۔سوال یہ ہے کہ جس حکمت عملی اور جس کارروائی کے نتیجے میں 5معصوم بچے روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہورہے ہوں کیا اسے کوئی عادلانہ، منصفانہ قرار دے سکتاہے؟ اگر نہیں تو ان معصوم روحوں پر ہونے والے مظالم کا ذمے دار کون ہے؟ اور کیا کبھی اسے سزا مل سکے گی؟

آج یقینی طورپر شام کے حالات بہت خراب ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد وہاں ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن کیا اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ امریکا شام پر حملہ کردے؟ گزشتہ دو برس سے شام امریکا اور اس کے حواریوں کی پس پردہ مداخلتوں کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ غیر ملکی جارحیت کی کسر رہ گئی تھی وہ اب پوری ہونے جارہی ہے۔ امریکی صدر کا کہناہے کہ ’’ہم عراق اور افغانستان کی طرح شام میں فوج نہیں اتاریںگے۔ کارروائی کا مقصد بشارالاسد حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کے کیمیائی ہتھیار تباہ کرنا ہے‘‘ جس ملک کے پاس دنیا کے اور انسانی تاریخ کے مہلک ترین جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار ہوں اس کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔امریکی تاریخ سے واقف کسی بھی فرد کو اس بات پر یقین نہیں آسکتا کہ امریکا انسانی حقوق کے لیے کبھی کوئی کارروائی کرے گا۔ مبصرین کا کہناہے کہ یہ امریکی توسیع پسندانہ عزائم کا شاخسانہ ہے۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوگا ’’کیون بیرٹ‘‘ کہتاہے کہ شام پر امریکی حملے کا اسرائیل کو فائدہ ہوگا ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ امریکا کی ’’پراکسی وار‘‘ کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایران پر براہ راست کسی کارروائی سے قبل عرب دنیا کو بکھیر دینا چاہتا ہے۔ وہاں مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرتیں عام کردینا چاہتاہے۔ آپ دیکھیںگے کہ گزشتہ کچھ کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ نے اسی رخ سے خبروں کی اشاعت ونشریات کا کام شروع کررکھاہے۔ آج اس سوال کا جواب خود امریکا کے پاس بھی نہیں ہے کہ شام کے پاس کتنے کیمیائی ہتھیار ہیں؟ 2010میں شام نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔ امریکی سراغ رساں اداروں کا اندازہ ہے کہ شام کے پاس قریباً ایک ہزار میٹرک ٹن کیمیائی ہتھیار ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان اداروں کی کسی بھی بات پر بھروسا نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ماضی میں بھی غلط اطلاعات فراہم کرتے رہے ہیں۔ خیال کیاجارہاہے کہ شام کے پاس زہریلی زرد گیس، سیرن اور خطرناک وی، ایکس وغیرہ ہیں۔

آج اسرائیل اور سعودی عرب سمیت کتنے ہی ممالک میں جو شام پر امریکی حملے کی حمایت میں یک زبان ہیں لیکن کوئی بھی اس اہم سوال کی جانب متوجہ ہونا نہیں چاہتا کہ آخر شام کے پاس اتنی کثیر مقدار میں زہریلے کیمیکل آئے کہاں سے ؟ کیا شام نے یہ تمام کیمیائی ہتھیار خود تیار کیے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ شام تک یہ تمام کیمیکل اور فارمولے یورپ سے آئے ہیں۔ خاص کر فرانس، مجرم کو نہیں اس کی ماں کو پکڑنا چاہیے۔ کیا دنیا بھر میں زہریلے کیمیکل فروخت کرنے والے یورپی ممالک اور فرم کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ یا یورپ، امریکا کو پیسہ بنانے کے لیے سب کچھ تیار کرنے اور فروخت کرنے کی آزادی ہے؟ اور پھر ان ممالک پر حملہ کردینے کی بھی آزادی ہے؟ فرانس نے اور دیگر ممالک نے کس قانون کے تحت زہریلے مواد اور فارمولے خود بھی تیار کیے اور فروخت بھی کیے؟ اس شرم ناک کاروبار اور تجارت کے نتیجے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کے وہ بھی شریک مجرم ہیں۔ ان کے خلاف کب اور کون کارروائی کرے گا؟ کیا دنیا کی کسی عدالت میں کبھی ان پر کوئی مقدمہ قائم ہوسکے گا؟آج امریکا شام پر جو الزامات عائد کررہاہے ان کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔

عراق اور دیگر معاملات پر امریکی دروغ گوئی کے بعد اس کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ خود امریکی عوام کا خیال ہے کہ امریکا کو مزید کسی جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ سی این این نے جو رائے شماری کروائی اس کے مطابق 10میں سے 9امریکیوں کا خیال ہے کہ بشارالاسد نے زہریلی گیس استعمال کی، لیکن 10میں سے 7سے بھی زائد امریکیوں کا خیال ہے کہ حملے کے نتیجے میں امریکا مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔ اسے شام کی خانہ جنگی میں کسی طور بھی ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما اسرائیلی دبائو کے نتیجے میں ایک خوفناک جنگ شروع کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ آج دنیا کو جنگ کی نہیں امن کی ضرورت ہے۔ آج انسان دھمکیوں کا نہیں خیر خواہی کا متلاشی ہے۔ ایسے میں روس کی جانب سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے حوالے سے پیش کی گئی تجویز امریکی صدر کے لیے ایک اچھا بہانہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی رائے سے آبرو مندانہ رجوع کرسکتے ہیں۔اگر امریکا اپنی روایتی جنگ بازی سے باز نہیں آیا تو شام کی شامت کسی بڑے المیے میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔