ایران پر حملہ روکنے کا بل منظور

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 20 جولائی 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ٹرمپ ایران کو دباؤ میں لانے کی جو کوششیں کر رہے تھے، وہ امریکی کانگریس کے اعلان کے بعد ٹن ٹن گوپال ہوکر رہ گئی ہیں۔ امریکی کانگریس نے نیشنل ڈیفنس اتھارٹی ایکٹ کی منظوری دے دی ہے ، اس میں کی گئی ترمیم ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے خلاف براہ راست جنگ میں جانے سے روکے گی۔

بھارتی خبررساں ایجنسی کے مطابق بل میں ترمیم سے امریکی صدر کوکانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر حملہ کرنے سے روکا جائے گا۔ امریکی ایوان نمایندگان نے این ڈی اے ترمیم شدہ بل کو 197 کے مقابلے میں 220 ووٹوں سے منظور کیا۔ خارجہ امور کی ایوان کمیٹی کے چیئرمین کانگریسی ایلیٹ اینگل نے ووٹنگ سے پہلے کہا، اگر صدر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ان کو کانگریس کے پاس جانا ہوگا۔ آئین کانگریس کو جنگ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے صدرکو نہیں۔ سینیٹ نے اس سیکیورٹی بل کی جون میں منظوری دی تھی۔ وائٹ ہاؤس نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس بل کو ویٹو کردیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال امریکا کے جوہری معاہدے کے ہٹنے کے بعد سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

دریں اثناء چین نے ایران کے خلاف امریکا کی غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوان نے صحافیوں سے کہا کہ چین نے کئی بار زور دیا ہے کہ ایران سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ چین کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہیں ایران کے ساتھ چین کے تعلقات منطقی اور قانونی ہیں  جن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا چین خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے تحفظ کے لیے امریکی اتحاد میں شامل ہوگا؟ گو ترجمان نے کہا ایک نظریاتی جواب کے طور پر (فارس) خلیج کے علاقے بین الاقوامی توانائی کی فراہمی اور عالمی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ متعلقہ فریق امن و امان قائم اور تحمل برتیں گے کشیدگی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے اور مشترکہ طور پر اس علاقے میں امن و استحکام برقرار رکھیں گے۔

مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھ کمزوریاں سہی ایک بات ان کی قابل قدر ہے کہ پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں قانون اور انصاف (جزوی طور پر) بہتر ہے جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ نا انصافیوں کا احتمال کم ہوتا ہے سیاسی شعبے میں بھی بدعنوانیوں کی وہ صورتحال نہیں جو پسماندہ ملکوں میں دیکھی جاتی ہے، امریکا کے صدر کو طاقتور ترین صدر کہا جاتا ہے لیکن بعض اہم معاملوں میں اس کے اختیارات بھی محدود ہیں یا مشروط ہیں۔ امریکا کے صدر ٹرمپ ایک جذباتی ہی نہیں بلکہ متضاد شخصیت کے مالک صدر ہیں اسے ہم سپر پاورکی دھاندلی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور ہی نہیں انتہائی ظالم ملک کے مقابلے میں ایران جیسے چھوٹے ملک کو ان ہتھیاروں سے محروم رکھنا چاہتا ہے جو اس کے دفاع کے لیے ضروری ہیں۔ کیا سپر پاور کی اخلاقی حیثیت اس قسم کے اقدامات سے مجروح نہیں ہوتی ۔ اب دنیا کو طاقتور اور کمزور کی تفریق سے باہر آنا چاہیے اور سیاسی اور سماجی مساوات کی طرف آنا چاہیے۔

دنیا کے ملکوں نے اقوام متحدہ کے نام سے جو ادارہ بنا رکھا ہے اس کی حیثیت مردہ گھوڑے جیسی ہے اگر اقوام متحدہ کو طاقتور اور بااختیار ادارہ بنایا جائے تو اس کے دو فائدے ہوسکتے ہیں ، ایک تو بین الاقوامی تنازعات میں اقوام متحدہ ایک بامعنی کردار ادا کرسکتی ہے دوسرے بڑی طاقتوں کی اجارہ داری سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ کیا بڑی طاقتوں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اس حوالے سے کردار ادا کریں۔

امریکا کی دھاندلیانہ سیاست یہ ہے کہ اس نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے تضادات کو سامنے رکھ کر عربوں کو خاص طور پر سعودی عرب متحدہ عرب امارات وغیرہ کو ایران سے الگ کرکے ایران کو علاقے میں تنہا بنانے کی کوشش کی۔ یہ سیاست نہیں بلکہ سازش ہے جس کا مقصد خطے کے واحد اسرائیل مخالف ملک کو بے دست و پا کرنا ہے۔ امریکی صدر نے بڑی منصوبہ بندی سے مشرق وسطیٰ میں میدان اپنی مرضی کے مطابق سجایا ہے اور علاقے میں جس ملک کا چاہیں گھیرا تنگ کرسکتے ہیں یہ ایک دھاندلی بھی ہے اور سیاسی بددیانتی بھی ہے جس کو روکا جانا چاہیے۔

امریکی کانگریس نے ٹرمپ پرکانگریس کی منظوری کے خلاف جنگ کے اقدام پر پابندی لگادی ہے ظاہر ہے کانگریس کو اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہوگا کہ ٹرمپ ایران پر ازخود حملہ کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا میں اس قسم کے واقعات ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ دنیا کے امن کا کسی ایک ملک کو چوہدری نہیں بنایا جاسکتا یہ ہماری دنیا کی بدقسمتی ہے کہ ٹرمپ جیسے جنگجوکو دنیا پر مسلط کردیا گیا ہے۔ دنیا میں اور بھی بڑی طاقتیں ہیں لیکن ان میں اس قدر خود سری نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جنگوں کا کلچر عام ہے۔ اس حوالے سے یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ دنیا کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور امریکا اور اسرائیل جنگوں کے کلچر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی ہونی چاہیے لیکن اگر اس میں امتیاز برتا گیا تو متعلقہ فریق ٹرمپ کی بات کیوں سنیں گے اگر ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانا ہو تو بلاامتیاز لگائی جانی چاہیے۔

ٹرمپ پر امریکی کانگریس نے اجازت لینے کی پابندی ایران نے یا دنیا کے کسی ملک نے نہیں لگائی بلکہ امریکی کانگریس نے لگائی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس اس حوالے سے ٹرمپ پر ٹرسٹ نہیں کرتی یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ دنیا کی سپرپاور کے حکمران پر عدم اعتماد کی بات ہے۔ اگر بات یہی ہے تو باعث شرم ہے اصل مسئلہ ایران کے تیل کا ہے تیل کی فروخت پر پابندی لگا کر امریکا نے ایران کی معیشت تاراج کردی ہے۔ امریکا کی غلامی سے آزادی چاہنے والوں کے ساتھ امریکا کا رویہ کس قدر غیر انسانی اور وحشیانہ ہوتا ہے قدم قدم پر اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی پابندیوں سے ایران کی معیشت تباہ ہوگئی ہے اگر امریکا کو ڈر ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا تو اس کا حل یہ ہے کہ امریکا دونوں ملکوں میں مذاکرات کرا کر پرامن طریقے سے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ سب بڑی طاقتوں کی مجرمانہ سیاست کا نتیجہ تھیں۔ ایران امریکا سے ہر متنازعہ مسئلہ پر مذاکرات چاہتا ہے لیکن یہ مذاکرات انڈر پریشر نہ ہوں بلکہ دو برابر کے ملکوں کے درمیان ہوں۔ ایران کو گھیرنے اور تنہا کرنے کے لیے امریکا جیسے جمہوریت پسند ملک نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پھوٹ ڈالی اور ان ملکوں سے دوستانہ بلکہ سرپرستانہ تعلقات قائم کیے جہاں بادشاہتیں ہیں شیوخ کی حکمرانیاں ہیں، اگر امریکا دنیا میں جمہوری نظام چاہتا ہے تو شخصی حکومتوں کی اسے حمایت ترک کرنی چاہیے ایک طرف وہ جمہوریت کا چیمپئن بنا بیٹھا ہے دوسری طرف ’’بادشاہوں اور امیروں‘‘ کا سرپرست اور نگہبان بنا بیٹھا ہے کیا ان دوغلی پالیسیوں سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔