جہاں گشت : دن کیا، رات کیا، خزاں کیا، بہار کیا، بس حکم ہوا تو پکارنا چاہیے حاضر و تسلیم۔۔۔!

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 21 جولائی 2019

قسط نمبر53

ہم اُس نوجوان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں اور چل پڑے یعنی  مرکزی شاہ راہ سے کسی ذیلی سڑک پر چلتے ہوئے بہت دُور کہیں آگے نکل گئے تھے، چلیے اس دوران یہ تو ہُوا کہ آپ جو سوالات فقیر سے کیے جارہے تھے وہ آسودۂ جواب تو ہوئے۔

اب یہ دوسری بات کہ آپ اس سے مطمئن بھی ہوئے اور قرار بھی پائے کہ نہیں، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات، کسی کے دل میں اتارنا تو فقیر سمیت کسی کے بھی بس میں نہیں، بس خالق کی صفت ہے کہ وہ قلوب کو پھیر دیتا ہے۔ تو اب واپس پلٹتے ہیں تو بابا کے ساتھ رہتے ہوئے خاصا عرصہ بیت گیا تھا اور ہمارے معمولات وہی تھے۔ فقیر نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ نوجوان آتا رہتا تھا لیکن مجھے وہ آج بھی اچھا لگتا ہے، ٹھیک ہے اس نے اپنا راستہ خود ہی منتخب کیا تھا لیکن وہ بابا کا احترام اسی طرح کرتا تھا اور کبھی کبھار آجاتا تھا، بابا بھی اس پر اسی طرح مہربان تھے۔ اس دوران میں تربیت کے مختلف ادوار سے گزرا، اس کے ذکر کا آپ کو کیا فائدہ ہوگا تو اسے رہنے دیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔

ایک دن جب ہم اپنے کام سے واپس آئے تو بابا نے فرمایا: بیٹا تمہیں اسی وقت ٹیکسلا جانا ہوگا۔ میں نے حیران ہوکر ان کی جانب دیکھا کہ یہ اچانک کیسے پروگرام بن گیا لیکن میں خاموش رہنا سیکھ چکا تھا، میری خاموشی دیکھتے ہوئے انہوں نے خود ہی مسکراتے ہوئے فرمایا: بیٹا جی! تم نے پوچھا نہیں کہ اچانک ہی میں تمہیں ٹیکسلا کیوں بھیج رہا ہوں ؟ بابا جی! مُردہ تو ہمیشہ زندوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تو کیا پوچھوں۔ میرا جواب سن کر انہوں نے مجھے اپنے سینۂ پُرراز سے لگایا اور فرمایا: پگلے! ہماری دنیا میں اچانک کچھ نہیں ہوتا، بس وقت آیا اور حکم ہوا تو پھر دیر کیسی، یہاں سارے موسم ایک جیسے اور ساری گھڑیاں ایک جیسی ہیں، دن کیا، رات کیا، خزاں کیا، بہار کیا، بس حکم ہوا تو پکارنا چاہیے حاضر و تسلیم اور پھر اس حکم کو بجا لانا چاہیے۔

بابا نے ایک تھیلا جس میں میرے کپڑے تھے اور ساتھ ہی ایک اور تھیلا بھی جس میں کھانے پینے کا کچھ سامان تھا، میرے حوالے کیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کہ میں وہ تھیلا اس کے مستحق تک پہنچاؤں۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ مجھے ٹیکسلا جانا ہوگا لیکن خان پور کے راستے سے، ایک جگہ کی انہوں نے نشان دہی کی اور باقی ہدایات، اور پھر مجھے رخصت کردیا۔ یہاں پھر میں نے ایک حماقت کی اور وہ یہ کہ مجھے کہا گیا تھا کہ میں خان پور، جہاں کے مالٹے بہت مشہور ہیں اور وہاں ایک ڈیم بھی ہے، کے راستے جاؤں، وہاں ایک جگہ کی نشان دہی کی گئی تھی باقی سب کچھ مجھے سمجھایا گیا تھا۔ لیکن میں نے بس اسٹاپ پر پہنچ کر سیدھا ٹیکسلا جانے کا پروگرام بنایا اور بس میں سوار بھی ہوگیا۔ اسلام آباد سے ٹیکسلا کچھ زیادہ دُور نہیں ہے، ٹیکسلا کے اسٹاپ پر اترا تو میں نے خان پور جانے والی گاڑی کا معلوم کیا، وہاں تک جانے کے لیے کوئی سواری نہیں تھی، تب میں جان پایا کہ مجھ سے حماقت ہوئی، اسلام آباد سے مجھے سیدھا خان پور ہی جانا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں حماقت کر ہی چکا تھا تو اب بھگتنا بھی تھا۔

مجھے ٹیکسلا سے اپنی مطلوبہ جگہ پہنچنا تھا۔ ٹیکسلا میوزیم تک تو مجھے ایک صاحب نے چھوڑ دیا تھا، وہاں سے میں پیدل ہی اپنی منزل کی جانب چل پڑا تھا لیکن خان پور خاصا دُور تھا، پختہ سڑک پر چلتے چلتے میں تھک چکا تھا لیکن ابھی منزل دُور تھی، میں نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد میرے قریب ایک سائیکل سوار مزدور آکر رکے۔ بوسیدہ لباس اور اس پر لکڑی کا بُرادہ لگا ہوا، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: کہاں جاؤ گے بیٹا ؟ خان پور، میں نے انہیں بتایا۔ میں بھی وہیں جارہا ہوں چلو پیچھے بیٹھ جاؤ اور میں ان کے سنگ ہولیا۔ ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ وہ ایک درخت کے نیچے ٹھہر گئے۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، وہاں کس سے ملنا ہے تمہیں ؟ یہ تو میں نہیں جانتا جی! میرا جواب سُن کر وہ مسکرائے اور کہا: تو پھر جیسے کہا تھا تو ویسے کیوں نہیں کیا تم نے؟ جی مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے انہیں بتایا۔ اچھا کرتے ہو تم کہ فوری اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتے ہو، اسی میں مواخذے کا خطرہ ٹل جاتا یا کم ہوجاتا ہے اور بچاؤ کا راستہ بھی نکلتا ہے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں اُن کی بات سن کر حیران ہوا ہوں گا، تو جی نہیں، میں قطعاً حیران نہیں ہوا، اس لیے کہ اب اس دنیا کی ذرا سی سُدھ بُدھ سے میں آگاہ ہوگیا تھا اور میرے ساتھ ہونے والے واقعات اس کی تصدیق کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بتایا: جب تم نے اپنا راستہ بدلا تو میں تیار تھا اور اسٹاپ پر پہنچا تو تم مجھے نظر آئے لیکن میں نے نظرانداز کیا کہ تمہیں تمہاری غلطی کا احساس تو دلایا جائے اور میں تمہارے پیچھے چلا آرہا تھا، جیسا کہا جائے ویسے عمل کرنا چاہیے تھا ناں، لیکن چلو تم نے اپنی غلطی مان لی ہے تو رعایت تو دینا ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد ہم پھر روانہ ہوئے، گاؤں سے باہر ایک چھپّر سا تھا، دُور تک بندہ نہ بندے کی ذات، اوپر اﷲ جی اور نیچے ہم بندے جی۔ اندھیرے نے روشنی کو وقتی طور پر پسپا کردیا تھا، بابا جی نے سائیکل چھپّر کے ساتھ کھڑی کی اور اندر داخل ہوئے، دیا سلائی سے لالٹین روشن کی اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئے۔ بیٹا جی دیکھ لو حویلی! اب ہم یہاں رہیں گے، پھر انہوں نے کھانا گرم کیا اور میں نے وہ تھیلا جو بابا جی نے مجھے دیا تھا ان کے حوالے کردیا۔ کھانا کھا کر میں نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی اور پھر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بابا جی تو سوگئے ہیں۔

میں باہر نکلا، وسیع سرسبز میدان جہاں چار سُو خاموشی نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، اشجار سر جھکائے محو خواب تھے، لیکن فلک پر بادلوں کی ٹولیاں بھٹکتی پھر رہی تھیں اور چاند ان سے چھپن چھپائی کھیل رہا تھا، دُور کسی گاؤں کے آثار تھے، میں اس منظر کے سحر میں بہت پیچھے ماضی میں جا نکلا تھا، نہ جانے کیا کچھ ایک فلم کی طرح رواں تھا، صرف رواں نہیں پوری جزئیات کے ساتھ، شانتی سے ابتدا ہوئی، پھر اس میں پَری داخل ہوئی اور پھر گُل بی بی میرے سامنے تھی۔ آپ بُھول سکتے ہیں فقیر نہیں، چلیے یاد دلاتا ہوں، وہی شانتی جو گلی میں جھاڑو لگاتی تھی اور اس سے بات کرتے ہوئے ابّا جی نے میری پٹائی کی تھی، یاد آیا آپ کو، اُس شانتی سے پانچ برس پہلے تک فقیر کا رابطہ بھی رہا پھر اس کا دیہانت ہوگیا، شانتی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا تو فقیر اس کی آخری رسومات میں بھی موجود تھا۔

پَری کو بھول گئے ناں آپ، وہی جب مجھے اغواء کیا گیا تھا تو اُس نے اپنی جان کی بازی لگا کر مجھے وہاں سے آزادی دلائی تھی، اور گُل بی بی! جب میں اس عقوبت خانے سے فرار ہوکر ایک بابا جی کے پاس پہنچا تھا تو ان کی اکلوتی بیٹی، جس نے ایک ماں کی طرح میری تیمارداری کی تھی۔ ایک بات بتاؤں، رب جی نے ہر بچی میں ایک ماں رکھی ہے، عمر کا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہر بچی اپنی فطرت میں ایک ماں ہی ہوتی ہے، ہاں اس سے رشتے بدل جاتے ہیں، لیکن اس کے اندر کی ماں غالب ہی رہتی ہے، ہاں اس عظیم کالی چادر والی ماں کو تو میں فراموش کرنا بھی چاہوں تو نہیں کرسکتا کہ وہ ہمیشہ میرے سنگ ہیں، کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سامنے موجود ہوتی ہیں، جی ڈانٹا بھی بہت کہ میری حرکتیں ہی ایسی ہیں، لیکن کبھی تنہا نہیں چھوڑا کہ ماں بھی کبھی اپنے بچے کو تنہا چھوڑ سکتی ہے بھلا۔ ڈانٹنے پر مجھے اپنی رضائی ماں یاد آئیں، راجپُوتنی ہیں، ضد پر آجائیں تو بس رب ہی انہیں باز رکھ سکتا ہے۔

دُبلی پتلی اور دراز قد لیکن رگ و پے میں برق بھری ہوئی، تھکن کس بلا کا نام ہے، وہ جانتی ہی نہیں، میں انتہائی شرارتی تھا، الٹے کام کرنا میری گُھٹّی میں ہے، نت نئی شرارتیں، عجیب سے شوق، جب بہت چھوٹا تھا تو کبھی نہیں مارا، لیکن آخر کب تک، ایک دن ایک زور دار تھپڑ رسید کیا، اور میں باہر کی جانب دوڑ پڑا، پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں، ان کی آواز آئی، رُک چھورا! لیکن میں باہر گلی میں تھا۔ ان کے شوہر جو میرے ابّا جی کے گہرے دوستوں میں سے تھے، کو میں ہاشم بابا کہتا تھا، بڑے زمین دار، اصیل، کھرے اور اپنی روایات سے انتہائی سختی سے جُڑے ہوئے راجپوت، انتہائی کم گو اور دوٹوک، گہری سانولی سیاہی مائل رنگت اور گھنی، دراز اور نوکیلی مونچھیں، دہلا دینے والی آواز، بلا کے بارعب اور وجیہہ، جہاں سے گزرتے وہاں سب خاموشی کو اوڑھ لیتے اور زمین کو دیکھنے لگتے، ہمیشہ سفید براق مایع لگے کپڑوں میں ملبوس، لیکن مجھے یاد ہے جب انہوں نے ذوالفقار بھائی کو ایک سرد رات میں پانی کی دھار کے نیچے کھڑا کردیا تھا اور انہیں پیٹ رہے تھے تو کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ انہیں روک لے۔

ہاں پھر میں نے جاکر ان کا ہاتھ پکڑنے کی جسارت کی تھی، لیکن انہوں نے مجھے گُھورا تو میں پلٹ آیا تھا اور دادی سے جاکر ان کی شکایت کی تھی، ضعیف و کم زور سی دادی نے جب یہ سنا تو میرے کاندھے پر ہاتھ دھرے وہاں پہنچیں اور پھر ان کی زوردار آواز گونجی: او چھورا ہاشم! ارے بہت جیادہ بگڑ گیا رے تُو، دفع ہوجا میری نجروں کے سامنے سے رے بدبخت۔ اور پھر منظر بدل گیا تھا، ہاشم بابا اپنی ماں کے پاؤں پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے، بس خاموش اور بوڑھی ماں انہیں معاف کرنے پر تیار نہیں تھیں، جی پھر میں نے ہی دادی، جن کا میں سب سے زیادہ چہیتا تھا، سے کہا: دادی! ’’بابا نے معاف کردے‘‘، اتنا سننا تھا کہ دادی نے انہیں معاف کردیا تھا۔ بہت لمبی داستان ہے ہاشم بابا کی بھی، ہاں مجھ فقیر کی ہر بات توجّہ سے سنتے ہی نہیں تھے، مان بھی جاتے تھے، رب تعالٰی نے موقع دیا تو سناؤں گا بھی، اُن کی وسیع حویلی کے اطراف میں دکانیں تھیں جو ہاشم بابا نے کرائے پر دی ہوئی تھیں۔ ان دکانوں میں عبدالرحیم حلوائی کی دکان بھی تھی۔

میں ماں کے دوسرے تھپڑ سے بچنے کے لیے باہر بھاگ نکلا تھا، پھر نہ جانے کیا ہوا، میں حلوائی کی دکان پر پہنچا اور اس سے پورے پانچ سیر مٹھائی تُلوائی، پیسے اس نے اس لیے نہیں مانگے کہ باقی دکان دار بھی نہیں مانگتے تھے، سب کے پاس ہمارا کھاتا کُھلا ہوا تھا، پیسے جانیں اور بابا، ہم تو بس خریدتے تھے، مٹھائی لے کر میں نے اپنی گلی کے پہلے گھر سے ابتدا کی، بدّن بُوا رہتی تھیں وہاں، میں نے انہیں ان کے حصے کی مٹھائی دی تو انہوں نے پوچھا، کس بات کی مٹھائی لے کر آئے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ آج پہلی مرتبہ ماں نے مارا ہے ناں تو اس لیے مٹھائی بانٹ رہا ہوں، پہلے تو حیران ہوئیں اور پھر کہا: بالکل ہی پگلا گیا رے تُو تو۔ میں نے جسے بھی مٹھائی دی تو اس نے یہی پوچھا جو بدّن بُوّا نے پوچھا تھا اور میں نے انہیں وہی جواب دیا جو میں نے بدّن بُوّا کو دیا تھا، سب ہی حیران تھے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں، بس چند گھر ہی رہ گئے تھے کہ میرے رضائی بھائی ذوالفقار میرے پاس آپہنچے، بھائی عمر میں مجھ سے خاصے بڑے تو تھے ہی لیکن ایثارومحبت کا مجسم بھی تھے، صرف میرے لیے ہی نہیں سب کے لیے، انتہائی دردمند انسان، انہوں نے آتے ہی مسکرا کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا: کیا کر رہا ہے رے تُو، تو میں نے انہیں بھی یہی بتایا، وہ مسکرائے اور کہا جلدی سے باقی گھروں میں مٹھائی دے لے اور چل میرے ساتھ گھر، ماں بلا رہی ہیں، اور پھر میں مٹھائی تقسیم کرکے ان کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ سارا محلہ ہمارے گھر جمع ہے۔

ماں نے مجھے جیسے ہی دیکھا تو وہ میری جانب دوڑیں اور پھر تو مت پوچھیے کیا ہوا، میں نے ماں کو کبھی روتے نہیں دیکھا تھا، لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ لپیٹے زاروقطار رو رہی تھیں، بس کہے جاتی تھیں: میرا پاگل چھورا، کیا کروں رے میں تیرے ساتھ، میں نے پہلی دفعہ ہاتھ اٹھایا تو مٹھائی بانٹنے لگا رے۔ بس وہ مجھے چومے جارہی تھیں اور روئے جارہی تھیں، سارا محلہ یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں ماں جی کا وہ لمس کبھی نہیں فراموش کرسکتا، کر ہی نہیں سکتا، میری زندگی میں وہ لمحہ امر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے بعد تو ماں جی سے جو تعلق بنا اسے بیان کرنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے، جب بھی مجھے دیکھتیں تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں اور پھر مجھ پر ان کا پیار برسات بن کر برستا۔ لیکن اس واقعے کے بعد ایک مصیبت بھی مجھ پر نازل ہوئی اور وہ یہ کہ محلے کے سارے بچے بہ شمول میرے رضائی بھائی بہنیں سب مجھے کوستے تھے اور وہ اس لیے کہ جب بھی کوئی بچہ اپنی ماں سے بدتمیزی کرتا تو اس کی ماں اسے کہتی: جاکر دیکھو اُسے اور کچھ سیکھو کہ ماں نے جب اُسے مارا تو اس نے کوئی بدتمیزی نہیں کی بل کہ وہ تو مٹھائی تقسیم کرنے لگا اور ایک تم ہو کہ ۔۔۔۔۔ کیسے کیسے نادر و نایاب اور اپنے منتخب بندوں کے ساتھ رکھا رب تعالٰی نے اپنے اس بے کارو بے مصرف بندے کو، ساری حمد و ثنا بس رب جلیل کے ہی لیے ہے۔ مالک ان سب کے درجات کو بلند کرتا چلا جائے اور فقیر کو کامل یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

میں ماضی میں گم تھا کہ اچانک ہی ایک بزرگ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے، میں انہیں پہلی نظر میں پہچان ہی نہیں سکا، جی وہی بابا جی تھے جن کے ساتھ میں آیا تھا، اُجلے کپڑے پہنے جن سے خوش بُو پھوٹ کر ماحول کو معطر کر رہی تھی۔ بیٹا! رات بھر سوئے نہیں بس ماضی میں کھوئے رہے جی بابا! سمے کا پتا ہی نہیں چلا کہ شب تیسرے پہر میں داخل ہوگئی ہے، میرے جواب پر مسکرائے اور بس مسکرائے، اور پھر نیّت باندھی اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرنے لگے اور میں چھپر میں داخل ہوکر دراز ہوگیا۔ نہ جانے کب مجھے نیند نے آگھیرا تھا، بابا کی آواز سے میری آنکھ کھلی، میں نے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی، پھر انہوں نے ناشتہ لگایا، رات کی باسی روٹی اور چائے کا مزا ہی نرالا ہے، سبحان اﷲ و بہ حمد۔

بابا نے اپنا پرانا لباس پہنا، سر پر رومال لپیٹا، راشن کا وہ تھیلا جو میں ساتھ لایا تھا، مجھے پکڑایا اور پھر ہم سائیکل پر جسے بابا چلا رہے تھے ایک سڑک جو واہ کینٹ جارہی تھی، پر رواں تھے۔ واہ کینٹ شروع ہوگیا تھا، سڑک کے کنارے ایک کارخانے جس میں آرا مشین لگی ہوئی تھی اور باہر درختوں کے تنے بے ترتیب پڑے ہوئے تھے، کے سامنے جاکر وہ رک گئے۔ انہوں نے سائیکل کھڑی کی اور ایک جانب چلنے لگے، کچھ فاصلے پر ایک کچے مکان کے سامنے پہنچ کر انہوں نے آوازہ لگایا اور ایک بچہ باہر نکل آیا، انہوں نے مجھے راشن کا تھیلا اندر رکھنے کا حکم دیا اور ہم واپس کارخانے پہنچ گئے۔ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہوگئی تھی، بابا نے آرا مشین کا بٹن دبایا اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔