شاہ سلمان نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کی اجازت دے دی

ویب ڈیسک  ہفتہ 20 جولائی 2019
امریکی وزارت دفاع نے بھی سعودی عرب میں فوجی دستے بھیجے جانے کی تصدیق کردی۔ فوٹو : فائل

امریکی وزارت دفاع نے بھی سعودی عرب میں فوجی دستے بھیجے جانے کی تصدیق کردی۔ فوٹو : فائل

ریاض / واشنگٹن: سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے خطے میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امریکی فوجی دستوں کی سعودی عرب میں تعیناتی کی اجازت دے دی۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خلیجی ریاستوں کو درپیش سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کے تحفظ اور پائیدار امن کے لیے امریکی فوجیوں کی آمد اور تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور امریکا طویل عرصے سے قائم مستحکم تعلقات کو خطے میں جنگ کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے استعمال کریں گے۔

امریکی افواج سعودی عرب میں پہلے بھی کئی بار تعینات رہی ہیں اور 2003 میں عراق جنگ ختم ہونے پر سعودی عرب سے روانہ ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد سعودی عرب میں امریکی افواج کی تعیناتی کا اب یہ پہلا موقع ہوگا۔

https://twitter.com/KSAmofaEN/status/1152337450230005762

دوسری جانب امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی دستے، جنگی ساز و سامان اور وسائل سعودی عرب بھیجے جائیں گے جو مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خطرات اور امن دشمنوں کو مذموم اقدامات سے باز رکھیں گے تاکہ خطے کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ایران نے برطانوی بحری جہاز پر قبضہ کرلیا 

ایک ماہ قبل خلیج عمان میں امریکا کے لیے تیل لے جانے والے سعودی بحری جہازوں اور سعودی آئل پمپنگ اسٹیشن پر حملوں کے بعد امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایران کے خلاف مشترکہ فوجی تعاون پر اتفاق کیا گیا تھا۔

یہ خبر پڑھیں : خلیجِ عمان کے آئل ٹینکر حملوں میں ایران ملوث ہے، امریکی وزیر خارجہ

واضح رہے کہ عالمی جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کے بعد پیدا ہونے والا تناؤ گھمبیر صورت اختیار کر گیا ہے اور مشرق وسطیٰ کے پانیوں پر جنگ کا سا سما ہے جہاں ایک جانب امریکی جنگی بیڑہ لڑاکا طیاروں سے لیس کھڑا ہے تو دوسری جانب ایران کے انقلاب پاسداران کی کشتیاں، ہیلی کاپٹر اور ڈرون کی نقل وحرکت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔