اپنا ملک ہے … اپنے قوانین!!

شیریں حیدر  ہفتہ 14 ستمبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نہ میں tab پر فیس بک چیک کر رہی تھی، نہ کسی سے پیغام رسانی اور نہ ہی اپنا پسندیدہ کھیل candy crush کھیل رہی تھی، مگر پھر بھی میرے بریک لگاتے لگاتے… ہلکی سی ٹھک ہوئی اور دل میں ’’دھک دھڑک‘‘۔ گاڑی کو اسی جگہ پر بند کیا اور بیچ سڑک کے نکل کر میں اگلی گاڑی کی طرف چلی، کافی دیر سے موصوفہ دائیں طرف مڑنے کو بازو لہرا رہی تھیں اور تقریبا دو کلو میٹر سے وہ گاڑی اس طرح چلا رہی تھیں کہ اب مڑیں کہ تب مڑیں اور عین چوک میں پہنچ کر میں نے فرض کر لیا کہ اب وہ مڑیں کہ نہ مڑیں اور میں نے ہلکا سا بائیں کو رکھتے ہوئے جو گاڑی نکالنے کی کوشش کی تو یہ ٹھک کی آواز آئی تھی۔’’غلطی آپ کی ہے… ہمیشہ گاڑی پیچھے سے ’’ٹھوکنے‘‘ والے کی غلطی ہوتی ہے، یہ عالمگیر اصول ہے!‘‘ میرے وہاں پہنچتے ہی انھوں نے کہا، ان کی عمر ایسی تھی کہ مجھے ان سے لڑائی نہ کرنا تھی اس لیے تحمل کا دامن تھامے رکھا، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا، ’’میں نے پولیس کو بھی فون کر دیا ہے، وہ پہنچتے ہی ہوں گے!‘‘ انھوں نے مجھے تڑی دینے کے انداز میں کہا۔’’جب آپ دائیں مڑنے کا اشارہ دے رہی تھیں تو مڑیں کیوں نہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔’’ہیں؟

میں نے کب indicator دیا دائیں مڑنے کا؟‘‘’’تقریبا ایک کلومیٹر سے آپ اشارہ دے رہی تھیں ہاتھ لہرا لہرا کر…‘‘ میں نے غصہ دباتے ہوئے کہا۔’’وہ تو میں اپنی نیل پالش سکھا رہی تھی، مڑنے کے لیے تو کار کا برقی اشارہ استعمال کرتے ہیں!‘‘ انھوں نے اپنے لال نیل پالش سے رنگے ناخن مجھے دکھائے۔’’دو کلومیٹر سے آپ دو لین کے درمیان میں گاڑی چلا رہی ہیں… مجھے کیا علم کہ آپ کس سمت میں جانا چاہ رہی ہیں!‘‘ ’’اصل میں، میں نے جن سے گاڑی چلانا سیکھی تھی، میرے ان استاد نے بتایا تھا کہ گاڑی دو لین کے درمیان میں چلانا بہتر ہوتا ہے… اس سے ہمارے پاس ری ایکشن کا وقت ہوتا ہے…‘‘’’اپنے استاد صاحب کے قول کو اگر آپ اپنی گاڑی کے عقب میں بڑا بڑا لکھ کرآویزاں کر لیں تو کم از کم دیر سے آپ کو overtake کرنے کی کوشش کرنے والے کو آپ کے ارادوں اور نصب العین کے بارے میں علم ہو جائے…‘‘ ان سے سر کھپانا بیکار تھا، پولیس پہنچ چکی تھی اور ضروری کارروائی کر کے جان چھڑوا کر مجھے اپنے کام پر بھی پہنچنا تھا۔

ہمارے ہاں ہر وہ بچہ جس کے ہاتھ سٹئیرنگ تک اور پاؤں ایکسیلریٹر تک پہنچ جاتا ہے وہ گاڑی چلا سکتا ہے، لائسنس، گاڑی چلانے کی باقاعدہ تربیت اور احتیاطی تدابیر… ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر آپ ہائی وے پر گاڑی چلا رہے ہوں تو سب سے زیادہ ٹرک ڈرائیوروں کی  نفسیات سمجھنے کی ضرورت ہے، اگر وہ بائیں لین میں جا رہا ہے اور اس کے اشارے کی بتی دائیں کا اشارہ دے رہی ہے تو یہ مت سمجھیں کہ اسے دائیں مڑنا ہے، اس کا مطلب ہے، ’’ تسیں لنگ جاؤ، ساڈی خیر اے…‘‘ اگر وہ دائیں لین میں ہے اور اشارے کی بتی بھی دائیں سمت کا اشارہ دے رہی ہے تو اس کا مطلب بھی دائیں مڑنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں دائیں لین میں جا رہا ہوں اور اسی لین میں رہوں گا، کسی مائی کے لال میں ہمت ہے تو مجھے اس لین سے ہٹا کر دکھائے۔ ایسے ٹرک کو آپ overtake بھی نہیں کر سکتے خواہ اس کے لیے آپ کو میلوں اس کے ’’نقش قدم‘‘ پر چلنا پڑے۔

اس کے ناطاقت وجود اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں جو ان پر لدا ہو اہوتا ہے، ہر روز ایسے سیکڑوں ٹرک وفاقی دارالحکومت تک کی اہم شاہراہوں پر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں مگر کوئی ان سے ’’باز پرس‘‘ کرنے والا ہے؟بسوں، ویگنوں، چھوٹی وین اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے آگے اور پیچھے گاڑی چلانا، دونوں طرح سے خطرناک ہے۔ آپ لاکھ محتاط گاڑی چلا رہے ہوں  مگر جہاں ان کو ’’شکار‘‘ نظر آتا ہے وہاں انھیں یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی اہم شاہراہ پر ہیں اور ان کے پیچھے اور آگے گاڑیاں کس رفتار سے جا رہی ہیں اور ان کے یوں یک لخت بریک لگانے سے کیا کیا break ہو سکتا ہے۔ ان کے ڈرائیوروں میں سے کتنی ہی تعداد ایسے ڈرائیوروں کی ہو گی جنھوں نے نہ تو باقاعدہ ڈرائیونگ سیکھی ہو گی اور نہ ہی کئی کے پاس لائسنس ہوں گے، اگر کوئی لائسنس ان کے پاس ہو گا تو اس کا نام شاید licence to kill ہو گا۔آپ کے آگے چلنے والی گاڑی اگر zig zag یعنی مسلسل دائیں سے بائیں لین تبدیل کرتے ہوئے جا رہی ہے تو آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس گاڑی کو کوئی ایسا نوجوان چلا رہا ہے جسے یونیورسٹی یا دفتر سے دیر ہو رہی ہے کیونکہ وہ اپنے دن کا آغاز دس منٹ پہلے نہیں کر سکتا اور ہر روز اسی panic میں گاڑی چلاتا ہے، گاڑی بھی باپ کی خریدی ہوئی ہے اور اس کے کسی نقصان اور توڑ پھوڑ کی مرمت کی ذمے داری بھی باپ کی ہو گی۔

جو گاڑی قاعدے قانون کے عین مطابق، مناسب رفتار سے چل رہی ہو گی، اسے یا تو کوئی ماہر ڈرائیور چلا رہا ہو گا اور وہ بھی صاحب کی موجودگی میں یا صاحب خود چلا رہے ہوں گے، نادانی کا دور گزار کے، اپنی ہی غلطیوں سے سبق سیکھ کر، یہ سوچ کر کہ ہر روز اچھی گاڑی نہیں خریدی جا سکتی۔درمیانی لین میں، کم رفتار پر، لہراتے ہوئے چلنے والی گاڑی کا ڈرائیور، بابا جی ہوتے ہیں… انھیں نظر بھی کم آتا ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے… ہارن بجاؤ تو انھیں سنائی نہیں دیتا اور’’ لائٹ مارو‘‘ تو وہ اپنے عقبی آئینے میں دیکھ کر پوپلے منہ سے دل ہی دل میں ہنستے ہیں کہ اس عمر میں بھی انھیں لوگ  ’’لائیٹیں مارتے‘‘ ہیں، یہ کام خود تو وہ چالیس برس پہلے کر چکے۔آپ کے آگے اگر ایک ایسی گاڑی جا رہی ہو جس میں پیچھے چار ہٹے کٹے مرد ہاتھوں میں پکڑی رائفلوں اور متکبر چہرے کے ساتھ ساتھ، ہاتھوں کے اشاروں سے آپ کو تحقیر کا نشانہ بنا رہے ہوں اور ان چہروں پر تاثر ہو کہ راستے میں آنے کی کوشش کی تو انجام کی فکر خود کرنا…ان کا کیا ذکر کیا جائے۔

کوئی حل نہیں ہے اس protocol  کے نظام کا۔انتہائی دائیں لین… جو کہ آج کل اسلام آباد میں رکاوٹیں لگا کر بند کر دی گئی ہے اور جا بجا لکھا ہے کہ انتہائی دائیں لین خالی رکھیں… (پہلے دن ایسے بورڈ پڑھ کر میں سمجھی کہ ہائی وے پر ایک لین کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور نئی لین کو خالی رکھنے کو حکم ہے… مگر چند دن میں اندازہ ہوا کہ اس لین کو اس لیے بند کیا گیا ہے کہ ہمیں لین کی پابندی کرنا آ جائے چاہے اس کے لیے ہم اپنے دفاتر میں کتنی ہی تاخیر سے پہنچیں، صبح اور شام کے اوقات میں ایک ایک سگنل تین تین دفعہ بند ہو کر کھلتا ہے تو لین کم ہونے کے باعث گاڑی چوک سے گزرتی ہے) اس انتہائی دائیں لین میں، اگر ایک گاڑی پچیس تیس کلومیٹر کی رفتار سے مسلسل چلتی جا رہی ہو، نہ لین بدلے نہ کسی کو اوور ٹیک کرنے کا موقع دے تو اس گاڑی کو یقینا کوئی ’’بی بی‘‘ چلا رہی ہوں گی، جن کے استاد نے انھیں چند سنہری اصول ضرور سکھائے ہوں گے، ڈرائیونگ چاہے سکھائی ہو یا نہیں۔بلند آواز میں میوزک لگائے، ساتھ والی سیٹ پر tab پر facebook کھول کر رکھے ہوئے، ear plug لگا کرکان کے ساتھ ایک فون اور دوسرے پر candy crush کھیلتے ہوئے، آنکھوں میں کم خوابی کا خمار، دماغ میںکئی کہانیوں کے خیال، دل میں بچوں کے تصورات، اپنی ملازمت سے متعلقہ مسائل کی سوچیں… ارد گرد سے بے نیاز… اگر ایسی کسی گاڑی کے پاس سے آپ کا گزر ہو تو… مجھے ہاتھ ہلا کر ’’hi ‘‘ کہنا نہ بھولیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔