بانی پاکستان، کچھ یادیں

نسیم انجم  ہفتہ 14 ستمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

11 ستمبر کا دن اس لحاظ سے بے حد خاص ہے کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یوم وفات ہے۔ اس دن کے حوالے سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں قرآن خوانی کے اہتمام کے ساتھ ان کی تعلیمات پر بھی عمل کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے، ان قربانیوں اور لوگوں کے ایثار کو بھی یاد رکھنا اور اس سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت پر زور دینا قومی و ملی فریضہ ہے، پاکستان حاصل کرنے کے لیے جن مشکلات کا سامنا تھا اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے۔ لیکن اس سال 11 ستمبر کا دن جس انداز میں گزرا وہ یقیناً نہایت افسوسناک ہے۔ کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں انارکی کی کیفیت ہے۔ قائداعظم کی برسی کے موقع پر قائداعظم کی بہت سی باتیں اور تقاریر ذہن کے گوشوں میں روشن چراغوں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں۔ کبھی پابندی وقت کی مثال تو کبھی اتحاد و تنظیم کا درس تو کبھی طلبا کو ہدیہ تبریک اور پھر لاہور، راولپنڈی کا دورہ، کراچی آمد۔ ان دنوں ہمارا شہر کراچی لہو لہو ہے تو قائداعظم کے وہ الفاظ میرے اطراف میں گونج رہے ہیں کہ:

’’شاید تمہیں خبر نہ ہو، مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ ہم نے جو کچھ حاصل کرلیا، اس پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے‘‘۔

جس وقت وہ اپنی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کراچی کے لیے روانہ ہوئے، روانگی سے قبل انھوں نے قیام پاکستان پر خوشی کا اظہار کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور افسوس کے ساتھ یہ فرمایا کہ:

’’میں دہلی کے باشندوں کو الوداع کہتا ہوں، ان میں ہرفرقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے میرے دوست ہیں، میری درخواست ہے کہ اس عظیم تاریخی شہر میں سب لوگ امن و امان سے رہیں، اب ہمیں ماضی کو دفن کرکے پاکستان اور ہندوستان دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے از سر نو کام شروع کردینا چاہیے‘‘۔

قائداعظم کو وائسرائے کے طیارے میں سفر کرنا تھا، جب کہ روانگی کا وقت خفیہ رکھا گیا تھا۔ وائسرائے کا ڈکوٹا کراچی کی سمت پرواز کر رہا تھا، فاصلے کم اور منزل قریب آرہی تھی، قائداعظم کا چہرہ بے حد پرسکون تھا، ان کی شبانہ روز محنتیں رنگ لے آئی تھیں اور یہ کاوشیں 10 سال کے عرصے پر محیط تھیں، وہ گہری سوچ میں غرق تھے، انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کے لیے نہ کہ آئینی جنگ لڑی تھی، بلکہ اپنی زندگی کا ہر پل آزادی کے لیے قربان کردیا تھا، ان کی صحت مسلسل کام کرنے کی وجہ سے خراب رہنے لگی تھی۔ چار گھنٹے کے اس سفر میں ایک بار لب کشائی کی اور لیفٹیننٹ ربائی کو اخبار دیتے ہوئے کہا ’’آپ یہ اخبار پڑھیں‘‘۔ اخبار کی شہ سرخی قائداعظم کے عظیم کارناموں سے سرخرو تھی، ساڑھے پانچ بجے ان کا جہاز کراچی ایئرپورٹ پر پہنچ چکا تھا، دور دور تک انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا، تاحد نگاہ مسلم لیگ کے جھنڈے فضاؤں میں جھوم رہے تھے، پولیس کی لاکھ کوشش کے باوجود جہاز کے لینڈ کرنے پر ہزاروں لوگ جہاز کی طرف بڑھے۔

لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا، قائداعظم سفید شیروانی میں ملبوس سب سے پہلے جہاز سے اترے اور پھر محترمہ فاطمہ جناح، اس کے بعد قائداعظم زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعروں نے ناقابل فراموش منظر پیش کیا۔ جب قائداعظم جلوس کی سنگت میں ساحلی سڑکوں پر سے گزرے تو منظر اس طرح بدلا کہ کیماڑی کی بندرگاہ پر جنگی اور تجارتی جہاز رنگ برنگے لباس میں ملبوس تھے اور ان پر مسلم لیگی پرچم کامیابی کی خوشی میں مست ہوکر جھوم رہے تھے۔ سجی اور بنی سنوری ہوئی کشتیاں رواں دواں تھیں، جلوس گورنمنٹ ہاؤس پہنچا، محل کے سبزہ زار میں بلوچ رجمنٹ کے دستے نے سلامی پیش کی۔ قائداعظم نے محل کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے اپنے اے ڈی سی لیفٹیننٹ حسن کی جانب دیکھ کر کہا کہ ’’ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان میری زندگی میں ہی قائم ہوگیا‘‘۔

قائداعظم سخت ترین آزمائشوں سے گزرے اور یہ تکلیفیں اور مسائل مرتے دم تک ساتھ رہے، سخت بیماری کے عالم میں بھی وہ پاکستان کے لیے متفکر تھے، غشی یا نیند میں وہ اکثر بڑبڑاتے۔

’’آج کشمیر کمیشن کو میرے پاس آنا تھا۔ وہ کیوں نہیں آئے، وہ کہاں ہیں؟ وہ کشمیر کے متعلق کیا کر رہے ہیں؟‘‘ دوران علاج جب ان کے معالج کرنل الٰہی بخش نے کہا آپ انشاء اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے تو قائد اعظم عجیب لہجے میں بولے:

’’جب آپ زیارت میں میرے پاس آتے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا، اب کوئی فرق نہیں پڑتا میں مرجاؤں یا زندہ رہوں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے جو کام ہاتھ میں لیا تھا وہ مکمل کرلیا‘‘۔ دوران گفتگو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

کوئٹہ سے کراچی آتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح کو آکسیجن دی جاتی رہی، ماری پور ہوائی اڈے پر جب قائداعظم کا طیارہ اترا تو اسی وقت ان کی حالت نازک ہونے کے باعث انھیں اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ڈالا گیا لیکن افسوس تھوڑی ہی دیر بعد ایمبولینس کے انجن میں خرابی پیدا ہوگئی، ایمبولینس کے اندر اتنا حبس تھا جو قائداعظم کے لیے نہایت خطرناک تھا۔ ان کے کپڑے پسینے سے تر ہوگئے اور انھیں دستی پنکھوں سے ہوا دی جانے لگی۔ دوسری ایمبولینس کا انتظام کیا گیا اور آخر کار قائداعظم منزل پر پہنچ گئے لیکن طبیعت تسلی بخش نہیں تھی، ڈاکٹر ان کی جان بچانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ لیکن موت کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا 10 بج کر بیس منٹ پر قائداعظم کی نبض رک گئی۔ اس طرح 11 ستمبر کا ایک عام دن بے حد افسوسناک، یادگار اور اہم ترین دن بن گیا۔

اس سال 11 ستمبر کو قائد کی یاد منانے کے بجائے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کراچی سمیت دوسرے کئی شہروں میں کاروبار زندگی معطل رہی۔ تعلیمی ادارے بھی بند کرا دیے گئے تھے اور کراچی میں طلباء کے پرچوں کو بھی موخر کردیا گیا، اخبارات کی سرخی بھی دل دہلا رہی تھی کہ باپ بیٹے اور پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد اپنے ہی خون میں نہا گئے۔ سکھ کا سانس لیا ہی تھا، پھر وہی قتل وغارت کا بازار گرم ہوگیا۔ حکومت وقت کا اولین فرض ہے کہ وہ ایسا لائحہ عمل اختیار کرے جس کی رو سے تمام جماعتوں اور اس کے کارکنوں کو زندگی کی ضمانت بحکم خدا مل جائے۔ کسی ایک جماعت یا سیاسی وغیر سیاسی لوگوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ جینے کا حق سب کو ہے۔ جیو اور جینے دو کی فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے نسل و زبان کی تفریق سے بالاتر ہوکر پاکستان بنایا تھا، یہ پاکستان سب کا ہے۔ اس ملک میں زندگی گزارنا تمام پاکستانیوں کا حق ہے، اس حق کو کسی ایک جماعت یا کئی جماعتوں سے چھین لینا زیادتی اور جبروقید کو بڑھانے کا سبب ہے۔ ایک دوسرے کو مارنا، ماؤں کی گودوں کو اجاڑنا، کہاں کا انصاف اور شرافت ہے؟ جو قومیں اپنے قائد کے یوم وفات کو مثبت انداز میں نہیں مناسکتی ہیں۔ وہ اپنے وطن کی حفاظت کس طرح کریں گی؟ یہ ایک سوال ہے، عوام و خواص کے لیے، بس غوروفکر کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی ہی پاکستان میں امن کا باعث ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔