پاکستانی ڈش برمنگھم کے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں!

 ہفتہ 14 ستمبر 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

پردیس میں دیسی کھانوں کی مقبولیت اور پذیرائی کی ایک خبر یہ ہے کہ پاکستانی کھانے برمنگھم کے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ اسکول میٹرک پاس کرنے والے طالب علموں کو تعلیمی سند کیساتھ ساتھ بالٹی کری اسپیشلسٹ کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرے گا۔

برطانوی روزنامے کے مطابق برمنگھم کی مقبول ترین ڈش ’’بالٹی کری‘‘ برمنگھم بیکل اوریٹ BBAC  (میٹرک کی سند ) یا ’جی سی ایس سی‘ پروگرام کا حصہ بنائی گئی ہے۔ ابتدا میں دس سکینڈری اسکولوں میں پائلٹ پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے، جہاں میٹرک کے طالب علموں کو بالٹی کری بنانے کی ترکیب اور انڈین، پاکستانی شیف سے تربیت فراہم کی جائے گی۔

بتایا گیا ہے کہ اسکولوں کے فرسٹ ٹرم (ستمبر) کے آغازسے اساتذہ نہ صرف بالٹی کری پکانا سکھائیں گے، بلکہ طالب علموں کوڈیجیٹل اسٹوریج، لائف سائنس اور میزبانی سے متعلق ہنر مندی بھی سیکھائیں گے۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے لیے برمنگھم میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور مقامی ریسٹورنٹس میں ہنرمندوں کی قلت کو دور کرنا ہے۔

ایک پرانے اورمشہور پاکستانی ریسٹورنٹ کے مالک مطلوب حسین اوران کے بھائی ظفرحسین کا کہنا ہے کہ پاکستانی کھانوں کا اسکولوں کے نصاب میں شامل ہونا خوش آیند اقدام ہے۔ پہلی بار نویں دسویں جماعت کے ایک اختیاری مضمون ’’فوڈ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ کے اسباق میں پاکستانی کھانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جن بچوں کے مضامین میں فوڈ اینڈ ٹیکنالوجی شامل نہیں ہو گا وہ بھی پاکستانی کوکنگ کو ایک شارٹ کورس کی صورت میں سیکھ سکیں گے، کورس مکمل کرنے والے طالب علموں کواسکول سرٹیفیکٹ جاری کرے گا۔

ظفر نے پروگرام میں اپنی شمولیت کے بارے میں  بتایا کہ، وہ خود بھی ایک شیف ہیں، لیکن وقت کی کمی کے باعث وہ تمام  اسکولوں میں جا کر اساتذہ کی مدد نہیں کر پائیں گے، لٰہذا ابتدائی کوکنگ کلاسوں میں ان کی ویڈیو فلم چلائی جائے گی۔کچھ عرصے پہلے ’’اسکیل فار برمنگھم‘‘ نامی ادارے نے برمنگھم میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے اسباب جاننے کے حوالے سے ایک تحقیق کی تھی۔

اس کے دوران ہرچھوٹے بڑے ریسٹورنٹ کے مالکان نے مقامی آبادی میں انڈین اور پاکستانی کوکنگ کے حوالے سے ہنرمند افراد کی قلت کے مسئلے کو اٹھایا اوردوسری جانب امیگریشن قوانین کی سختی کے باعث بیرون ملک سے ہنر مند ملازمین بلوانے سے متعلق مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا۔ مالکان کا کہنا تھا کہ، یہ مسئلہ کافی گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور انھیں ڈر ہے کہ مستقبل میں برسوں سے جمے جمائے کاروبارکو قائم ودائم رکھنا مشکل ہوسکتا ہے، لہذا اس مسئلے کے حل کے لیے برمنگھم سٹی کونسل، بالٹی آرگنائزیشن،  برمنگھم بیکل اوریٹ پروگرام کے عہدیدار اور چند مقامی کاروباری افراد کے مالی تعاون سے نوجوانوں کو انڈین پاکستانی کھانے پکانے کی مہارت اور ہنر مندی سکھانے کے لیے اسکولوں کی سطح پر ایک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ظفر کا کہنا تھا کہ ،برمنگھم کا ایشین بازارجو ’’بالٹی ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے مشہور ہے  روزگار کے اعتبار سے ایک بڑا سیکٹر سمجھا جاتا ہے۔برمنگھم کے نقشے پر تکون کی شکل میں نظرآنے والے بازار کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تقریباً نصف صدی پہلے اس علاقے میں پاکستانی ریسٹورنٹ کھولے گئے تھے۔ 90ء کی دہائی میں یہ علاقہ انڈین پاکستانی ریسٹورنٹس کا مرکزکہلانے لگا جہاں کی مشہوراور لذیذ ڈش بالٹی کری ہوا کرتی تھی۔  اس وقت شاید کوئی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن یہ ڈش برمنگھم کی ’’سگنیچر‘‘ ڈش کہلائی گی۔

ظفر کا کہنا تھا کہ ٹماٹر، ہری مرچیں ، ہرا دھنیا اور روایتی مسالوں کے ساتھ تیار کی جانے والی بالٹی کری کی مقبولیت میں ذائقے کے ساتھ پیش کرنے کا منفرد طریقہ بھی شامل ہے۔ بالٹی کری جس کڑاہی میں پکائی جاتی ہے اسی کڑاہی میں پیش کی جاتی ہے اوراسی کڑاہی میں اسے کھایا جاتا ہے۔ بالٹی کری کھانے کے لیے پلیٹیں استعمال نہیں کی جاتیں بلکہ روٹی یا چاول بالٹی کری میں ڈال کر کھاتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔